Hum Kidhar Ja Rahe Hain
ہم کدھر جا رہے ہیں
میں نے بہت پہلے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ عظیم فلاسفر سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا اور وہ تھا "برداشت"۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سنتے تھے اور بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے۔ سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکی دیتا تھا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا اس طالب علم کو درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔ سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔
سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ بھی کم ہو جاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسلیے میرے خیال میں ہر معاشرے کی تعمیر و ترقی کا راز ہمیشہ برداشت اور تحمل ہی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اسلامی زندگی کا ایک پہلو ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ہے۔ کئی مرتبہ ہمیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم اپنی ناگواری کا اظہار کردیں۔ یاد رہے کہ اس سے معاملات کبھی سنورتے نہیں بلکہ مزید بگڑتے ہیں۔ جبکہ خاموشی کسی بھی ناگوار بات کا بہترین جواب ہوتی ہے۔
آج کل ہمارے ملک میں ایک نئی سیاسی ہلچل اور گہماگہمی ہے۔ پارلیمان کے اندر اور باہر کے پر تشدد مناظر بہت دردناک اور خوفناک ہوتے چلے جارہے ہیں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان ایک انجانے خطرے کا احساس دلا رہا ہے۔ پارلیمان میں ہمارے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ ہم بائیس کروڑ عوام کے لیے قانون سازی کرنے کے لیے ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر وہاں پہنچتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی سیاست اب تنقید اور اصلاح کی بجاے اب ذاتی اختلاف اور نفرت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جو ہمارے ملک اور قوم کے لیے ایک زہر قاتل ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز کی میں سیاستدانوں کی گفتگو میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے اور ایک دوسرے سے غصے اور نفرت کا اظہار اس بات کی غمازی اور اشارہ کرتا ہے کہ کروڑں عوام کے ساتھ ساتھ ان کے منتخب نمائندوں اور سیاستدانوں میں بھی عدم برداشت کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
شاید یہ سب غیرمستحکم سیاسی صورتحال کی باعث ہو رہا ہے یا پھر ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جو بھی ہو اس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگی کا بھی معمول بنتے جا رہے ہیں کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم زوال پذیر ہونے لگتی ہے تو اس میں عدم برداشت اور اس کے رویے تہذ یب و شائستگی، اخلاق وکردار اور صبر وعمل سے عاری ہونے لگتے ہیں۔ لہجوں اور چہروں سے کرختگی اور غصہ کے تاثرات نمائیاں ہوکر تعمیری سوچ کی بجاے غیر تعمیری سرگرمیاں ان کا محور بن جاتی ہیں اور جس سے ہماری قوم اور اس کی نئی نسل اس بڑھتی ہوئی اناء پرستی، غرور، لڑائی جھگڑے، حاصل لا حاصل کی بحث و مباحثہ، حسد، کینہ و بغض سے بری طرح متاثر ہوتی چلی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں باہمی احترام، رواداری، صلح جوئی اور امن وآشتی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ہمارا معاشرہ تعصب، نفرت، انتقام، غصہ کی باعث عدم برداشت سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
ان تلخیوں کے اثرات اب ہماری عام معاشرتی زندگی تک بھی پہنچنے لگے ہیں اور معاشرے کے ساتھ ساتھ ایک عام آدمی بھی اس سے متاثر ہورہا ہے۔ معاملہ اب پارلیمان، جلسوں، بیانات، نعروں اور ٹاک شوز سے نکل کر شہروں، قصبوں، گاوں، محلوں سے نکل کر گلیوں اور گھروں تک جا پہنچ رہا ہے۔ سیاست سے ہٹ کر روزمرہ زندگی کے معاملات میں بھی عدم برداشت دیکھنے میں آرہی ہے۔ لوگوں کی گفتگو کی تلخی بڑھتی جارہی ہے۔
معمولی معمولی بات پر آگ بگولہ ہونا، جھگڑے اور تلخ کلامی عام ہوتی جارہی ہے۔ جس سے نوجوان طبقہ ہی نہیں چھوٹے بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور اس سے ان کی تعلیمی اور سماجی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ہم بحیثیت قوم لا شعوری طور پر کس جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ کیا اس بند گلی سے کوئی راستہ نکل سکتا ہے؟ کوئی روشنی کی کرن اس تاریک گلی کو روشن کر سکتی ہے؟
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ بھر جاتا ہے مگر زبان کا زخم نہیں بھرتا کیونکہ زخم کوئی دروازہ نہیں جسے بند کر لیا جائے یہ مندمل تو ہوسکتا ہے مگر اسکا نشان رہ جاتا ہے۔ یہ شیشے میں بال کی مانند ہمیشہ نظر آتا رہتا ہے۔ ہمیں آج ایک ایسی شعوری بیداری کی ضرورت ہے جو ان بڑھتی ہوئی نفرتوں کا راستہ روک سکے جو ہمیں ترقی کی اخلاقی بلندیوں کی جانب گامزن کر سکے کیونکہ نفرتیں ہمیشہ بد کلامی کو جنم دیتی ہیں اور بد کلامی ایک معاشرتی ناسور بن جاتی ہے۔ کہتے ہیں شعور کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جہاں انسان بدکلامی کا جواب بدکلامی سے دیتا ہے اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے۔ شعور کی اس سے بہتر سطح وہ ہے جہاں انسان بدکلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور بدکلامی کرنے والے کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
شعور کی سب سے اعلیٰ اور بلند سطح وہ ہے جہاں انسان نہ صرف اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے اور برے اخلاق کا جواب اپنے بہترین اخلاق سے دیتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے اور قوم کو شعور کی بلند سطح درکار ہے جو بد ترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کر دیتی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرے اور ماحول میں اچھا اور بہترین اخلاق پروان چڑھ سکتا ہے۔ تو آئیے اور اس کی ابتداء کیوں نہ اپنی ذات سے شروع کریں کیونکہ انفرادی رویہ ہی ہمیشہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے صبر تحمل اور بردباری و برداشت کو عادت بنا لیں اور بے جا بحث مباحثہ سے اجتناب برتیں دوسروں کے پر اپنی رائے اور سوچ مسلط کرنے سے پرہیز کریں بلکہ ان کے نظریات کا بھی احترام کریں۔ یہی آج وقت کا تقاضہ ہے اور یہی اسلامی روداری اور بھائی چارے، کا حکم ہے جو اسلامی معاشرت کے لیے ہمارے پیغمبرﷺ نے دیا تھا۔ ذرا سوچیے آج ہمارا یہ معاشرہ کدھر جا رہا ہے؟