Burai Ya Karobari Maharat
برائی یا کاروباری مہارت
میرے چچا زاد بھائی احمد نواز شہید جو ایک بے حد نیک اور مذہبی جذبات رکھنے والا انسان تھا۔ اس نے ایک زمانے میں نمک، مرچ، دھنیا وغیرہ پیسنے کی چکی لگائی تھی۔ جس پر اچھی خاصی انوسٹمنٹ ہوئی۔ میری بیوی جب بھی میکے جاتی یہ اشیاء اپنے بھائی سے ضرور لاتی کیونکہ ان کا ذائقہ بازاری اشیاء سے مختلف اور بہت اچھا ہوتا اور کم مقدار میں استعمال ہوتا تھا۔ کچھ دنوں بعد مجھے اس نے بتایا کہ وہ چکی اور اپنا کاروبار بند کرنے لگا ہے۔ مجھے عجیب لگا میں نے پوچھا "احمد خان ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو وہ بولا بھائی جان دوکان دار میرا مال نہیں خریدتے کیونکہ میں ملاوٹ نہیں کرتا۔ اس لیے مجھے مال مارکیٹ میں مہنگا دینا پڑتا ہے جبکہ ملاوٹ شدہ مال سستا مل جاتا ہے اور لوگ سستی چیز خریدتے ہیں۔
میں نے پوچھا " کیا پورے شہر میں یہی حال ہے؟ اور کوئی بھی خالص اشیاء نہیں خریدتا تو اس نے بتایا کہ پورے شہر میں صرف ایک دوکاندار ہے "شرفو بھائی " جو بڑا دیندار آدمی ہے۔ جو مجھ سے خالص مال لیکر بیچتا ہے باقی سب ملاوٹ والا مال بیچتے ہیں۔ مہنگا ہونے کی وجہ سے میرے مال کو پسند نہیں کیا جاتا اور ڈیمانڈ بےحد کم ہوگئی ہے۔ اب یا تو میں بھی ملاوٹ کروں یا پھر کام بند کردوں؟ مجھے خوشی یہ ہوئی کہ چلو شہر میں ایک ایماندار ودکاندار تو ایسا ہے جو خالص چیز یں بیچتا ہے۔ میں نے پوچھا "احمد یہ لوگ مرچوں میں کیا ملاتے ہیں؟ تو وہ بولا بھائی جان فیصل آباد سے چاول کی رنگ دار بے ذائقہ پھک ملتی ہے جو مرچوں میں ساٹھ اور چالیس کے تناسب سے ملا دی جاتی ہے اور اسطرح رنگ بھی اصل سے زیادہ سرخ ہوتا ہے مگر ذائقہ ہلکا ہو جاتا ہے۔
میں نے کہا "یار تم بھی ایسا کرلیا کرو تو وہ بولا بھائی جان آپ نے وہ حدیث مبارک نہیں سنی جس میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے " جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے "میں لاجواب اور شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا "احمد یہ ملاوٹ کے لیے پھک فیصل آباد سے کون منگواکر دیتا ہے تو وہ بولا یہ ساری پھک بھی "شرفوبھائی " ہی سپلائی کرتے ہیں۔ میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ خالص مرچ بیچنے والا ہی ملاوٹ کراتا ہے۔ وہ کہنے لگا بھائی جان! ہمارے معاشرے میں اب ملاوٹ برائی نہیں رہی کاروباری مہارت بن گئی ہے۔ احمد نواز نے چکی بند کر دی کیونکہ وہ اپنے نبیﷺ کی امت کا حصہ رہنا چاہتا تھا اور فوج میں چلا گیا پھر کشمیر سے بہادری سے لڑتے ہوے اسکی شہادت کی خبر آئی۔
ہمارے وطن عزیز مین ملاوٹ کی اندھیر نگری اور بے عملی کی فضا کا اندازہ لگانے کے لیے یہ ایک مثال بطور نمونہ پیش کی ہے۔ آپ ایک دانے پر پوری دیگ کو بخوبی قیاس کر سکتے ہیں۔ جو چیز بھی خریدیں اس میں ملاوٹ ضرور ہوگی کیونکہ ہم اب اسے دوسری بہت سی برائیوں کی طرح شاید کوئی برائی اور گناہ سمجھتے ہی نہیں بلکہ ملاوٹ ہمارے کاروبار کا ایک جزو بنتا جارہا ہے۔ ہمارے دوکاندار خود بتا دیتے ہیں کہ یہ مرچ اس بھاو ُہے اور یہ دوسری مرچ اس بھاو ُ ہے کیونکہ ملاوٹ ہے دودھ والا کہتا ہے کہ عام دودھ اسی روپ کلو ہے اگر خالص لینا ہے تو سو روپے ملے گا۔ میرے دوست عزیز اللہ خان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آپ کو بازار میں جا بجا لکھا نظرآے گا یہاں پر خالص دودھ، خالص گھی، خالص شہد خالص سونا، خالص آٹا، خالص نمک، مرچ مسالحے دستیاب ہیں یا سو فیصد خالص انار کا جوس یہاں ملتا ہے۔
آخر خالص یا سو فیصد خالص لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ مغربی ممالک اور بیرون اسلامی ممالک میں آپکو کہیں یہ لکھا نظر نہیں آے گا۔ البتہ یہ نظر آے گا کہ یہاں دودھ، دہی، گھی، شہد، آٹا دستیاب ہے۔ انگریز اپنی برانڈز کے نام اپنی مذہبی چیزوں پر نہیں رکھتے مگر ہماری بات نرالی ہے جگہ جگہ اسلامی شہد، مکی آٹا، مدنی مصالحے لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔ اور مزید اضافہ کہ " سو فیصد خالص " یا "اسپیشل خالص "یہ سب لکھنے کی نوبت کیوں آئی ہے؟ اس وجہ ملاوٹ کا بڑھتا ہو رجحان ہے۔ جو اب ہمارے معاشرے کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ جسے شاید اب برائی نہیں سمجھا جاتا اور ملاوٹ کرنے، ملاوٹی اشیاء بیچنے، خریدنے پر کوئی شرمندگی نظر نہیں آتی۔
میرا دودھ والا دودھ دیتا ہے تومیں کہتا ہوں کہ یار! یہ اچھا نہیں ہے تو وہ کہتا ہے بھائی صاحب اسی روپے کلو میں تو یہی ملے گا۔ میں اپنے سامنے فروٹ چن چن کر لیتا ہوں مگر گھر آنے پر ایک دو خراب پھل ضرور شامل ہوتے ہیں۔ گوشت کی دوکان پھٹے پر سامنے اچھا گوشت نظر آتا ہے مگر دیتے ہوے نیچے پڑا باسی یا پانی والا گوشت بڑی ہوشیاری سے قصائی وزن میں شامل کردیتا ہے۔ دیکھنے میں اچھا گوشت کھاتے وقت اتنا بے ذائقہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی خریداری پر شرمندگی سے اپنی بیگم سے آنکھ نہیں ملا پاتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے اسلامی ملک اور مسلم معاشرے میں کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ اور خرید وفروخت میں خیانت اور بددیانتی معمول بن چکی ہے اور یہ ناسور صرف ایک انفردی فعل نہیں رہا بلکہ اب تو یہ ایک بڑا مافیا بن چکا ہے۔
جو ہر شعبہ زندگی میں فعال نظر آتا ہے روز اخبارات میں پڑھ لیں نقلی ادویات، نقلی زرعی ادویات اور کھاد، کوکنگ آئل میں مرے ہوے جانوروں کی آلائشوں استعمال معمول بن چکا ہے۔ مردہ مرغیوں اور جانوروں کے ٹرک آے دن پکڑے جاتے ہیں۔ اب مصنوعی انڈے، پلاسٹک کے چاول کی خبر عام ہے بازار سے اسپرو اور پیناڈول کی گولی تک اصلی ملنا اب نا ممکن نظر آتا ہے۔ جبکہ گلے سڑے پھلوں کی چاٹ اور خراب آلو کے سموسے اور چپس عام ہیں۔ ان گنت اشیاء میں ملاوٹ سے انسانی صحت داوُ پر لگ چکی ہے اور آج 58 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر سال سات کروڑ پاکستانی فوڈ پوائزنگ کی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں اور 44فیصد بچےغذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں 2010ء میں ہمارے وزیر داخلہ نے خود اعتراف کیا کہ پاکستان میں 40 سے 50 فیصد ادویات نقلی اور جعلی فروخت کی جاتی ہیں۔
پچھلے دنوں دل کی ایک دوائی جو میں خود بھی کھاتا ہوں اس میں ملاوٹ کی وجہ سے 119 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چند ماہ قبل کھانسی کا ایک شربت پینے سے 50 افراد ہلاک ہوے ُ۔ خواراک میں ملاوٹ کی وجہ ہماری آنے والی نسل شدید خطرات سے دوچار ہونے جارہی ہے۔ ملاوٹ کا اثر ہمای جسم وجان کے ساتھ ساتھ ہمارے اخلاق و معاشرت کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں افراتفری، نفسانفسی اور آپا دھاپی نے ہمارے دلوں کا سکون اڑا دیا ہے اور گھروں سے برکت اُٹھ چکی ہے۔ یہ سب اسی حرام کا اثر نظر آتا ہے؟ ملاوٹ کرنے والے کو خدا کا خوف ہے نہ حکومت کا ڈر اور نہ انسانیت کا احساس ہے اور ہم غریب عوام بھی سستے کے چکر میں اپنی جان کا سودا کر رہے ہیں اور یہ ملاوٹ کرنے والے لالچی، بےحس ناجائز منافع خور اور موت کے سوداگر ہماری آئندہ نسلیں تباہ کرنے پر تلے ہوے ہیں
جاری ہے ازل سے یہی قانون الہی
اعمال بگڑتے ہیں تو آتی ہے تباہی
حدیث نبوی صلیللہ علیہ وسلم ہے کہ "جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں" کیونکہ ملاوٹ کرنے والا انسان کو دھوکہ دیتا ہے اور دھوکہ باز شخص منافق تو ہو سکتا ہے لیکن مومن نہیں۔ کاش ان کو علم ہوسکے کہ قیامت میں صرف عبادات ہی کا حساب نہیں ہوگا معاملات کو پہلے دیکھا جاے گا کیونکہ ملاوٹ کے ذریعے انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے اور حلال اور حرام کے تصور کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ آئیں ہم سب ہر شعبہ زندگی سے انفرادی اور اجتماعی طور پر اس ناسور کے خلاف جہاد کا آغاز کریں تاکہ ہماری قوم اور آنے والی نسلیں بڑی تباہی سے محفوظ رہ سکیں اسکے لیے سب سے پہلے ہمیں ملاوٹ کو اخلاقی اور مذہبی برائی سمجھنا اور دل سے تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر دنیا کے بےشمار ممالک میں یہ ممکن ہو چکا ہے تو ہمارے ملک میں کیوں نہ ہو؟ اس سلسلے میں ہر سطح پر حکومتی کردار بے حد اہم ہے حکمرانوں کو جنگی بنیاد پر ملاوٹ مافیا کے خلاف بڑی کاروائی کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل اس سے ہی وابستہ ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے اپنا انفرادی اور اجتماعی فرض ادا کریں کہ یہی آج وقت کی ضرورت ہے۔