Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Khauf Aur Yaqeen

Khauf Aur Yaqeen

خوف اور یقین

بچپن کی کہانیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں وہ جب بھی سامنے آتی ہیں ہمیشہ نئی لگتی ہیں۔ گذشتہ دنوں بہت پرانی کہانی کو فیس بک پر پھر سے پڑھنے کا پھر اتفاق ہوا تو وہ آج بھی نئی اور حقیقت سے قریب ترین محسوس ہوئی۔ وہی منقول ہے۔ کہتے ہیں کہ دور دراز کے کسی علاقے میں ایک بستی تھی۔ وہاں لوگ ہمیشہ پریشان رہتے تھے وجہ یہ تھی کہ ہر سال ایک خوفناک دیو وہاں آتا اور بستی والوں کو للکارکر کہتا کیا کوئی مرد ہے تمہارئے درمیان جو مجھ سے مقابلہ کرئے، کیا کوئی ایسی ہمت رکھتا ہے جو مجھے ہرا سکے؟ اور یوں ہر سال کسی نہ کسی انسان کو مار ڈالتا ہے۔ آج بھی وہی دن تھا اور دیو کی آمد سے گاوں والے سخت ڈرے ٔ ہوئے اور پریشان تھے۔ کہ آج پھر ہماری بستی کا کوئی نوجوان جان سے جائے گا۔۔

اتفاقاً اسی دن، ایک مرد مجاہد وہاں جا پہنچا۔ جب اس نے پورے گاؤں میں موت جیسا سوگ دیکھا تو بہت حیران ہوا اور بےچین ہوکر پوچھا "تم لوگ اتنے پریشان کیوں ہو؟"بستی والوں نے حالت سنائی اور بتایا کہ ہر سال ایک دیو آتا ہے مقابلے کے لیے کسی مرد کا مطالبہ کرتا ہے اور پھر گاوں کا ایک انسان مار دیتا ہے۔ تو مرد مجاہد نے پوچھا "تو اس سال تم نے کس کو مقابلے کے لیے چنا ہے؟" بستی والوں نے ایک نوجوان کو لا کر اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا۔ وہ نوجوان پژمردہ، کمزور اور نحیف دکھائی دیتا تھا۔ اس کے جسم سے واضح تھا کہ وہ کسی لڑائی یا مقابلے کے قابل نہیں۔ مرد مجاہد نے اسے دیکھ کر حیرت سے سر ہلایا، پھر بولا، اس بار دیو کا مقابلہ تم لوگ نہیں کرو گے۔ میں خود اس کے ساتھ لڑوں گا۔

دیکھتے ہیں اس میں کتنی طاقت ہے۔ مرد مجاہد کے اس حوصلے پر بستی والوں کے چہروں پر امید کی کرن جاگی۔ انہیں پہلی بار امید لگی کہ شاید آج ان کی مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے۔ میدان میں بیٹھ کر مجاہد نے دیو کے نمودار ہونے کا انتظار کیا۔ تھوڑی دیر بعد دور سے ایک خوفناک سایہ آتا دکھائی دیا اور ایک بہت بڑا دیو سامنے آیا۔ اس کا قد آسمان کو چھو رہا تھا اور وہ ہاتھ میں تلوار لیے آرہا تھا۔ بار بار وہی سوال دہرا رہا تھا "کیا کوئی ہے تمہارے اندر ایسا جوان جو مجھ سے مقابلہ کرے؟" کیا تمہارے درمیان کوئی مرد نہیں جو مجھ سے لڑ کر مجھے ہرا سکے؟ جب اس کی آواز سنائی دی تو پورا گاوں سہم گیا۔ مجاہد بھی ایک لمحے کے لیے گھبرا اٹھا۔ مگر پھر خدا کا نام لے کر میدان میں کود پڑا اور دیو کو للکارا "ہاں، میں ہوں" میں مقابلہ کروں گا میں تمہیں ہرا دوں گا۔

آؤ دیکھتے ہیں کس میں کتنا دم ہے؟ یہ کہتے ہی وہ دوڑا اور دیو بھی اسی طرف لپکا۔ جوں جوں وہ قریب آیا، محسوس ہوا کہ دیو کا قد کم ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے وہ آسمان کو چھوتا ہوا پہاڑ محسوس ہورہا تھا، پھر ہاتھی کے برابر، پھر ایک عام انسان، پھر بچے کے قد تک سکڑ گیا اور جب وہ بالکل قریب پہنچا تو ایک مینڈک کے برابر رہ گیا۔ مجاہد نے تلوار اس کے سینے میں گھونپ دی اور پھر جھک کر پوچھا، تم کون ہو؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ پہلے تم اتنے بڑے تھے۔ پھر جیسے ہی میں ہمت اور حوصلے سے تمہاری طرف دوڑا، تم چھوٹے ہوتے چلے گئے؟ دیو نے مرنے سے پہلے بس ایک ہی جواب دیا، میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ میں تو انسان کے دل میں پلنے والا خوف ہوں۔ جتنا وہ خود پر حاوی کرے گا اتنا ہی میرا قد بڑھتا چلا جائے گا اور جب وہ اس خوف کو دل سے نکال کر پھینک دے تو میری بھی کوئی وقعت نہیں رہتی۔

خوف صرف اُتنا ہی طاقتور ہوتا ہے جتنا تم اسے اپنے دل میں جگہ دیتے ہو جب انسان ہمت، ایمان اور حوصلے سے خوف کا سامنا کرتا ہے تو وہ خوف خود بخود چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ ڈر کے آگے جھک جائے، تو یہی خوف اس پر حاوی ہو کر اسے کمزور کر دیتا ہے، بےشک انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ نہیں جو سامنے ہے بلکہ وہ ہے جو دل میں بسا ہوا ہے اور خوف کبھی حقیقت نہیں ہوتا یہ تو وہم ہوتا ہے۔ یعنی انسان کی اصل طاقت اس کا یقین ہے اور اس کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا خوف ہے اور خوف ایک ایسی زنجیر ہے جو نظر نہیں آتی مگر انسان کے یقین کو جکڑ لیتی ہے۔ "بھے کا بھوت" اسی زنجیر کی علامت ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان دو خوف اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے ایک اونچی اور بلند آواز اور دوسرا گرنے کا خوف ہوتا ہے۔ باقی سب خوف وہ خود پیدا کرتا ہے۔ خود پالتا ہے اور پھر اس کے ہاتھوں قیدی بن جاتا ہے۔ یہی وہ "بھے کا بھوت" ہے جو اس کے اعصاب، سوچ اور فیصلوں پر قابض ہو جاتا ہے۔ ہم اکثر ان چیزوں سے ڈرتے ہیں جو دراصل کچھ بھی نہیں ہوتیں۔ کل کا خدشہ، ناکامی کا اندیشہ، بیماری کا وہم، غربت کا ڈر یہ سب وہ بھوت ہیں جو زندگی کے سورج کو دھندلا دیتے ہیں۔ انسان کے اندر خوف جتنی زیادہ جگہ گھیرتا ہے یقین اتنا ہی پیچھے ہٹتا جاتا ہے۔ آج کا معاشرہ بھی اسی بھوت یا دیو کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ آج تیز ترین میڈیا اور جھوتا پراپیگنڈا ہمیں ہر لمحے ایک نئے خطرئے کی تصویر دکھاتا ہے۔

یہ جھوٹ اس تواترسے بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے۔ آے دن بدلتی ہوئی جدید سائنسی تحقیقات اور تباہ کن ہتھیاروں کے تجربات اور ان کی تباہی ہمیں خوفزدہ کر رہی ہیں۔ کبھی معیشت گرنے کی اور بھوک کا خوف، کبھی دشمن ملک کے حملے کا خوف، کبھی ایٹمی جنگوں کی دہشت، کبھی بیماریوں اور وباء کی خبریں، تو کبھی روزگار کھو دینے کا اندیشہ، یوں لگتا ہے کہ جیسے پوری دنیا ایک خوف کی بستی بن گئی ہے اور انسان وہاں قیدی سا ہو کر رہ گیا ہے۔ گو کہ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ خوف انسان کی بقا کے لیے ضروری بھی ہے خوف دشمن نہیں ہے یہ الارم ہے جو بظاہر آپ کو خطرے سے بچاتا ہے لیکن اس کا اصل ایجنڈا آپ کو کسی تبدیلی یا نقصان سے بچانا ہوتا ہے۔

مگر جب یہ ذہنی دباؤ یا وہم بن جائے تو تباہ کن ہوجاتا ہے۔ خوف ہمیں محتاط کرتا ہےخبردار کرتا ہے جبکہ وہم ہمیں معذور بناتا اور ہے مایوس کرتا ہے۔۔ آج دنیا میں ڈئپریشن، ذہنی دباؤ اور وہم سب سے بڑی اور خوفناک بیماری بن چکا ہے۔ جو لوگوں کو تیزی سے مایوسی اور تنہائی کی طرف راغب کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی خودکشیاں اس بات کی گواہی ہیں کہ خوف کا عفریت اب انسان نگلنے لگا ہے۔ ایک عام آدمی کی تخلیقی صلاحیت، ہمت، حتیٰ کے محبت کرنے کی طاقت بھی ڈر کی گرفت میں کمزور پڑ جاتی ہے۔ خوف کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسانی معاشرے کو ماضی کے صدموں اور مستقبل کے خوف میں مبتلا کرکے حال کی حقیقت سے دور کر دیتا ہے اور خوفزدہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کر پاتے کیونکہ وہاں انسان سوچنے اور مقابلہ کرنے کی بجائے خوفزدہ ہو کر چھپنے اور بھاگنے لگتا ہے۔ شاید اسے ہی" بھے کا بھوت"کہتے ہیں۔

اصل میں "بھے کا بھوت" کوئی دیو یا جن نہیں ہوتا یہ ہماری کمزور سوچ کا سایہ ہوتا ہے۔ جس دن ہم یقین سے سوچنا اور سامنا کرنا شروع کردیں، سچائی سے جینا سیکھ لیں اور اللہ پر بھروسہ کرلیں اس دن یہ بھوت رفتہ رفتہ چھوٹا ہوکر خود بخود غائب ہو جاتا ہے۔ خوف کا علاج دو لفظوں میں چھپا ہے "یقین اور عمل" یقین سے دل کو مضبوط کریں اور عمل سے اپنے وہم کو مات دیں۔ بےشک وہم، ذہنی دباؤ اور مایوسی سے لڑنے کے لیے یقین ہی بہترین ہتھیار ہے۔ ورنہ یہ بھوت ہماری کئی نسلوں تک وہی اندھیرے منتقل کرتا رہے گا جن کا ہم شکار رہے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ "جو شخص اپنے خوف پر قابو پالیتا ہے وہ دراصل اپنی تقدیر پر قابو پا لیتا ہے"۔ بےشک ایمان ویقین ہی وہ چراغ ہیں جو خوف کے اندھیرے ٔ دور کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے یہاں تک کے ہمارئے مسائل بھی نہیں ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan