Indus Queen
انڈس کوئین

ڈاک اور ڈاکخانے کا نظام شیر شاہ سوری کے دور میں قائم ہوا جب گھڑ سوار دستے ڈاک لے کر نہایت تیزی سے ملک بھر میں پہنچا دیتے تھے اور پھر دریاوں کے ذریعے بحری جہازوں نے دریا کے ساتھ ساتھ آباد شہروں تک مسافروں کے ساتھ ساتھ یہ ڈاک کی اہم ذمہ داری بھی سنبھال لی۔ لیکن انگریزی دور میں جہاں ہر شعبہ زندگی میں ترقی ہوئی وہیں ٹرین کے ذریعے ڈاک کی ترسیل بھی آسان ہوگئی مگر جہاں ریلوےکی سہولت موجود نہ تھی وہاں پاکستان بننے کے بعد بھی دریائی راستوں سے ڈاک کا نظام ٹرین کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
محکمہ ڈاک کو ریلوے کی طرح ایک بہت اہم محکمہ سمجھا جاتا تھا جو باوردی خدمات کی باعث بڑی عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا۔ میرئے ننھیال کے بیشتر افراد محکمہ ڈاک سے وابستہ رہے۔ میرے نانا مستجاب خان اور ان کے بھائی ارتضیٰ خان اور بہنوئی نور خان ڈاکخانے کے ملازم تھے اور قیام پاکستان سے قبل ہی لاہور میں تعینات تھے۔ ارتضیٰ خان صاحب بڑے عرصہ تک پوسٹ ماسٹر رام گلی، برانڈرتھ روڈ، لاہوری گیٹ رہے اور نور خان صاحب جی پی او لاہور کے پوسٹ مین نمبر ون ہوا کرتے تھے۔ ہمارے نانا مستجاب خان پاکستان آنے کے بعد کسی ڈاکخانے کی بجائے ایک دریائی جہاز پر بطور پوسٹ ماسٹر تعینات ہو گئے۔ وہ پنشن لینے سے قبل بہت کم چھٹی پر آتے اور چند دن سے زیادہ گھر نہ ٹھہرتے تھے اس لیے ان سے ملنے کا اتفاق بہت کم ہوا کیونکہ ان کا یہ دریائی جہاز جب غازی گھاٹ آکر رکتا تو وہ گورنمنٹ بس سروس سے کوٹ ادو آتے اور جہاز کی واپسی سے قبل واپس اس جہاز پر چلے جاتے۔ ان کا یہ جہاز غازی گھاٹ تک آتا تھا پھر واپس چلا جاتا۔
ستر کی دھائی میں مدت ملازمت پوری ہونے پر پنشن پرآئے تو اپنی آخری عمر ہمارے پاس ڈیرہ نواب صاحب میں گزاری اس دوران انسے قریب ہونے کا موقع ملا۔ میں بچہ تھا ان سے سوال بہت کرتا تھا اور بہت کم گو ہونے کی وجہ سے جواب مختصر ہی دیتے۔ مگر میں نے آہستہ آہستہ اپنے سوالوں سے انہیں جواب دینے پر مجبور کردیا۔ میں نے ان سے پوچھا نانا جی آپ جس جہاز پر کام کرتے تھے اس کا کیا نام تھا تو انہوں نے بتایا کہ اس جہاز کو "انڈس کوئین"کہتے تھے۔ پھر ایک دن انہوں نے میرے بے حد اصرار پر انڈس کوئین کی پوری تفصیل بتائی جو بڑی دلچسپ تھی۔
گذشتہ دنوں نور محل بہاولپور میں "انڈس کوئین" کا ریسٹورنٹ دیکھا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ان کے مطابق تقسیم ہند سے قبل ملکہء برطانیہ نے نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کو انڈس کوئین نامی یہ بحری جہاز تحفے میں دیا تھا جو کہ بعد میں نواب صاحب نے اپنے پیر و مرشد خواجہ فری سئیںؒ کو ہبہ کر دیا شاید یہ 1890 کی بات ہے پھر یہ جہاز 1980 تک کوٹ مٹھن سے چاچڑاں تک مسافروں کو لاتا اور لے جاتا رہا پھر اچانک ایک دن اس میں آگ بھڑک اٹھی اور یہ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوگیا اب یہ جہاز کوٹ مٹھن کے قریب آدھے سے بھی زیادہ زمین برد ہو کر اپنے شاندار ماضی پر فخر اور اپنے حال کی زبوں حالی پر نوحہ کناں ہے اگر حکومت وقت اس بیش بہا اور قیمتی یادگار کو مزید ناکارہ ہونے سے بچاتے ہوے کوٹ مٹھن یا راجن پور میں کسی جگہ عوامی نمائش کے لیے رکھ دے تو بہت بہتر ہے ارباب اختیار تک یہ بات پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔
یہ جہاز جو سواریوں کی آمدورفت کے ساتھ ساتھ ڈاک کی ترسیل کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔ اس جہاز پر ہمارے نانا جان بطور پوسٹ ماسٹر تعینات تھے جن کے لیے اس جہاز پر ایک جگہ مختص کی گئی تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ یہ جہاز تین منزلہ تھا اس جہاز پر ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہوا کرتی تھی اور ان کا زیادہ تر وقت اسی مسجد میں گزرتا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہے اس جہاز سے وابستہ یادوں کو بیان کرتے رہتے تھے۔
لیکن گوگل اور ویکیپیڈیا انٹرنیٹ پر موجود ایک اور تاریخی اور تحقیقی روایت یہ بھی ہے کہ ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی نے 1867 میں برطانیہ سے ایک بحری جہاز خریدا جس کا نام انڈس کوئین یعنی دریائے سندھ کی ملکہ رکھا گیا تھا۔
اس جہاز کو برطانیہ کی مشہور کمپنی ٹی ریڈ اینڈ سنز نے بنایا۔ بہاولپور کے اس شاہی بحری جہاز میں دنیا کی تمام تر سہولیات موجود تھیں۔ انڈس کوئین قیمتی لکڑی دیار، ساگوان، پیتل، لوہا اور متعدد دھاتوں سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کو کیفے ٹیریا، بیڈ روم، مہمان خانہ اور نچلے حصہ میں آرائشی کمروں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ یہ ایک محل نما جہاز تھا جس میں وائسرے ہند، برصغیر کے راجہ مہارجہ سفر کرتے تھے۔ نواب صادق محمد خان عباسی اس دریائے سندھ کی ملکہ پر برصغیر کے بادشاہوں، برطانیہ سے آئے شہزادوں اور اپنی بیوی کے ساتھ ستلج سے دریائے سندھ کی سیر کرتے اور شکار کرتے تھے۔ اس بحری جہاز میں ریاست بہاولپور سے سکھر تک کا سفر کیا جاتا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہ عظیم الشان بحری جہاز پنجاب حکومت کے حصہ میں آیا تو اس کو دریائے سندھ میں دو اضلاع کے درمیان عوامی سفری سہولیات کے لیے دے دیا گیا اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مسافر ضلع راجن پور سے رحیم یار خان اور رحیم یار خان سے راجن پور آتے اور جاتے تھے۔ بعد میں اس جہاز میں اچانک آگ لگ لگی اور یہ شاہی بحری جہاز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اب یہ جہاز کوٹ مٹھن کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے خستہ، زنگ آلود حالت میں موجود ہے جس کا تمام قیمتی سامان چوری ہو چکا ہے اور اب یہ کار آمد نہیں رہا۔ جہاز کے نچلے حصے میں انجن بھی موجود تھے جو ڈیزل پر چلتے تھے، اب وہ بھی مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ جہاز کا تمام قیمتی سامان چوری ہو جانے کے بعد اس کی باقیات کو محفوظ کرنے کے لیے محکمہ ہائی وے کے چوکیدار یہاں دن رات نگرانی کے لیے تعینات کیے گیے ہیں۔
ایک ریسرچ سکالر مجاہد جتوئی اس بحری جہاز انڈس کوئین کو تاریخی اہمیت کا حامل اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ جب انگریزوں اور نواب آف بہالپور کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوا تو ملتان سے ریاست بہاولپور اور ریاست بہاولپور سے سکھر تک دریائی سفر کے لیے یہ جہاز لایا گیا اور اس جہاز پر وائسرے نے رحیم یار خان کے نزدیک ایک دریائی علاقہ بھونگ بھارا تک سفر کیا۔ جنگی جانوروں اور شیر کا بھی شکار کیا۔ ان کے مطابق جب دریا خشک ہوئے تو شنید ہے کہ نواب آف بہاولپور نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ غلام فریدؒ کو اسے تحفہ میں دیا اور خواجہ غلام فریدؒ بھی اس جہاز پر سفر کرتے رہے اس جہاز کے نیچے تہہ خانہ میں کمرے بنے ہوئے تھے جس پر منفرد کام کیا گیا تھا یہ کمرے بادشاہوں اور وائسرائے کے کام آئے۔
ریسرچ سکالر مجاہد جتوئی نے مزید بتایا کہ یہ جہاز حقیقت میں ایک ملکہ یا شہزادی تھا۔ اس میں بہت نفاست سے کام کیا گیا تھا اور یہ ایک لگژری جہاز تھا اس کے ساتھ دو اور حفاظتی کشتیاں بھی چلتی تھی۔ جہاز کے ساتھ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی روحانی اور ثقافتی وابستگی ہے۔ اس کی مرمت کرکے ہوٹل بنا کر محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ بحری جہاز کے کیپٹن اللہ دتہ کا کہنا ہے کہ وہ اس جہاز کو تیس سال تک چلاتے رہے ہیں۔ اس جہاز کو برطانیہ کی مشہور کمپنی ٹی ریڈ اینڈ سنز نے بنایا تھا یہ محل نما جہاز تھا اس میں کمرے بنے ہوئے تھے جس میں ہوٹل بھی تھا اور یہ تین منزلہ جہاز تھا قیمتی لکڑی دیار اور ساگوان کا کام ہوا تھا پھر اس میں آگ لگ گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس جہاز میں روزانہ دو ہزار لوگ سفر کرتے تھے جبکہ خواجہ فرید کے عرس کے موقع پر بہت سے لوگ سفر کرتے تھے۔
اس جہاز کے بارئے میں بی بی سی پر بھی ایک رپورٹ عزیز اللہ خان کی جانب سے شائع ہو چکی ہے۔ خشکی پر موجود اس جہاز کا تاریخی ڈھانچہ آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے شاندار ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ انڈس کوئین جانے کے لیے کوٹ مٹھن سے بے نظیر پل کی طرف جائیں تو پل شروع ہونے سے پہلے دائیں مڑ جائیں تھوڑا سا آگے جاکر انڈس کوئین کا یہ جہاز نظر آجاتا ہے کہتے ہیں کہ جہاں یہ جہاز جلا تھا وہیں پوری آب وتاب سے اس کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے۔ اس ڈھانچے کو میوزیم میں شفٹ کرنے کی تجاویز سننے میں آتی ضرور ہیں لیکن تاحال کوئی ایسی صورت نہیں بن سکی۔ ریاست بہاولپور کے اس قیمتی ورثے کے بارئے میں لکھا تو بہت کچھ جاچکا ہے۔ لیکن اس کی حفاظت اور اسکو محفوظ بنانے کے لیے اگر کچھ کر لیاجاتا تو یہ سیاحت سے وابستہ لوگوں کے لیے کسی یادگار نعمت سے کم نہیں ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس تاریخی ورثہ کی حفاظت کی جائے۔

