Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Janoobi Punjab Ka Selab, Tareekh Ka Dohrata Hua Almiya

Janoobi Punjab Ka Selab, Tareekh Ka Dohrata Hua Almiya

جنوبی پنجاب کا سیلاب، تاریخ کا دوہراتا ہوا المیہ

ہمارے جنوبی پنجاب علاقے میں انتہائی تکلیف دہ اور دل کو گھبرانے والا سیلاب کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے تقریباََ ہر سال چھوٹے یا بڑے پیمانے پر سیلاب کی خبریں اور تباہیوں اور انسانی جانوں کے ضیاع کی داستانیں سننے اور پڑھنےکو ملتی رہی ہیں۔ لیکن جدید سائنسی ترقی کی باعث اب ہر واقعہ سننے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ ویڈیو کے ذریعے دیکھنے کو بھی براہ راست مل رہا ہے جو منظر دیکھنے کو ملتے ہیں ان کی تکلیف سننے اور پڑھنے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیلاب کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب میں بہت بڑا انسانی المیہ بھی جنم لے رہا ہے جس کی گونج بہت دیر تک دلوں کو تڑپاتی رہے گی۔

لوگ بےگھر ہورہے ہیں، بے روزگار ہو رہے ہیں، ان کے جانور مر رہے ہیں، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، رہنے کو جگہ نہیں ہے وہ آتی ہوئی سردیوں میں کھلے آسمان تلے بغیر کسی چھت کے اپنوں کو اپنے سامنے ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ مجبوری میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں، پناہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ صرف پانی کا سیلاب نہیں بلکہ یہ غربت، بھوک، بیماری بے بسی اور بےکسی کا سیلاب ہے، افوہوں اور خوف کا سیلاب ہے۔ اپنے گھروں، جانوروں اور سامان کو بےآسرا چھوڑنے اور اپنے سامنے ڈوبتا دیکھنے کا دکھ وہی جانتا ہے جو اس مرحلے سے کبھی گزرا ہو۔ ان گھروں تلے سامان ہی نہیں لوگوں کے برسوں کے خواب بھی دب گئے ہیں۔

آج جب جنوبی پنجاب ایک بار پھر سیلاب کی لپیٹ میں ہے تو منظر وہی پرانے ہیں۔ کھیتوں میں ڈوبی فصلیں، بھوک سے بلکتے بچے، اپنوں کے بچھڑنے کے صدموں سے بے حال اور عارضی پناہ گاہوں میں سردی اور بارش سے ٹھٹھرتے خاندان، پاکستان بنے عرصہ گزر گیا لیکن کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی ڈوبنے اور انہیں والدین کی جانب سے بچانے کی جدوجہد دیکھ کر دل لرز اٹھا کوئی لفظ نہیں تھے کہ خود کو تسلی دے سکوں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ سنگدل لوگوں نےیہ وڈیو تو بنا لی مگران کی مدد نہیں کی۔

ایک اور عجیب منظر تھا ایک عورت کا سر سیلابی پانی سے باہر آرہا ہے اور کشتی نے اپنی روانی تیز کی اس عورت کو آوازیں دیں کہ خود کو ڈوبنے سے بچائے اور آن کی آن میں یہ امدادی کشتی اس تک پہنچ گئی۔ مدد کی کشتی میں سوار دو نوجوانوں نے عورت کو دونوں بازوں سے پکڑ کر پوری قوت سے اوپر کھینچا عورت کراہ رہی تھی۔ کشتی میں بٹھا کر اس سے پوچھا کیا کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے؟ وہ جو بولنے سے قاصر تھی کیسے اپنے حواس مجتمع کرتی بس خالی نظروں سے دور پانیوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا شاید کوئی سر باہر آجائے جو اس کی بہن کا سر ہو یا بچی کا سر ہو اور ان کو بھی کشتی کے ناخدا ایسے ہی اوپر کھینچ کر بچا لیں گے لیکن دور دور تک پانی کی لہروں میں کوئی سر دکھائی نہ دیا تو اس نے پوری قوت مجتمع کرتے ہوئے چیخ کر کہا "میری بیٹی ہے میری بہن ہے" مگر دور دور تک تک کوئی سر نظر نہیں آتا تھا۔

یہ کوئی فلم نہیں حقیقت ہے جہاں ایک الٹی چارپائی سیلابی ریلے میں تیر رہی ہے اس میں دو بچے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ خدا جانے یہ دونوں بہن بھائی کس حال میں کہاں سے جان بچا کر ایک دوسرے کو سہارا دیتے نکلے ہوں گے۔ شاید بڑے بھائی نےکہا ہوگا کہ مجھے چارپائی سے کشتی بنانی آتی ہے میں اس پر تمہیں بچا کر شہر لے جاوں گا۔ چھوٹی بہن سہمی سہمی اس الٹی چارپائی کی کشتی میں جان بچانےکی آخری امید لیکر بیٹھی ہوگی۔ بھائی نے اپنے کمزور ہاتھوں سے کس دلیری سے ان تند وتیز موجوں کا مقابلہ ناجانے کتنی دیر کیا ہوگا؟ بیچ سیلاب کے یہ نازک کشتی ڈگمگائی ہوگی یا پھر شاید چھوٹی بہن پھسل کر گرنے لگی ہوگی تو اسے بچانے کے لیے بھائی نے بہت ہاتھ پاوں مارے ہونگے۔ خدا جانے کس کرب میں دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے سامنے پانی میں سبکیاں لیتے رہے ہوں گے؟ لیکن دونوں شہر کے بند پہ زندہ پہنچنے کے خواب لیے ڈوب گئے۔

ایک عارضی کشتی پہ آنے والے دو بچوں کی لاشیں بند تک پہنچی ہیں ایک پندرہ سال کی بچی اور ایک سولہ سال کا بچہ ہے جو شاید انہیں بہن بھائیوں کی تھیں۔ جلال پور پیروالا کے بند نے یہ دونوں نامعلوم شہیدوں کی لاشیں وصول کرلی ہیں۔ ایک اور وڈیو میں دو تقریباََ اسی سالہ بزرگ اور بوڑھے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کو مضبوطی سے پکڑے اور سہارا دئے کر سیلاب اور پانی کی بدمست لہروں اور موت سے نبردآزما دیکھا جاسکتا ہے۔ خدا کرے کہ یہ ان دونوں کا آخری سفر ثابت نہ ہو ا ہو اور ان کی زندگی بچانے کی خواہش پوری ہوگئی ہو۔ ایک باپ کو سر پر چارپائی اٹھائے دیکھا جاسکتا ہے جو گردن تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے مگر چارپائی پر اپنے بچوں کو بٹھائے ہوئے سیلاب سے گزر رہا ہے۔

اس مرتبہ بہت زیادہ سواریوں کی وجہ سے امدادی کشتیاں الٹنے کے واقعات بڑی تواتر سے دیکھنے میں آئے ہیں اور بہت سی جانیں کشتیاں میں بیٹھ کر بھی کسی محفوظ مقام تک نہ پہنچ سکیں ایسی ہی بےشمار ویڈیو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکی ہیں جو اس سیلابی تباہی کو انسانی ذہنوں میں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گیں جہاں لوگوں نے اپنے خاندانوں اور جانوروں کو اکیلا نہیں چھوڑا اور مدد لیکر جان بچانے سے انکار کردیا کیونکہ ان کی جانور بھی انہیں بچوں کی طرح ہی عزیز ہوتے ہیں۔

گو جنوبی پنجاب میں پہلے ہی سیلابی المیوں کی دردناک اور طویل تاریخ موجود ہے لیکن موجودہ سانحے اس لیے زیادہ تکلیف دے رہے ہیں کہ ان کی وڈیو فلمیں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اور اپنی آنکھوں سے کسی المیے کو ہوتا ہوا دیکھنا بہت مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جو دکھ کی شدت اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ سیلاب صرف مکان اور کھیت نہیں بہاتا یہ امیدیں، خواب، یادیں اور رشتے بھی بہا لے جاتا ہے۔ عورتیں اپنی گود کے بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب جاتی ہیں۔ بوڑھے اپنی محنت اور مشقت کی ساری عمر کی کمائی کو اپنی آنکھوں سے بہتا دیکھتے ہیں اور نوجوان ہاتھوں میں کشتیاں، ہوا بھری ٹیوب اور کڑاہے لیے اپنے بزرگوں، بچوں اور خواتین کو بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں کے دیہات ہی نہیں شہر بھی اربن فلڈنگ سے متاثر ہو چکے ہیں ناقص سیوریج سسٹم کے بند ہونے سے گلیوں محلوں میں پانی کھڑا ہے۔ گھروں کا سامان خراب ہو چکا ہے۔ آشوب چشم اور ڈینگی جیسی وباوں کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہر بار پانی کی کمی سے خشک سالی یا پھر پانی کی زیادتی سے بپھری لہریں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ قدرت اور فطرت کے نظام میں مداخلت نہ کی جائے۔ دریا کے راستوں کو بند نہ کیا جائے کیونکہ جب پانی راستہ مانگتا ہے تو بستیاں اور آبادیاں بہا لے جاتا ہے۔ آج کا سوال یہی ہے کہ کیا جنوبی پنجاب کے باسی ہمیشہ ایسی آزمائش کا شکار رہیں گے؟ یا ہم جدید واٹر مینجمنٹ، مضبوط بندوں اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی آنے والی نسلوں کو ان المیوں سے بچا سکیں گے؟ اگر ہم نے آج بھی ان تباہیوں اور درد ناک المیوں سے سبق نہ سیکھا تو تاریخ پھر اپنے زخم دہراتی رہے گی اور یہ خطہ پانی کی کمی یا زیادتی کے عذاب اور انسانی غفلت کی داستان بنتا رہے گا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam