Hath Ki Lakeerain
ہاتھ کی لکیریں
میں نے آج سے پچاس سال قبل جب اپنے بینکنگ کیریر کا آغاز کیا تو بینکنگ نظام بڑا پیچیدہ ہوا کرتا تھا بڑے بڑے کھاتے (لیجرز) اور کتابیں ہوا کرتی تھیں تمام کام ہاتھ سے کرنا پڑتا اگر کوئی رقم لینے آجاتا تو پہلے چیک کو اچھی طرح دیکھا جاتا اس کی تحریر میں ہندسوں اور لفظوں کو ملایا جاتا، تاریخ چیک کی جاتی اور رقم لینے والے سے دو دستخط چیک کے پیچھے لئے جاتے جن میں سے ایک ٹوکن وصولی کا ہوتا اور دوسرا رقم وصولی کا ہوتا تھا۔
اس چیک کو ٹوکن رجسٹر میں درج کرکے ایک ٹوکن جاری کیا جاتا پھر چیک اکانٹ ہولڈر کے دستخط ملا کر کھاتے میں درج کیا جاتا اور پھر ایک بڑا افسر لیجر پر آکر پوری چیکنگ کے بعد اسے پاس کرتا تب جاکر کہیں چیک کیش ہو پاتا اور اگر چیک کا مالک کوئی ان پڑھ ہوتا تو اسکے اکاونٹ میں موجود اسکی تصویر سے اسکا چہرہ میچ کیا جاتا اور بنک افسران کے سامنے اس کے انگھوٹھے کے نشان لگواے جاتے جسے دو افسران کنفرم کرتے کہ یہ انگھوٹے کے نشان ہماری موجودگی میں لگاے گئے ہیں اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ یہ واقعی اکاونٹ ہولڈر خود ہے۔
پردے دار خواتین کو بڑی دشواری پیش آتی اور اپنا چہرہ دکھانا پڑتا جو بڑی دقت کا کام ہوتا تھا کیونکہ یہ لکیریں اور نشانات انسان میں پوری زندگی ایک جیسے ہی رہتے ہیں اس لیے انگھوٹے کا نشان بطور دستخط استعمال ہوتا تھا اور اس وقت بھی محفوظ ترین ذریعہ شناخت ہوا کرتا تھا۔
بینکنگ کی دنیا میں کمپیوڑ کی آمد ایک بڑا انقلاب ثابت ہوا اور یہ سارے کام آسان سے آسان تر ہوتے چلے گئے اور پھر کمپیوٹر نے اتنی تیزی سے بینکنگ کے نظام کو بدلا کہ آج کوئی ان مشکلات کا تصور بھی نہین کر سکتا۔ پھر پے در پے کمپیوٹر کے نئے نظام آنے لگے آن لائن بینکنگ، اے ٹی ایم مشین، فنڈ ٹرانسفر، کریڈٹ کارڈ جیسی سہولیات سے زندگی اور بھی آسان تر ہوتی چلی گئی لیکن دس سال قبل تک انگھوٹے سے چیک پے منٹ کا وہی پرانا دقیانوسی نظام رائج رہا۔
انگھوٹھے والے اکاونٹ میں تصویر سے کنفرم کرکے دو افسر تصدیق کرتے تو ہی رقم ملتی تھی اور پھر پہلی بار انسان کو انگھوٹے پر موجود لکیروں کی کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہوا کہ انسانی فنگرز کی لکیریں تو کبھی نہیں بدلتی کیوں نہ ان لکیروں کو شناختی علامت بناکر لوگوں کو بے پناہ شناختی مشکلات سے نجات دلا دی جاے اور یوں جب فنگرز پرنٹ کے ذریعے شناخت کا آغاز ہوا تو پوری دنیا میں انقلاب آگیا آج صرف بینکنگ ہی نہیں ہر ہر جگہ فنگرز پرنٹ اور بائیو تصدیق لازمی ہو چکی ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں اپنے فنگرز پرنٹ کے ذریعے بغیر کسی چیک یا کوڈ کے رقم نکلوا سکتے ہیں آپ کا موبائل بھی آپکی فنگرز سے چلتا ہے اور آپکی فنگرز کی لکیریں آپ کی شناخت بن چکی ہیں۔
آج فنگرز پرنٹ سے بڑے بڑے مجرموں کو پکڑنا آسان ہو چکا ہے کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ لکیریں ہر انسان کی علحیدہ کیوں ہوتی ہیں اور دنیا میں موجود اربوں لوگوں کی یہ لکیریں کیسے وجود میں آتی ہیں اور اس خالق کائنات کی عظمت و بڑائی کا احساس دلاتی ہیں یہاں پہنچ کر تو سائینس بھی بس سوچتی رہ جاتی ہے۔
آج کی جدید سائنس باوجود بے شمار تحقیق کے اس راز سے مکمل آگاہی سے قاصر ہے اور بے بس نظر آتی ہے لیکن آج یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی انگلیوں کی لکیروں میں جو راز پنہاں رکھا ہے وہ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں چودہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھا "کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی (بکھری ہوئی) ہڈیاں اکھٹی نہیں کریں گے؟ ضرور کریں گےاور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں"۔ اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے کسی بھی فنگرپرنٹ (انگلی کا نشان) ایک جیسا نہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ آج یہ انسانی شناخت کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے۔
گو میں پامسٹری پر یقین نہیں رکھتا اور ہمارا دین اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پامسٹری جس کو دست شناسی یا ہاتھوں کی لکیروں کا علم کہتے ہیں ایک ایسا مضمون ہے جو دست شناسوں کے بقول ماضی، و مستقبل کا حال بھی آشکار کرتا ہے ایک مشہور پامسٹ نے مجھے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہاتھ کی لکیریں شخصیت کا چہرہ ہوتی ہیں یوں تو انسانی وجود کا ہر پہلو ہی قدرت کی حیرتناک صناعی ہے لیکن اس پر موجود کوئی نشان اور لکیر بے مقصد نہیں ہوتی ہرہر لکیر میں اللہ تعالیٰ کے راز پوشیدہ ہوتے ہیں جسے دیکھنے والی آنکھ یا اس کا علم ہی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔
میرے ایک ڈاکٹر دوست نے بتایا کہ انگلیوں کی ان لکیروں کے بےشمار طبی فوائد بھی سامنے آئے ہیں یہ باریک لکیریں ہماری انگلیوں کی جلد کو ہمہ وقت چھونے اور پکڑنے کے باوجود رگڑ سے محفوظ رکھتی ہیں اور ان ہی کی وجہ سے ہم چیزوں کو مضبوطی سے پکڑ سکتے ہیں اور یہی لکیریں ہمیں ہاتھوں کے چھالوں سے بچاتی ہیں اور ان لکیروں میں انسانی رہنمائی کے لیے چھو کر محسوس کرنے کی ایک خاص حس بھی موجود ہوتی ہے اور یہ لکیریں ہمیں اپنے ہاتھ کی مٹھیوں کو کھولنے اور بند کرنے کے قابل بناتی ہیں اور ان لکیروں کی نمی کی وجہ سے انگلیاں آپس میں چپک نہیں پاتیں بعض حکماء ان لکیروں سے مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں"پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاو گے " (سورۃالرحمان) اور پھر(سورۃالنمل) میں فرمایا "یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط کیا بے شک وہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے"۔
کہتے ہیں فنگرز پرنٹس جو آپکی انگلیوں کے سروں پر گھومتی ہیں اور ابھری سی لکیریں ہیں وہ پیدائش سے پہلے ہی وجود میں آجاتی ہیں یہ پوریں ہر انگلی اور انگھوٹے کے تین نقطوں سے پھیلنا شروع ہوتی ہیں ایک ناخن کے نیچے سے، دوسرا انگلی کے بیچ اور تیسرا انگلی کی نوک کی قریب ترین جگہ سے انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں جب انسان ماں کے شکم میں 4 ماہ تک پہنچتا ہے یہ لکیریں ایک ریڈیایی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں۔ ان لہروں کو بھی پیغامات ڈی این اے دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں۔
گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کرکے یہ ثابت کرتا ہے کہ پاک ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں پوری کائنات ہے وہ ہی مالک ہے کل جہانوں کا اور وہی ہر ہر شے پر قادر ہے نہ کوئی اس جیسا اور بڑا ڈیزائنر ہے، نہ کوئی اس جیسا اور بڑا کاریگر ہے، نہ کوئی اس جیسا اور اس سے بڑا آرٹسٹ ہے، نہ کوئی اس جیسا اور بڑا مصور ہے، اور نہ اس جیسا اور بڑا تخلیق کار ہے وہی تو ہے جس نے انسان کو "احسن تقویم" قرار دیا ہے۔
حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی۔ سبحان اللہ! دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کے سولہ ارب انگھوٹے ہیں جن کے چھوٹے سے حصے میں ایسا ڈیزائن بنا ہوا ہے کہ ہر ایک ڈیزائن سولہ ارب انسانوں کے ڈیزائنوں میں سے کسی سے نہیں ملتا جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "بےشک ہم نے انسان کو بہترین سانچوں میں پیدا کیا ہے" (سورۃالتین) پھر فرمایا "وفی انفسکم افلاتبصرون" اور خود تمہاری ذات میں بھی ہماری قدرت کی کئی نشانیاں ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ یہ وجہ ہے کہ بائیو میٹرکس کی یہ شاخ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اب ہر شعبہ زندگی میں شناخت کے لیے پورے بھروسے کے ساتھ اسے اپنایا جارہا ہے۔ جوں جوں اس کائنات کے راز آشکار ہوتے جائیں گے ان کی افادیت اور اہمیت بھی بڑھتی چلی جاے گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تعلیم انسان کو انگوٹھے سے دستخط تک لے آئی اور ٹیکنالوجی انسان کو دستخط سے پھر انگھوٹھے تک لے آئی ہے۔
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے وہ ہی خدا ہے۔۔