Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Khubsurti Ka Zaiqa

Khubsurti Ka Zaiqa

خوبصورتی کا ذائقہ

گزشتہ روز ایک دوست کے بچے کی شادی کی تقریب کے لیے میرج ہال بک کرانے جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے یہ دوست بڑے عرصے سےبیرون ملک مین مقیم ہیں لیکن بچے کی شادی پاکستان میں اپنے عزیزوں میں کررہے تھے۔ وہاں جاکر کھانے کا لمبا چوڑا مینیو دیکھا اس شادی ہال کا کھانا ہمارے شہر کا بہترین کھانا شمار ہوتا ہے اور رقم طے کرنے سے قبل کہنے لگے کہ پہلے مجھے اپنی کراکری اور فرنیچر دکھاؤ۔

شادی ہال والے منیجر نے لاکر اپنے استعمال ہونے والے برتن اور بیٹھنے کے لیے فرنیچر دکھایا تو وہ بڑے مایوس ہوئے اور کہنے لگے مجھے کھانے سے زیادہ برتنوں اور خوبصورت فرنیچر والے کسی شادی ہال میں لے چلو۔ یوں ہم نے کئی شادی ہال دیکھے مگر کوئی بھی ان کے معیار پر پورا نہ اتر سکا کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ خوبصورت ہال، جگمگ کرتے قمقموں اور کراکری سے زیادہ کھانے کی کوالٹی اور معیار کو دیکھا جاتا ہے۔

میں نے کہا کہ کراکری جیسی بھی ہو کھانا معیاری ہونا چاہیے تو کہنے لگے نہیں ہرگز نہیں کھانا جیسا بھی ہو اس کی خوبصورت کراکری اور پیش کش کا عمدہ انداز کا اپنا ایک الگ ہی ذائقہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ سونے چاندی کے برتن کیوں بنواتے۔ کھانا جب سونے یا چاندی کی قیمتی پلیٹ میں کھایا جاتا ہے تو اس کا ذائقہ الگ ہوتا ہے جسے "خوبصورتی کا ذائقہ" کہتے ہیں اور یہ خوبصورتی کا ذائقہ ہماری زبان کو نہیں ہمارے ذہن کو محسوس ہوتا ہے۔ کسی کھو کھے یا ڈھابے پر ملنے والا چائے کا کپ صرف ایک سو روپے کا ہوتا ہے وہی چائے کسی فائیوسٹار ہوٹل میں کئی ہزار میں ملتا ہے کیونکہ وہاں ماحول اور پیش کش کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور قیمتی کپ میں پیش کی جاتی ہے۔

دراصل خوبصورتی اور ذائقہ دونوں انسانی احساسات سے جڑے ہیں مگر دونوں کا تعلق الگ ہمارے حواس سے ہوتا ہے۔ ایک آنکھ کو بھاتا ہے دوسرا زبان کو لیکن انسانی دماغ ان دونوں کو الگ نہیں رکھتا بلکہ مکمل تجربہ بنا دیتا ہے۔ جدید دنیا اسے "ویلیو ایڈیشن" بھی سمجھتی ہے۔ لیکن اس کا تعلق زبان سے نہیں ذہن سے ہوتا ہے۔

چاکلیٹ اگر چمکدار اور رنگ برنگ ریپر میں ہو اور بسکٹ کا ڈبہ اگر خوبصوت اور دیدہ زیب ہو تو ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔ خوبصورت برتن یا قیمتی کراکری میں کھانا پیش کیا جائے تو انسان لا شعوری طور پر اسے "اعلیٰ" یا مزیدار سمجھتا ہے۔ دماغ اس خوبصورتی کو معیار اور ذائقے کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ جب کھانا سلیقے اور نفاست اور صفائی سے پیش ہو تو انسان اس نعمت کا زیادہ احترام کرتا ہے۔ یہی احساس اسے ہر لقمہ زیادہ ذائقہ دار محسوس کراتا ہے۔ رنگ، خوشبو، ساخت اور برتن یہ سب مل کر ایک کلی تجربہ بناتے ہیں ۔ جب آنکھ اور زبان مطمین ہوں تو ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔ خوبصورت ماحول اور کراکری انسان میں آرام اور اطمینان پیدا کرتے ہیں ۔ جس سے دماغ کی خوشگواری کھانے کو لذیذ تر بنا دیتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خوبصورتی کو نعمت کی تکمیل سمجھا جاتا ہے جیسےکہتے ہیں کہ "کھانا ہو یا بات انداز خوبصورت ہو" کیونکہ ذائقہ صرف زبان پر نہیں ذہن میں بھی ہوتا ہے اس لیے گندے اور پرانے برتن میں کھانا کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو ذائقہ نہیں دیتا۔ میرے اس دوست کی باتوں مین وزن تھا جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور دراصل ہم خوشنما اور قیمتی بلکہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کیوں پسند کرتے ہیں؟

جی ہاں! اس کے کئی نفسیاتی، سماجی اور جمالیاتی اسباب سامنے آتے ہیں ۔ قیمتی برتن میں کھانے سے انسان کو ایک نفسیاتی اطمینان اور احساس برتری حاصل ہوتا ہے۔ نفسیاتی طور پر وہ قیمتی اور خوبصورت برتن استعمال کرتا ہے تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ "خاص" ہے یا زندگی میں کسی مقام پر پہنچ چکا ہے۔ تاریخی طور پر بادشاہ، نواب اور امراء ہمیشہ سونے چاندی کے برتن استعمال کرتے تھے۔ یہ شاہانہ طرز زندگی بعد میں ایک علامتی معیار بن گیا۔ آج بھی لوگ ان قیمتی اور خوبصورت برتنوں کو عزت، شان اور مرتبے کی علامت سمجھتے ہیں ۔ اچھی اور خوبصورت کراکری اپنے اندر یقیناََ ایک جمالیاتی کشش رکھتی ہے اسے دیکھ کر انسانی حواس خمسہ متحرک ہو جاتے ہیں ۔ ذہن کو یہ تاثر ملتا ہے کہ جو چیز دیکھنے میں اتنی حسین ہے اس کا ذائقہ بھی ضرور منفرد ہوگا۔

یہ ذائقے کی بھی نفسیات ہے کہ عام سا کھانا بھی قیمتی برتن میں پیش ہو کر زیادہ لذیذ محسوس ہوتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ یہ چلتا ہے کہ برتن اور "پیشکش" کھانے کا ذائقہ بدل دیتی ہے۔ خوبصورت برتن، رنگوں کا توازن اور روشنیوں کی جھلک یہ سب دماغ کو دھوکہ دیتے ہیں کہ کھانا بہتر ہے۔ دوسری جانب شادیوں اور تقریبات میں لوگ یہ قیمتی کراکری دوسروں کو اپنی حیثیت اور رعب و دبدبہ ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے معاشرتی دباؤ یا دکھاوے کی نفسیات ہوتی ہے جو ان کی ظاہری نمائش کی خواہش کا اظہار بن جاتی ہے۔ بہر حال اچھی اور صاف ستھری کراکری میں کھانا انسانی جبلت اور خواہش ہوتی ہے۔

مجھے ان دوست کی بات سن کر ایک اور پرانی تحریر یاد آگئی کہ کہتے ہیں کہ ایک پروفیسر نے سب شاگردوں کو مختلف کپ شیشے کے، چینی کے اور سادہ قیمتی، کچھ پرانے، کچھ نئے پیش کئے اور ایک ہی کیتلی سے ان میں چائے ڈالی تو شاگردوں نے فوراََ خوبصورت اور مہنگے کپ اٹھا لیے تو پروفیسر مسکرایا اور بولا "تم نے سب سے بہتر اور خوبصورت کپ چنے لیکن چائےتو سب میں ایک ہی تھی" دراصل زندگی چائےکی طرح ایک سی ہی ہوتی ہے اور کپ دراصل ہمارے عہدے، دولت ظاہری چیزیں ہیں ۔ یہ چیزیں زندگی کا معیار نہیں بڑھاتیں بس توجہ ہٹا دیتی ہیں ۔ زندگی کو سادگی سے جیو اصل مزا چائے میں ہے کپ میں نہیں ہوتا۔ یہی ہماری زندگی کی اصل حقیقت ہے۔

صاف ستھرے برتن کا استعمال ضرور کریں لیکن طاقت، دولت کے اظہار سے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنے کی بجائے ان کی مدد کرکے اپنے لیے عزت پیدا کر و تاکہ حقیقی سکون میسر ہو سکے۔ زندگی کا اصل ذائقہ سادگی، اخلاص اور دل کی سکونت میں ہے۔ کئی لوگ اپنی زندگی کو چمکدار برتنوں کی طرح بنا لیتے ہیں باہر سے شفاف اور دلکش مگر اندر سے خالی یا بے ذائقہ۔ جبکہ جو لوگ سادے سچے اور قناعت پسند ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی شاید مٹی کے صاف شفاف پیالے جیسی لگے مگر اس میں محبت، سکون او ر لذت کا اصل مزہ ملتا ہے۔ یقینا" زندگی کی لذت قیمتی برتنوں میں نہیں بلکہ ان ہاتھوں میں ہوتی ہے جو محبت سے نوالہ بڑھاتے ہیں ۔ قیمتی برتن آنکھوں کو بھاتے ضرور ہیں لیکن دل اور روح کی بھوک سادگی ہی مٹاتی ہے جہاں قدرتی ذائقہ اور روحانی تسکین بھی چھپی ہوتی ہے

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari