Choti Si Scooty, Bare Khatrat Aur Mukhtasar Sa Column
چھوٹی سی اسکوٹی، بڑے خطرات اور مختصر سا کالم

ویسے تو ٹریفک حادثات کی خبریں معمول بن چکی ہیں لیکن گذشتہ روز ایک الیکٹرک اسکوٹی پر سوار ایک خاتون اور ساتھ دو چھوٹے بچوں کو سڑک پر پھسل کر گرتے اور زخمی ہوتے دیکھا تو بڑی تکلیف ہوئی۔ اس سے قبل بھی اسکوٹی سوار کئی خواتین اور بچوں کی جانب سے ہونے والے مختلف شہروں میں پیش آنے والے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لوگوں کا یہ تصور کہ اسکوٹی ایک محفوظ اور قابل کنٹرول سواری ہے شاید اتنا درست نہیں ہے جتنا کہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ سڑکوں پر بےہنگم ٹریفک کا بےتحاشا رش اس تصور کی نفی کرتا ہے۔ خاص طور پر اسکول جانے اور اسکو ل سے واپسی پر یہ رش اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
سڑکوں پر رفتہ رفتہ سایکل اور موٹر سایکل کم ہوتے جارہے ہیں اور بچے اب ان اسکوٹیوں پر اسکول جاتے ہیں اور ایک ایک اسکوٹی پر کئی کئی بچے سوار دکھائی دیتے ہیں۔ ٹریفک کے مسائل پہلے ہی بمشکل کنٹرول ہورہے تھے اب ان کی وجہ سے مشکلات اور حادثات اور بھی بڑھ رہے ہیں۔ گو خواتین کا احترام اور اعتماد اس سے بہت بڑھا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے میں خواتین کو تحفظ حاصل ہے اور یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ وہ پوری آزادی سے اپنی روزمررہ زندگی میں خود اعتمادی اور خود مختیاری کی حامل ہو چکی ہیں۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ان کے ٹریفک قوانین اور مکمل ٹرینک اور اسکوٹی چلانے کی تربیت سے جڑا ہے۔
مسئلہ صرف ایک اسکوٹی سوار کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے اور ہمارے پر ہجوم معاشرتی رویے کا ہے۔ ہم نے سستی سواری تو خرید لی مگر حفاظت کے اصول نہ اپنائے اور ایک ایک اسکوٹی پر کئی کئی بہت ہی چھوٹے چھوٹے بچے اور وہ بھی بغیر ہیلمٹ کے رواں دواں ہیں۔ ہیلمٹ کو بوجھ سمجھا، لائسنس کو فضول جھنجھٹ جانا اور ٹریفک قوانین کو مذاق میں اڑا دیا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک معمولی سا پھسلاو یا سڑک پر جمپ بھی کسی کا مستقبل چھیں لیتا ہے۔
شہروں کی سڑکوں پر اگر ذرا سا غور کیاجاے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا ہو۔ جہاں کبھی سایکلیں، موٹر سایکل اور رکشے نظر آتے تھے وہاں آج کل رنگ برنگی اسکوٹیاں ہوا کو چیرتی، ہارن بجاتی اور روشنیوں میں لپٹی دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر بظاہر تو بہت خوشی بھی ہوتی ہے کہ متوسط طبقہ اور غریب کو ایک سستی سواری کی سہولت ملی، خواتین نے آزادی سفر کا آغاز کیا، نوجوانوں اور بچوں نے اپنی چھوٹی سی سواری کے خواب کو حقیقت میں ڈھال لیاہے۔ ماوں کو بچے اسکول چھوڑنے اور لانے میں آسانی ہوئی، تو بچوں نے سایکل کی جگہ یہ اسکوٹی سنبھال لی۔ لیکن اس خوشنما منظر کے پیچھے ایک تلخ حقیقت بھی سامنے آنے لگی ہے۔
سڑکوں پر تیزی سے بڑھنے والے رش اور بلا لائسنس ڈرائیور بچوں کی وجہ سے حادثات کی بڑھتی ہوئی لہر، ہسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈ میں زخمی نوجوان بچے اور بچیاں، خون آلود چہرے اور ٹوٹی ہڈیاں اس سہولت کی بھاری قیمت ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سڑک پر پر گرتی ایک اسکوٹی صرف ایک فرد کو نہیں گراتی بلکہ پورے گھر کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیتے ہے۔ بغیر رجسٹرڈ اور بغیر پیٹرول یہ اسکوٹیاں آہستہ آہستہ اب موٹر سایکل کی جگہ لے رہی ہیں۔ جن بچوں کو خطرناک ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل دینے سے روکا جاتا تھا وہ اب ان اسکوٹیوں کو بلا دریغ شدید رش والی سڑکوں پر دوڑا رہے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ کچھ دنوں میں ہماری سڑکیں کم پڑنے لگیں گیں جبکہ ہمارے ملک کی اکثر سڑکیں پہلے ہی ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔
یہ صرف افراد کی نہیں، ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ سڑکوں کو بہتر بنائے، ٹریفک پولیس قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائے اور تعلیمی ادارے طلبہ کو سفر اور ٹریفک کے ضروری اور جدید آداب سے روشناس کرائیں۔۔ ورنہ یوں لگتا ہے کہ ہر نئی سواری کے ساتھ ایک نیا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ اسکوٹی خوشی، سہولت اور آزادی کی علامت ہے مگر اگر ہم نے اسے ذمہ داری کے ساتھ نہ اپنایا تو یہ آزادی حادثات کی زمجیروں میں جکڑ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو میسر آنے والی اس نعمت کو اپنی اور اپنے بچوں کی یازندگی کا خطرہ بننے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ کیا صرف ان کی باقاعدہ رجسڑیشن اور نمبر پلیٹ ہی ضروری ہے؟ یا پھر اس چلانے کی خصوصی تربیت بھی دی جانی چاہیے؟ اور اسے چلانے کے لیے بچوں کی عمر کی حد بھی مقرر کرنی چاہیے؟ اور لوڈنگ سے گریز کرنا چاہیے۔
حادثات سے بچنے کے لیے چند ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن میں چھوٹی عمر کے بچوں کو سڑکوں پر نہ آنے دیں اور ایک اسکوٹی پر دو سے زائد سواری نہ سفر کرے۔ ہیلمٹ اور حفاظتی لباس کا استعمال، ڈرائیونگ لائسنس اور ٹرینگ دی جاے تاکہ انہیں ٹریفک قوانین کا مکمل ادراک ہو سکے۔ میڈیا، اسکول، کالج کی سطح پر ہر شہری خصوصی خواتین میں ٹریفک شعور اجاگر کیا جائے۔ سڑکوں کی مرمت اور انفراسڑکچر کی بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ خواتین کے لیے خصوصی آگاہی پروگرام متعارف ہوں تاکہ وہ بھی محفوظ سفر کو عادت بنا سکیں۔ اگر ہم نے آج کے اصول اپنا لیے تو کل کی سڑکیں سکون اور سہولت کی علامت بن سکتی ہیں ورنہ یہ رنگین اسکوقوٹیاں روشنی نہیں بلکہ حادثات کا سایہ بن جائیں گیں۔

