Iss Ka Gunah Kya Tha?
اس کا گناہ کیا تھا؟

بعض خبریں بڑی دردناک ہوتی ہیں اور انسان کو چونکا دیتی ہیں اور اگر خبر کا تعلق آپ کے اپنے ہی علاقے سے ہو تو انسانی فطرت ہے اس جانب فوری توجہ مبذول ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر کے مطابق احمدپور شرقیہ کا ایک معصوم نوجوان جو روزی کی تلاش میں کراچی آیا تھا سندھ پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوکر جان گنوا بیٹھا کراچی سے بہاولپور تک دکھ اور افسوس کے ساتھ ساتھ عوام اس واقعہ پر سراپا احتجاج ہے۔
کراچی کی ایک تپتی دوپہر میں جب سڑکوں پر ہر جانب ٹریفک کا شور برپا ہوتا ہے۔ انہی سڑکوں پر احمدپور شرقیہ کا ایک نوجوان عرفان بلوچ جو پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور جو محض سیلاب کی تباہ کاریوں کی باعث حصول رزق کی تلاش میں پاکستان کے ماوں جیسے شہر قائد کراچی میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہنچا تھا اور بدھ کی صبح اپنے تین دوستوں کے ہمراہ ناشتہ کرنے عائشہ منزل گیا تھا۔ ناجانے کس شک و شبہ کی بنیاد پر پولیس کے تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا اور پولیس کی شک پر گرفتاری موت پر ختم ہوئی۔ اسی حراست کے دوران اس کی سانسوں کے چراغ تو بجھ گئے مگر سوال اب بھی زندہ ہیں کہ ٹک ٹاک بنانے کے جرم میں گرفتار یہ نوجوان کون تھا "اس کا گناہ کیا تھا"؟ وہ کچھ بھی تھا؟ وہ کیسا بھی تھا؟ وہ تھا تو اس ملک کا شہری اور اس کی جان اتنی ہی قیمتی تھی جتنی کہ کسی بھی پاکستانی کی ہو سکتی ہے۔ یہاں کے رزق کے متلاشی اور محب وطن نوجوان، محنت کش اور مزدور ایک جانب تو بلوچستان میں بیرونی دہشت گردی کا شکار ہو تے رہے ہیں لیکن اب کراچی سے آنے والی اس کی لاش نے کہرام مچا دیا ہے۔
احمدپورشرقیہ اور کراچی چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر پاکستان کی دو سرزمینیں ہیں لیکن شاید دونوں کے دکھ ایک سے ہی ہیں کہ احمدپورشرقیہ میں غربت، بےروزگاری کی باعث پردیس جانے والوں کی مائیں ان کا راستہ تک رہی ہوتی ہیں تو کراچی میں پولیس اس تشدد پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ کراچی میں احتجاج کا شور اٹھا تو اوچشریف، احمدپور شرقیہ اور بہاولپور میں بھی لوگ سڑکوں پر نکلے مگر سوال وہی ہے کہ "اس کا گناہ کیا تھا"جس کا جواب سامنے نہیں آسکا۔
بہاولپور اور کراچی دونوں جگہ عوام کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اب صرف دکھ نہیں، انصاف بھی چاہتے ہیں۔ یہ محض ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ انسانی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ پورا پرنٹ میڈیا، الیکٹرک میڈیا اور سوشل میڈیا اس بے گناہ نوجوان کی موت پر نوحہ کناں دکھائی دئے رہا ہے۔ عرفان بلوچ نامی اس نوجوان کے چچا اظہر ضیا نے ٹی وی پروگرام میں آنکھوں میں آنسو لیے بتایا کہ "پولیس اہلکاروں نے اسے انسان نہیں جانور سمجھ کر مارا حتیٰ کہ جب وہ مر گیا تو لاش پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔ ان کے مطابق پولیس اہلکاروں پر ریاست کی مدعیت میں نامزد مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ تفشیش جاری ہے پولیس کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ اس نوجوان کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی مگر میڈیکل رپورٹ تشدد کو ظاہر کرتی ہے۔
ریاست ماں ہوتی ہے اور اسے اپنے بچوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ انصاف کے مرہم سے، قانون کی طاقت سے اور انسانیت کی حرارت سے علاج کرنا ہوگا ورنہ یہ سڑکیں، یہ لاشیں اور یہ احتجاج سب ہمیشہ گواہ رہیں گے کہ ہم نے بےگناہوں پر ظلم کو رواج بننے دیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے نقیب اللہ محسود، رکشا ڈرائیور، مزدور، ڈمپر تلء کچلے جانے والے بےگناہوں سے لیکر بےشمار گمنام چہروں تک کراچی پولیس گردی کا یہ سلسلہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ وردی جو تحفظ کی علامت تھی اب خوف کی نشانی بن گئی ہے۔ ہر نیا کیس صرف ایک بدنما داغ بڑھا دیتا ہے مگر احتساب کا دامن اب بھی خالی ہے۔ وہ قصور وار تھا تو قصور سامنے آنا چاہیے پتہ چلنا چاہیے کہ اس کا کیا گناہ تھا؟ اور اگر بےگناہ تھا تو پھر ریاست اپنے ماں جیسا ہونے کا فرض ادا کرے اور مجرمان کو مثال عبرت بنائے تاکہ پولیس کی وردی خوف کی بجاے امن تحفظ اور محبت کی علامت بن جاے۔
کراچی سہراب گوٹھ میں عوامی احتجاج کے بعد آخری خبریں آنے تک حکومت سندھ نے جوڈیشل انکوئری کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تما حقائق سامنے لاےجاسکیں جو یقیناََ ریاست کا ایک بہت اچھا اور بروقت فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے عوامی غم وغصہ میں ضرور کمی آے گی۔ لواحقین کے لیے انصاف کی امید پیدا ہوگی۔
احمدپورشرقیہ اور اس کے گردونواح کے غریب لوگ بےروزگاری کی باعث ہمیشہ کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بچہ سیلاب کی تباہی کا شکار ہو کر کراچی پہنچا تھا۔ سیلابی پانی نے اس کے گھرکی دیواریں تک گرادیں مگر اس کے حوصلہ نہ گرا سکا وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مزدوری کی تلاش میں اپنے گھر کی چھت پھر سے بنانے کا خواب لے کر نکلا تھا تاکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے چند نوالے کما سکے مگر قسمت کے تحریر کردہ جملے بہت ظالم نکلے وہ رزق کی تلاش میں نکلا اور لاش بن کر لوٹا۔
کراچی ہمارے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک ایسی ماں جیسا ہے جو مشکل وقت میں یہاں کے بے روزگاروں اور غریبوں کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے۔ کیونکہ احمدپورشرقیہ اور گردونواح میں انڈسٹری کا فقدان انہیں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کر پا رہا اس لیے ہر نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کراچی کا رخ کرتا ہے۔ کراچی میں کام کرنے والا مزدور اور ہنر مند کراچی کو جائے پناہ سمجھتا ہے۔ ہمارے علاقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں اپنے گزراوقات کے لیے جانا ضروری سمجھتی ہے۔ موجودہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے یہان کے غریبوں کو ایک دفعہ پھر کراچی کے سفر پر مجبور کردیا ہے۔
یہ سوال ہم سب سے ہے، حکومت سے، پولیس سے، عدلیہ سے اور ہم جیسے لکھنے اور بولنے والوں سے بھی کہ اگر ہم نے آج اس ظلم پر خاموشی اختیار کرلی تو کل کسی اور شہر کا کوئی بچہ پھر اسی طرح لہو میں نہلا دیا جائے گا اور ہم پھر صرف افسوس لکھیں گے۔ یہ کالم صرف ایک اس واقعہ کا نوحہ نہیں بلکہ یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بےحسی کی روداد ہے۔ نوجوان عرفان کی موت اس کی ماں اور بہن بھائیوں پر بجلی بن کر گری اور پورے علاقے کا ماحول سوگوار ہوگیا ہے۔
گذشتہ روز آہوں اور سسکیوں میں اس کی تدفین تو آبائی علاقے میں کردی گئی مگر دکھ کے بادل پورے علاقے پر بدستور چھائے ہوے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کر کاحوصلہ اور ہمت عطا فرمائے آمین! تمام تر حقائق سامنے آنے پر امید ہے کہ عرفان کی موت کی تفشیش کرکے ذمہداران کو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا دی جائے گی تاکہ دوبارہ ایسا کوئی نا خو شگوار سانحہ جنم نہ لے سکے۔
یہ ایک لمحہ فکریہ یہاں کے سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لیے بھی ہے کہ وہ اس علاقے میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کے انسداد کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں تاکہ ایسے نوعمر نوجوانوں کو روزگار کے لیے اپنے گھر نہ چھوڑنے پڑیں۔ یہ واقعہ انصاف کے ساتھ ساتھ اس علاقہ سے محرومیوں، بےروزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کا تقاضا کرتا ہے۔

