Ghareeb, Bimari Se Ziada Khof Ka Mareez
غریب، بیماری سے زیادہ خوف کا مریض

میرئے ایک دوست اور پرانے کلاس فیلو بدقسمتی سے آجکل فالج کی زد میں ہیں اور اس غریب کا چہرہ اور جسم کا ایک حصہ متاثر ہو چکا ہے۔ مجھے اس کی عیال داری اور غربت کے بارئے میں بھی خوب علم ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس کی جتنا ممکن ہے مدد کی جائے تاکہ وہ اس مشکل وقت کو با آسانی گزار سکے۔ گزشتہ روز وہ مجھے ایک جنازئے کے دوران لڑکھڑاتا ہوا ملا تو اس کی حالت زار دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ علاج کرانے سے قاصر ہو چکا ہے کیونکہ بےروزگاری کی باعث پیٹ کا دوزخ بھرنا ہی محال ہو چکا ہے۔
اس کی جیب میں ڈاکٹر کی ادویات کا نسخہ اور ایک طویل لیبارٹری ٹیسٹوں کی فہرست تو موجود تھی مگر ان کے لیے اس کی جیب میں اتنے پیسے نہ تھے کیونکہ آج کے دور میں علاج اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب تو دور کی بات ہے متوسط طبقہ بھی اس سہولت سے محروم ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر کی فیس، مہنگے مہنگے لیبارٹریز ٹیسٹ، ایکسرئے، ادویات اور ریڈیالوجی کی رپورٹس کے اخرجات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پورئے شہر میں ایک ہی ڈاکٹر ہوتا تھا جو نبض یا مریض کی علامات دیکھ کر ہر مرض کا علاج کر دیتا تھا۔ وہ بیک وقت میڈیکل امراض کے ساتھ ساتھ کان، آنکھ، ناک، دانٹ اور ہڈی، پٹھوں کا بھی ڈکٹر ہوتا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ جوان ہونے تک مجھے کسی قسم کا ایکسرے، یا لیباٹری ٹسٹ کی ضرورت پیش آئی ہو۔ ہسپتال میں ڈاکٹر کی موجودگی کے باوجود محترم ملک اللہ بخش سیال مرحوم سے علاج کرانا بہتر سمجھا جاتا تھا جو اس زمانے میں ایک سینئر میڈیکل ٹیکنیشن اور ہسپتال کی روح رواں ہوا کرتے تھے۔
میری امی جان کی ایک حادثے ٹانگ ٹوٹی تو انہوں نے بڑی مہارت سے اسے جوڑ کر پلستر کردیا اور کسی ارتھوپیڈک سرجن کی ضرورت پیش نہ آئی۔ دادی جان کے سینے میں چھوٹی سی کینسر کی گلٹی کو ڈاکٹر محمد حسین بدر نے گھر پر سرجری کرکے نکال دیا۔ نزلہ، کھانسی، بخار، دمہ، ٹی بی، شوگر، بلڈ پریشر، غدود یہاں تک کے امراض قلب کا علاج بھی یہی لوگ کرتے تھے اور جی ہاں! اس وقت اوسط عمر آج سے بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ان ڈاکٹرز کی فیس بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی جو مریض کو ڈاکٹر تک لانے میں کبھی روکاوٹ نہیں بنتی تھی۔ لیکن آج بیماری کو زیادہ اخراجات کا خوف مریض کو ڈاکٹر کو دکھانے سے روکتاہے۔ کیونکہ علاج کی آڑ میں بڑھتی تجارت غریب کی بے بسی اور صحت کا مذاق اڑا رہی ہے۔ کبھی ڈاکٹر کا کمرہ لفظوں کی تسلی، نصیحت کے پھول اور خدمت کے چراغوں سے منور ہوتاتھا۔ آج وہی کمرہ دواساز کمپنیوں کے رنگین بروشرز اور ادویات کے نمونوں کے سائے سے ڈھکا ہوا ہے۔ توجہ مریض سے زیادہ دوا کی کمپنی پر زیادہ نظر آتی ہے۔ جبکہ پہلے مریض اور ڈاکٹر کا رشتہ اتنا مضبوط ہوتا تھا کہ آدھی بیماری ڈاکٹر کو دیکھ کر ہی ٹھیک ہو جاتی تھی۔
ہمارے معاشرئے میں علاج ہمیشہ، امید، اعتماد اور زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن پچھلے چند برسوں میں صحت کے شعبے پر ایک ایسا اندھیرا چھا گیا ہے جس نے مسیحائی کو کاروبار بنا دیا ہے۔ سرکاری ہسپتال ملکی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں اور ادویات کی دستیابی بھی محدود ہے۔ کہتے ہیں کہ جب کسی معاشرئے میں مسیحائی کا پیشہ کاروبار میں بدل جائے تو سب سے پہلے مریض نہیں مرتا بلکہ اسکے زندہ رہنے کی امید مرجاتی ہے۔ آج ہمارئے شہروں، قصبوں میں پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک میں یہی منظر عام دکھائی دیتا ہے۔ جہاں بیشتر ڈاکٹرز کا کمرہ علاج سے زیادہ ایک مارکیٹنگ سینٹر دکھائی دیتا ہے۔
جہاں دوا ساز کمپنیوں کے نمائندئے نسخوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور مریض محض ایک ٹارگٹ بن گیا ہے۔ غریب مریض دروازہ سے ڈاکٹر تک پہنچنا چاہتا ہے مگر بیماری سے زیادہ فیسوں، ٹیسٹوں، ایکسرئے اور ریڈیالوجی ٹیسٹوں کا خوف اسے گھیر لیتا ہے۔ اپنی خالی جیب کے وزن کا جب ان اخراجات سے موزانہ کرتا ہے تو دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ مہنگی ادویات اور ان طویل ٹیسٹوں کی دوڑ نے علاج کے نسخے کو ضرورت سے زیادہ مہنگا، بھاری بھرکم، بنا دیا ہے کہ اکثر اوقات ایک سادہ بخار یا نزلہ کا علاج ایسی ادویات سے کیا جاتا ہے جن کی قیمت ایک مزدور کی دن بھر کی کمائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
دوائی لکھتے ہوئے نہ مریض کی حالت دیکھی جاتی ہے اور نہ اسکی جیب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ مریض اور ڈاکٹر کے درمیان فاصلے بڑھا رہے ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹوں کی "وبا" اس لوٹ مار کا دوسرا رخ ہے۔ چند سال پہلے جہاں دو ٹیسٹ کافی سمجھے جاتے تھے۔ آج بھاری فیس لینے کے بعد مریض کو ایسے مہنگے ٹیسٹوں کی پوری فہرست تھما دی جاتی ہے۔ جیسے ان کے بغیر علاج کا آغاز ممکن نہیں ہے۔ تشخیص کی ضرورت اپنی جگہ مگر ٹیسٹ اس قدر بے دریغ لکھے جاتے ہیں کہ مریض ایک تحقیقی پراجیکٹ بن جاتا ہے۔ عام کلینک اور چھوٹے ہسپتال کے بھی ان لیبارٹریوں سے وابستہ مفاد چھپے نہیں ہیں جو مریض کی لاعلمی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر مریض کہے کہ یہ ٹیسٹ تو ابھی پچھلے ہفتے کرایا تھا تو کہا جاتا ہے نہیں تازہ ترین ٹیسٹ درکار ہے۔ مریض کے پاس احتجاج کی زبان نہیں، نہ سوشل میڈیا کی طاقت اور نہ عدالت کچہری کے چکر لگانے کی سکت وہ صرف اپنے بیوی بچے، ماں باپ یا اپنے آپ کو بچانے کے لیے قرض لیتا ہے، زیور بیچتا ہے اور آخر میں اپنی امید بیچتا ہے۔
ہمارئے معاشرئے میں غریب کی بیماری صرف جسمانی نہیں ہوتی۔ وہ ڈاکٹر کی فیس سوچ کر بیمار ہوتا ہے، نسخہ خرید کر بیمار ہوتا ہے، ٹیسٹ کرا کر بیمار ہوتا ہے اور آخر میں علاج کے بعد بھی بیمار ہی رہتا ہے کیونکہ یہ جسمانی نہیں مالی بیماری ہوتی ہے۔ اس غریب کا گھر، اس کے خواب، اس کی محبت سب ایک ایک کرکے اس علاج کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔ کئی گھروں میں بیماری آتی ہے تو گھر کا زیور تک بک جاتا ہے بچوں کے اسکول بدل جاتے ہیں، کھانوں کی روٹیاں گھٹ جاتی ہیں اور امیدوں کے چراغ بجھنے کے لیے ٹمٹمانے لگتے ہیں۔ ہمارے گھرو ں کو پانی کا سیلاب یا بیماری ہی نہیں گراتی مہنگا علاج بھی گرادیتا ہے۔ مارکیٹ میں ہر چیز کا نرخ نامہ دستیاب ہے لیکن ہر ڈاکٹر کی فیس الگ الگ ہے اور ایک ہی لیبارٹری ٹیسٹ کی فیس ہر لیبارٹری پر مختلف اور الگ ہوتی ہے۔ ایسے ہی ادویات کی قیمت تو درج ہے لیکن ہر دکاندار اس پر اپنی مرضی کا ڈسکاونٹ دیتا ہے جو پانچ فیصد سے شروع ہوکر پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔ اس سے ادویات پر منافع کی شرح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کینسر کے مریض کی ایک کیمو گرافی کا بل پچاس ہزار کا ہوتا ہے۔
ہمیں اور ہمارئے معاشرے کو آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ جبکہ یہ وہ اسلامی ملک ہے جہاں حکیم، ڈاکٹر، نرسیں سب ہی ایک ہی بات کرتے تھے کہ "علاج عبادت ہے؟" اور ہم انسانیت کی خدمت کریں گے "جی ہاں ڈاکٹرز، انکے کلینک اور ہسپتال کبھی درد بانٹنے کی جگہ ہوتے تھے آج وہاں خوبصورت کاونٹر زیادہ مگر درد بانٹنے والے کردار کم کیوں نظر آتے ہیں؟ نسخوں کی زبان بدل گئی ہے، لیبارٹریز کے نرخ بدل گئے ہیں اور افسوس کہ دلوں کے معیار بھی بدل گئے ہیں۔ مگر یہ بحران کوئی آسمانی بلا نہیں ہے انسانوں کے بنائے ہوئے کھیل کا نتیجہ ہے۔
چند سچی نیتیں، چند مضبوط قوانین، چند صاف دل فیصلے اس اندھیرئے کو اجالے میں بدل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اور دواساز کمپنی کی تحفے اور کمیشن کی سیاست ختم کی جائے۔ لیبارٹریز ٹیسٹ تجویز کرنے کے لیے واضح اصول مرتب کئے جائیں۔ ڈاکٹرز کی فیس اور ان ٹیسٹوں کی قیمت کا تعین کیاجائے۔ تمام لیبارٹریز کے معیار اور نرخ نامے یکساں ہونے ضروری ہیں۔ سستی، معیاری ادویات کی فراہمی کو قومی ذمہ داری قرار دیا جانا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں کو اس حال پر نہ چھوڑا جائے کہ خود مریض بھی ادھر کا رخ نہ کریں۔ مریض کے حقوق کو قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ لوگ سوال کرنے کا حوصلہ کرسکیں۔

