Kapas Ka Bojh Aur Kisan Ka Dard
کپاس کا بوجھ اور کسان کا درد

گذشتہ روز ہمارے دوست مہر فیض محمد صاحب جو کاشتکار بھی ہیں نے میری توجہ کپاس کی فصل کی موجودہ صورتحال کی جانب مبذول کرائی اور بتایا کہ گذشتہ سال گندم کے بعد کپاس کی فصل بھی مناسب داموں پر فروخت نہیں ہو پا رہی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اب تو مارکیٹ میں کپاس کا خریدار ہی دکھائی نہیں دیتا۔ ٹیکسٹائل والوں نے بھی شاید باہر سے کپاس منگوا لی ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق کپاس کی تقریباََ سات لاکھ گانٹھ مقامی جننگ فیکٹریز میں آج بھی موجود ہیں جن کا خریدار دکھائی نہیں دیتا اور اگر ادھار فروخت کردیں تو اسکی ادائیگی بڑی مشکل ہے اور ریٹ بھی کم ملتا ہے۔ جس کے باعث مقامی کپاس کی طلب میں واضح کمی دکھائی دئے رہی ہے۔ ہمارا مقامی کاشتکار تب شدید پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے جب اسے اس کی فصل کی مناسب قیمت نہ مل سکے اوراگر ملے بھی تو اسکے اخراجات پورئے نہ ہو پائیں؟
ہمارے دوست پروفیسر مدحت کامل حسین جو ایک زمیندار اور ماہر زراعت بھی ہیں کے مطابق گندم اور کپاس کی مناسب قیمت نہ ملنے کی سبب آئندہ فصلوں کے متاثر ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔ آج کپاس کا بحران دراصل کسان کے بحران کا دوسرا نام ہے۔ جب تک کسان کو اس کی محنت کا صیح معاوضہ نہیں ملے گا تب تک کپاس پر پھر سے عروج ممکن نہیں ہے۔ کسان کی خوشحالی کپاس کی فصل اور ریٹ سے وابستہ ہے۔ آج کسان کے گھروں میں پڑی کپاس کا مناسب قیمت پر فروخت نہ ہو پانا ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جو ہماری پوری زراعت کو متاثر کر ر ہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسان کے پاس موجود کپاس اور جننگ فیکٹریز میں پڑی گانٹھوں کی خریداری ممکن ہو سکے تاکہ ان سے حاصل شدہ آمدنی کسان کی اگلی فصل کے لیے مدد گار ثابت ہو سکے۔
کھیتوں میں لہلہاتی سفید پھولوں جیسی کپاس جسے وائٹ گولڈ کہا جاتا تھا۔ سفید چاندی جیسے ریشےکی یہ فصل پاکستانی معیشت کا ستون اور پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان سمجھی جاتی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ ماضی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ پورے پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ جننگ فیکٹریز کی بڑی تعداد جو بےشمار لوگوں کے لیے روزگار کا باعث تھیں آج تقریباََ بند ہو چکی ہیں۔ کپاس جسے کیش کراپ کہا جاتاتھا۔ اسے نظر لگ گئی یا پھر جان بوجھ کر یا عدم توجہی کی بنا پر اس فصل کو تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا گیا کہ اب اس کی کاشت محدود ہوتی چلی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کپاس انڈسٹری ڈوبتی جا رہی ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ انتہائی سنجیدہ زوال کا شکار کیوں ہے؟ لوگوں نے اس فصل کی کاشت محدود کیوں کردی ہے؟ کپاس کی فصل کا موجودہ بحران پاکستانی زر مبادلہ کے لیے کسی خطرئے کے الارم سے کم نہیں ہے۔ پاکستانی کپاس کی کوالٹی جو دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت اور اہمیت رکھتی تھی یکایک کیوں تباہی کی جانب گامزن ہوگئی ہے؟ اگر ہم پاکستان میں کپاس کے موجود بحران کے بنیادی اسباب پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پیداواری لاگت میں شدید اضافہ، بیج کی ناقص کوالٹی، موسمیاتی تبدیلی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کا دباؤ، حکومتی عدم توجہ اس کا باعث بن رہے ہیں جو رفتہ رفتہ کسان کو کپاس سے گنے کی فصل کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ لیکن گنا بھی چارسو روپے من کے حساب سے خریدا جاتا ہے جبکہ چینی کی قیمت بازار میں دو سو سے ڈھائی سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کبھی ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھیں پیدا کرتا تھا جو اب پچاس سے ساٹھ ہزار گانٹھ تک پہنچ چکی ہیں۔ ملکی ضرورت تقریباََ ایک کروڑ گانٹھ ہے یعنی ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تقریباََ آدھی سے زائد کپاس برآمد کرنی پڑتی ہے۔ جس کی باعث سالانہ تین سے چار ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر پارہے ہیں۔ جبکہ پہلے ہم کپاس درآمد کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود مقامی کپاس کاشت کرنے سے زیادہ اس کی فروخت کسان کے لیے مسئلہ کیوں بن چکا ہے؟
وجہ صرف یہ نہیں بلکہ کئی عملی اور ساختی رکاوٹیں ہیں جو کاشتکار کو فصل بیچتے وقت شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان مسائل کا خلاصہ سادہ، عملی اور کسان کے درد کو سمجھتے ہوئے یہی سامنے آتا ہے کہ خریدار یا بیوپاری کی اجارہ داری ہے۔ جبکہ سرکاری خریداری نہیں ہوپا تی۔ جس کی باعث یہ خریدار لوگ اپنی من مانی کرتے ہیں اور مختلف اعتراضات لگا کر قیمت مزید کم کردیتے ہیں۔ یوں کسان قیمت کا فیصلہ خود نہیں کر سکتا۔ کپاس کی قیمت میں انٹرنیشنل مارکیٹ کے اثرات کی باعث روزآنہ کپاس کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ کسان جب تک بھاؤ دیکھتا ہے مارکیٹ بند ہوجاتی ہے۔ یا جب وہ منڈی پہنچتا ہےتو قیمت اچانک کم ہوچکی ہوتی ہے۔ یوں اسے ہمیشہ موسم کا کمترین ریٹ ہی ملتا ہے۔
اسی طرح معیار یا گریڈ کے بہانے بنا کر کم قیمت دی جاتی ہے۔ جیسے کہ نمی زیادہ ہے، پھٹی میں مٹی اور سانگلی یا کچرا زیادہ ہے، کیڑے کے نشان ہیں، رنگت خراب ہے، یا غیر معیاری بیج کا اثر ہے۔ دوسری جانب مارکیٹ میں وزن گھٹانے کے ہتھکنڈے عام ہیں جیسا کہ پلڑے ہلکے، ڈنڈی مارنا، ٹرالی کا وزن زیادہ نکالنا، نمی کے بہانے کٹوتی یا پھر کنڈے اور کمپیوٹر کنڈے میں فرق ان سب کا نقصان کسان اٹھاتا ہے۔ اسی طرح کسان مختلف قرضوں کے جال میں پھنس کر فصل مخصوص آڑھتی یا جنرز کو بیچنے کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے ریٹ پر خریدتا ہے۔
کپاس کا حجم بڑا، وزن کم ہوتا ہے اس لیے ٹرانسپورٹ پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اگر کپاس کی قیمت مارکیٹ میں کم ہو تو یہ خرچہ کسان کے منافع کو نقصان میں بدل دیتا ہے۔ موسم اور بارش کی باعث خراب ہونے کے خدشات کسان کو جلد اور کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ شاید کپاس کم قیمت فروخت کرنے کی بری وجہ یہ ہے کہ کسان مارکیٹ میں سب سے کمزور ترین فریق ہے۔ نہ قیمت اس کے اختیار میں ہے، نہ خریدار، نہ وزن، نہ گریڈنگ اور نہ بروقت ادائیگی ہی ممکن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کپاس کی فروخت کسان کے لیے امتحان بن جاتی ہے۔ یہی دشواریاں اسے کپاس کی بجائے گنا یا دوسری فصل کاشت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
اگر واقعی کپاس کی معیشت کو زندہ کرنا ہے تو سب سے پہلے کسان کو منڈی کا طاقتور کردار بنانا ہوگا۔ سرکاری خریداری مراکز، شفاف گریڈنگ، وزن کا جدید نظام، سپورٹ پرائس، کسان مارکیٹیں اور قرضوں کا منصافانہ نظام یہ سب مل کر ہی کپاس کے بازار کو انصاف دئے سکتے ہیں۔ کپاس کی گانٹھیں کم ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں بلکہ حیرت اس بات کی ہے کہ اتنی دہائیوں کے بعد بھی ہم نے کسان کا درد نہیں سمجھا۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ملک کی معیشت کے اس مزدور کو وہ عزت، وہ قیمت اور وہ اختیار ملے جس کا یہ حقدار ہے۔ دوسری جانب کپاس کی فصل حکومتی توجہ چاہتی ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ جننگ انڈسٹری تقریباََ بند ہو چکی ہے۔ کاٹن فیکٹریاں ہاوسنگ سوسائٹی میں تبدیل ہو رہی ہیں۔
کپاس کی فصل اور یہ انڈسٹری توجہ چاہتی ہے کیونکہ یہی فصل ایسی ہے جو زرمبادلہ ملک میں لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ کپاس پر توجہ ہمارے ملک کی زرعی شناخت کو اجاگر کرنے میں آج بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ وائٹ گولڈ کا یہ چھپا خزانہ ہماری ملکی معیشت کو سہارا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستانی ٹیکسٹائل کے پراڈکٹ کی مانگ دنیا میں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان نے ٹیکسٹائل برآمدات میں تاریخی ریکارڈ بنا ڈالا ہے اور پچھلے چار ماہ میں ٹیکسٹائل برآمدات چھ ارب چالیس کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ جسے پاکستان ٹیکسٹائل کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

