Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Dil Sahib e Emaan Se Insaf Talab Hai?

Dil Sahib e Emaan Se Insaf Talab Hai?

دل صاحب ایمان سے انصاف طلب ہے؟

گذشتہ روز انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ ستر سال کی عمر میں بڑھاپے اور کوئی آمدنی نہ ہونے کے باوجود یہ ریٹرن جمع کرانی پڑتی ہے۔ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کا یہ طویل سلسلہ ملازمت کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ ایسی عمر میں جب چلنا پھرنا بھی محال ہو جا تا ہے۔ ٹیکس ریٹرن جمع کرانا خاصا دشوار کام ہوتا ہے۔ میں نے اپنے ٹیکس ایڈوائزر سے پوچھا کہ بھائی جب انکم ہی نہ رہی تو ٹیکس ریٹرن کیسی؟ تو اس نے جواب دیا جب تک آپ حیات ہیں یہ ریٹرن جمع کرانی ہوگی۔ گویا ٹیکس ریٹرن کا خاتمہ میری موت سے منسلک ہے۔ یہ میرا ہی نہیں بلکہ مجھ جیسے بےشمار بوڑھوں کا مسئلہ ہے جو بڑھاپے میں بھی انکم ٹیکس دینے اور ریٹرن جمع کرانے کے پابند ہیں۔

میرے ایک پرانے ہم جماعت عبدالرحمان ندیم بھی میری طرح ایک ریٹائرڈ ملازم ہیں اور صحت بھی مجھ جیسی ہی ہے انہوں نے کل ایک پوسٹ کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش تو کی ہے۔ بھلا ایسی پوسٹوں سے یہ دل کے بوجھ کب ہلکے ہوتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ایک ستر سالہ انسان اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ یعنی وقت، محنت اور ٹیکسز ملک وقوم پر خرچ کر چکا ہوتا ہے اور گزر اوقات محدود ذرائع سے پورے کر رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب اس عمر میں پہنچنے کے بعد اس پر لاگو ٹیکسوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے جبکہ اس عمر میں تو اسے سہولت، عزت واحترام اور علاج و آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ کہ مزید بوجھ اور پیچیدہ نظاموں کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تصویر الٹی دکھائی دیتی ہے۔

بزرگ شہریوں سے بھی ہر قسم کے ٹیکس لیے جاتے ہیں جبکہ بنیادی سہولتیں تک ان کا مقدر نہیں رہتی۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جب ایک شخص اپنی پوری جوانی ملک کے نظام کو چلانے میں گزار چکا ہو تو بڑھاپے میں اسے سکون کی رعایت کیوں میسر نہیں آتی؟ کیا ریاست صرف ٹیکس لینے کی پابند ہے سہولت دینے کی نہیں؟ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کو ٹیکس چھوٹ، مفت یا رعائتی سفری سہولت، مفت یا سستی ادویات اور خصوصی میڈیکل انشورنس اور سماجی تحفظ دیا جاتا ہے۔ بہت سے ملکوں میں تو "سینئرکارڈ" ہوتا ہے جو ایک عزت اور احترام کا نشان سمجھا جاتا ہےجبکہ ہمارے ہاں ٹیکس نظام مسلسل فعال، سہولتوں کا معیار تقریباََ صفر اور سینئر کارڈ کے وعدے صرف کاغذوں میں پائے جاتے ہیں۔

یہ عجیب ریاستی ترجیحات کا بحران ہے کہ ہم نوجوانوں کو تو رعائتیں دینے کی بات کرتے ہیں لیکن جنہوں نے ملک کی بنیادیں رکھی ہیں ان کے لیے کوئی موثر پالیسی نہیں بنائی جاتی۔ بزرگ شہری احساس محرومی میں مبتلا ہیں اور لگتا یہ ہے کہ ریاست ان کے خون پسینے کی کمائی اور ان کی ملک کے لیے طویل جدوجہد بھول چکی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ستر سال کا شہری ملک کا محسن یا محض ٹیکس دہندہ مشین ہے؟ سہولتوں سے محروم یہ بزرگ شہری صرف یوٹیلٹی بل اور ٹیکس ہی ادا کرنے والا مجبور کیوں؟ سوال یہ نہیں کہ ٹیکس کیوں دیں اور ریٹرن کیوں جمع کرائیں سوال یہ ہے کہ سہولتیں کہاں ہیں؟

بزرگوں کو سہولتیں دینا کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ ورنہ ایک دن یہ سوال ہر دروازے پر دستک دے گا کہ "ستر سالہ شہری۔۔ قوم کا محسن تھا یا صرف بل دینے والا آدمی؟ جو ٹیکس اور بل ادا کرتے کرتے دنیا سے چلا گیا۔ لائف سیونگ اور دیرینہ امراض کی ادویات خریدنا قیمتوں کے بے پناہ اضافے کی باعث ناممکن ہو چکا ہے تو کیا یہ بزرگ اور بوڑھے یونہی سسکتے رہیں گے؟

یہ بوڑھے نہ تو ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، بینک لون نہیں لے سکتے، انشورنس اور بیمہ پالیسی نہیں خرید سکتے، ڈرائیونگ لائسنس نہیں ملتا لیکن ٹیکس کیوں ہر طرح کے ادا کرنے پڑتے ہیں؟ مجھے بھائی عبدالرحمان اور ان جیسے لاکھوں بزرگوں کے دکھ کا احساس ہے لیکن بطور کالم نگار لکھا ہی جاسکتا ہے۔ درخواست ہی کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے کہ بڑھاپا ایسا راستہ ہے کہ جسے ایک نہ ایک دن سب نے عبور کرنا ہے۔ بزرگوں کا احترام نہ صرف دینی و اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک مہذب معاشرے کی پہچان بھی ہوتی ہے۔

انسانی زندگی ایک مختصر سا سفر ہے۔ جس کے آغاز میں ہر شخص کے بے شمار سنہرے خواب ہوتے ہیں، درمیانی عمر میں بھرپور جدوجہد اور محنت اور بڑھاپے میں سکون کی طلب اور عافیت کی خواہش۔۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں انسان اگر خوش قسمتی سے ستر سال کی عمر کو پہنچتا بھی ہے تو سکون کی بجائے فکروں کے بھنور میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ جس ریاست اور معاشرے کے لیے اپنی جوانی وقف کرتا ہے اور عمر بھر ٹیکس دیتا ہے بڑھاپے میں اسی ریاست سے آرام مانگے تو جواب میں بلوں اور ٹیکسوں کا انبار ملتا ہے۔ ہر ماہ بجلی، گیس، پٹرول، موبائل اور بینک منافع تک پر ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے حتیٰ کہ لائف سیونگ ادویات اور جسم درد کی گولیوں پر بھی بڑا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ جی ہاں، یہ وہی شخص ہے جس نے جوانی میں ملک کے ادارے چلائے، قوم کے بچوں کو تعلیم دی، زمیں پر ہل چلائے کارخانوں میں پسینہ بہایا اور اپنی تمام تر قوتیں اپنے ملک کے لیے وقف کردیں لیکن آج جب وہ بڑھاپے کی ڈھلان پر ہے تب بھی اسے ٹیکس اور آمدن کا ذریعہ سمجھا جائے گویا وہ انسان نہیں ایک ایسا اکاونٹ نمبر ہے جسے مرتے دم تک ٹیکس ادا کرنا اور ٹیکس ریٹرن جمع کرانا ہوگی؟

کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی شناخت اس کے نوجوانوں سے نہیں بلکہ اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے بوڑھوں اور بزرگوں سے کیسا سلوک کرتی ہے؟ جبکہ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں تو ستر فیصد نوجوان ہیں۔ جبکہ ستر سال سے زائد تو بمشکل دس سے بیس فیصد ہی ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی ان مختصر سے لوگ کو عزت احترام اور سکون نہ دینا یقیناََ لمحہ فکریہ ہے؟ کیونکہ ریاست کافرض صرف ٹیکس لینا ہی نہیں بلکہ ان بوڑھے ہاتھوں کو تھامنا بھی ہے جنہوں نے اس کی بنیادیں رکھی یہ وہ نسل ہے جن کے کندھوں پر آج کا پاکستان کھڑا ہے۔ آج ہسپتالوں کے دروازے پر لائن میں کھڑا ہر بزرگ اور مختلف دفتروں، بینکوں، کی قطاروں میں کھڑے بوڑھےاپنے سفید بالوں کا حترام مانگتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں"سینئر سٹیزن" کو صرف عمر کے لحاظ سے نہ دیکھیں بلکہ خدمت اور قربانی کے احترام سے دیکھیں۔ قوم کے محسن یہ بزرگ شہری کسی رعایت کے نہیں احترام کے مستحق ہیں۔ ان کو عزت اور سہولت دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حق کی ادائیگی ہے۔ کوئی ایسا سسٹم ہونا چاہیے کہ انہیں اس عمر میں دفتروں، تھانوں، تحصیلوں، عدالتوں اور بینکوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور اگر یہ کسی دفتر میں جائیں تو ان کے سفید بالوں کے احترام میں انہیں قطاروں میں کھڑا رکھنے کی بجائے باعزت طور پر بیٹھ کر بات کرنے کی سہولت ہو اور ان کے کام اور بات کو دوسروں پر سبقت اور ترجیح د ی جائے۔

انہیں فری سفری سہولتیں دی جائیں۔ ان کو بلامعاوضہ لائف سیونگ اور پیچیدہ امراض کی ادویات مفت فراہم کی جائیں ورنہ ادویات کی خرید پر ٹیکس نہ وصول کیا جائے اور ساٹھ سال کے بعد ٹیکس ریٹرن کی تلوار ان کے سر سے ہٹائی جائے۔ بزرگ ایک نعمت ہوتے ہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور سہولتیں فراہم کرانا ریاست کے ساتھ ساتھ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ ان کے اس قرض کی ادائیگی تصور کی جانی چاہیے جو خدمات اور قربانیوں کی شکل میں انہوں نے ہمیں اور اس قوم کی دی ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کا آخری سفر سکون و اطمینان سے گزار سکیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam