Kat-te Darakht, Toot-te Pahar Aur Phat-te Badal
کٹتے درخت، ٹوٹتے پہاڑ اور پھٹتے بادل

ترکیہ والوں کی ایک کہاوت ہے کہ دریا ایک سانپ ہے اور پتھر اس کے انڈے۔ یہ سو سال بعد بھی اپنے انڈوں کو سینکنے ضرور آتا ہے۔ اس لیے جس حد میں پتھر ہیں وہ دریا کی حدود ہوتی ہیں۔ یہ ہماری ہی کوہتایاں ہوتی ہیں کہ ہم دریا کے راستے میں آجاتے ہیں۔ دریا راستے تک نہیں آیا بلکہ راستہ دریا کی حدود میں چلا گیا۔ مجھے سوات بونیر سے اس لیے بھی بہت لگاو ہے کہ ہمارے اجداد نے بونیر سے ہی تین سو سال پہلے ہندوستان ہجرت کی تھی۔
بونیر میں نہ تو کوئی دریا ہے نہ کوئی قابل ذکر ندی نالہ بظاہر یہ رہنے کے لیے ایک پرامن جگہ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ اس سے بعض لوگوں کی یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی کہ سیلاب صرف دریاوں، ندی، نالوں کی وجہ سے ہی آتے ہیں یا اگر دریا سے دور گھر بنا لیے جائیں تو وہ محفوظ رہیں گے۔ بونیر کے اس سیلاب نے بہت کچھ صاف کردیا ہے کہ اب ہر ایک کو سیلاب سے خطرہ ہے چاہے اس کا گھر کسی محفوظ وادی یا پہاڑ کی چوٹی پر ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ہونے والی گلوبل وارمنگ یعنی کاربن کے عالمی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ترقی یافتہ ممالک کا کیا دھرا ہے لیکن ہم ان نقصانات کو کم کرکے ان سے بچ سکتے تھے مگر ہم تو فطرت سے لڑنے لگے ہیں دریاوں کے راستوں پر گھر بنانے کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ دریاوں میں لکڑی کی جو تعداد بہہ کر ہمارے ڈیموں تک پہنچی ہے اس نے حیران کر دیا ہے کہ ہم کس قدر لکڑی کاٹ رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ہم اپنے جنگلات کا اٹھارہ فیصد بے دردی سے کاٹ چکے ہیں۔ ہمارے ڈیم ان لکڑیوں سے بھر چکے ہیں بلکہ پانی کی جگہ آج لکڑی بہتی آرہی ہے۔ بارشیں پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن اس وقت جنگل گھنے ہوا کرتے تھے جو اسپیڈ بریکر کا کام کرتے تھے۔ اس لیے بارش کا پانی نہ تو جمع ہوتا تھا بلکہ زیادہ تر پانی زمین میں جذب ہو جاتا تھا۔ درختوں کی جڑیں مٹی کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھتی ہیں یوں نہ تو زمین کٹتی اور نہ بوند بوند پانی جمع ہوکر سیلاب بنتا۔ اب ایسا نہیں ہے کہ پہاڑ بنجر ہو گئے ہیں اور دوچار بوندیں گرنے سے ہی پانی جمع ہوکر نیچے کی طرف بہتا ہے اور راستے میں آنے والے مٹی کے پتھر بھی بہا لے جاتا ہے بلکہ اب کلاڈ برسٹ کی وجہ سے پانی کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
یہ پانی اپنی شدت کی باعث راستے میں آنے والے بڑے بڑے پتھر بھی بہا لے جاتا ہے۔ دریا تک پہنچتے پہنچتے یہ پانی اور پتھروں کا سیلابی ریلا بن جاتا ہے اور پھر راستے میں آنے والے گاوں دیہاتوں کو تباہ کرکے زیریں علاقوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ کاش ان بنجر پہاڑوں پر اتنے درخت ہوں کہ نہ پانی جمع ہو اور نہ زمینی کٹاو ہو سکے۔ جب پانی ڈھلوان پر پھسلنے کی بجائے درختوں کی رکاوٹ سے زمین کے اندر جذب ہو تو سیلاب کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم سیلابوں کو روک نہیں سکتے یہ ازل سے ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن ہم ان کے نقصانات ضرور کم کرسکتے ہیں اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ درختوں کو کاٹنا بند کریں اور نئے درخت لگائیں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائیں اور دریاوں کے راستے بند نہ کریں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا دنیاوی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
درختوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ تعمیرات اور سڑکوں سے پہاڑوں کی کٹائی کا المیہ بھی سامنے آرہا ہے جس کی باعث پہاڑ کمزور ہو کر ٹوٹنے لگتے ہیں اور پانی کی طاقت کے سامنے نہیں ٹھہر پاتے۔ اب اسے آفت کہیں، آزمائش کہیں یا پھر انسانی کوتاہئیاں سمجھیں، انسانی غفلت یا قومی رویہ بہرحال اس تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک قومی المیہ ضرور ہے اور یہ قومی معیشت پر ایک ایسی ضرب ہےجس کا ازلہ جلد ممکن نہیں ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے کم از کم پچیس فیصد ایریا پر جنگلات ہونے چاہییں جبکہ پاکستان میں صرف پانچ فیصد ہیں اور انہیں بھی تیزی سے کاٹا جارہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارا ملک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔
دل دکھ رہا ہے عجیب سی اداسی چھائی ہے بونیر کا سوسالہ پرانہ اور خوبصورت گاوں بشنوئی کو چند لمحوں کی بارش نے کھنڈر بنادیا اور اسی سے نوئے گھروں میں سے نصف کا نام نشان مٹ گیا سب مٹی کا ڈھیر بن گئے اور باقی ناقابل رہائش ہوچکے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق آپ زمین پر نہیں کسی کے گھر پر کھڑے ہیں جہاں"ہر پتھر کے نیچے ایک مکان دبا ہے" اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے نہ صرف گھر اجاڑ دیے بلکہ سینکڑوں زندگیاں بھی نگل لیں اور پورا گاوں آج بھی شدید صدمے میں ہے۔
یہ وہی گھر تھے جو لوگوں نے برسوں پائی پائی جمع کرکے بنائے تھے۔ ایسے ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ بیان کرنے سے بھی دل لرزتا ہے۔ بونیر کے سیلاب سے کچھ لاشیں ایسی بھی ملی ہیں کہ کسی کا ایک عضو تو کسی کا دوسرا عضو نہیں تھا۔ مگر بونیر سے ایک ایسی ویڈیو بھی آئی ہے کہ ایک ماں نے اپنے بیس دن کے بچے کو سینے سے جدا نہیں ہونے دیا۔ دونوں دنیا سے ایسے ہی رخصت ہو گئے جہان اعضاء جدا ہو رہے ہوں وہاں ماں کی ممتا نے مر کر بھی بچے کو سینے سے لگائے رکھا۔
کہتے ہیں کہ بونیر میں قبریں کھودنے والے ہاتھ کم پڑگئے قریبی گاوں سے مدد مانگی گئی۔ کفن ختم ہو گئے، خواتین کو غسل دینے کے لیے عورتیں دوسرے گاوں سے پہنچیں۔ بونیر سے جب یہ اعلان کیا گیا کہ بونیر کے نوجوان ختم ہو گئے ہیں صوابی اور مردان والو اپنے جگر کے ٹکڑے دو ہمارے کندھوں کو سہارا دو ہماری قبروں کو مٹی دو تو یہ اعلان کسی سانحے کی نہیں بلکہ قیامت صغریٰ کی گواہی دے رہا تھا۔ ابھی تو امدادی کاروائی جاری ہے ابھی تو ملبہ ہی صاف نہیں ہو پارہا ہے ابھی ناجانے ایسی ہی کتنی ہی دردناک اور لرزہ خیز داستانیں ان کھنڈروں اور ملبوں میں دبی ہیں۔
شہداء کی تعداد کا تعین تو ابھی ممکن نہیں ہو سکتا البتہ زخمیوں کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آرہی ہے۔ یہی ایک گاوں نہیں بلکہ پورا خیبر پختونخواہ اس وقت اس آفت کی زد میں ہے۔ یاللہ! سیلاب زدگان پر رحم فرما ان سب کے لیے آسانیاں پیدا فرما دے اور دکھ کی اس گھڑی میں صبر و استقامت اور بلند ہمت و حوصلہ عطا فرما۔ تیری غیبی امداد ہی ان کے دکھوں کا مداو کر سکتی ہے۔ بےشک تو رحمان اور رحیم ہے۔ ہمیں ہر سطح پر ان لوگوں کی مدد اور بحالی قومی فریضیہ سمجھ کر کی جانی چاہیے۔
دنیا کے ہر خطے میں قدرتی آفات آتی ہیں۔ جاپان میں زلزلے، یورپ میں سیلاب، امریکہ میں برفانی طوفان مگر نقصانات کم ہوتے ہیں کیونکہ وہاں حکومت اورعوام سائنس کی بنیاد پر تیاری کرتے ہیں ہر دور میں کامیابی کا راز یہی یہے کہ فطرت اور قدرت سے لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھیں۔ کہتے ہیں کہ دریائے نیل بڑے عرصہ تک شہروں کو سیلابوں سے ڈبوتا رہا پھر مصریوں نے طویل محنت سے نہریں، پشتے اور آبی ذخائر بنا کر سیلاب کو کھتی باڑی میں بدل دیا۔
ہالینڈ کا تقریباََ آدھا ملک سمندر سے نیچے پے اور صدیوں تک وہ لوگ سیلاب میں ڈوبتے رہے لیکن پھر انہوں نے ڈائکس اور مصنوعی جزائر بناکر سمندر کو ایک طرح سے دیواروں کے پیچھے قید کردیا اور آج وہ دنیا کا محفوظ ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ جاپان میں سمندری طوفان اور بارشوں کی وجہ سے شدید سیلاب تباہی لاتے تھے پھر انہوں نے دریاوں کے کنارے اور پہاڑوں پر جنگلات اگا دیئے تاکہ بارش کا پانی آہستہ آہستہ نیچے آئے۔ ایسی ہی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے وقت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا اور قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کم کیا۔ جو قومیں علم اور سائنس کو اپنا ہتھیار بناتی ہیں قدرت بھی ان کی محافظ بن جاتی ہے۔
یاد رکھیں کہ قدرت کبھی سزا نہیں دیتی سزا ہم اپنی کوتاہیوں، نادانی اور غفلت سے خود تراشتے ہیں۔ ہر آزمائش اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ کا فیصلہ ہمیشہ سر آنکھوں پر ہونا چاہیے۔ بایزید بسطامیؒ نے ایک مر تبہ کہا تھا کہ "ہوا کا رخ بدلنے کی کوشش کرنے والا تھک جاتا ہے منزل تک وہی پہنچتا ہے جو ہوا کے ساتھ سفر کرے"۔ ہمیں بڑے بڑے نقصانات سے بچنے کے لیے جدید سائنسی کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا۔ مستقبل کی پیش بندی ابھی سےقومی سطح کے ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر سطح پر کرنا ہوگی۔
آئیں ماضی کو دیکھ کر مستقبل کی جانب متوجہ ہوں ابھی ہمارے پاس وقت ہے ہمیں درخت بچانے ہو نگے اور درخت لگانے ہوں گے ہرخالی جگہ پر درخت آج کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ یہ سیلاب پہاڑوں سے اتر کر میدانوں میں آئے گا جہاں اس کا پانی بڑے علاقے میں پھیل کر تباہی مچا سکتا ہے۔ اپنی صف بندی اور احتیاطی تدابیر ابھی سے کر لیں۔ حکومت پنجاب اور سندھ کو ابھی سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

