Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Bila Wajah Ka Bair Aur Dushmani Magar Kyun?

Bila Wajah Ka Bair Aur Dushmani Magar Kyun?

بلا وجہ کا بیر اور دشمنی مگر کیوں؟

ایک سانپ ایک جگنو کا پیچھا کرنے لگا جو ایک چھوٹا سا کیڑا ہے اور صرف چمکنے کے لیے جیتا تھا۔ وہ جگنو رک گیا اور سانپ سے کہا کہ بھائی کیا میں آپ سے تین سوال پوچھ سکتا ہوں؟ سانپ نے کہا ہاں کیوں نہیں ضرور پوچھو تو جگنو نے کہا کیا میں بھلا کسی ایسی مخلوق سے تعلق رکھتا ہوں جو آپکی قدرتی غذا ہوتی ہے یا بن سکتی ہے؟ سانپ نے جواب بلکل بھی نہیں ! تو پھر کیا میں نے آپ کی شان میں کچھ ایسی گستاخی کر دی ہے جو آپ کو بری لگی ہے میرا اور آپ کا تودور تک کا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے کہاں تم اور کہاں مجھ جیسا کمزور اور معمولی سا کیڑا؟

سانپ نے کہا ایسا بھی نہیں۔ تو پھر تم کیوں میرے پیچھے پڑے ہو اور مجھے ہڑپ کرنا چاہتے ہو؟ سانپ نے جواب دیا ایک تو ڈسنا میری فطرت ہے دوسرے میں آپ کو چمکتا دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ خوبی مجھ میں نہیں ہے۔ دنیا میں سانپ کی طرح بہت سے لوگ بھی آپ کو جگنو کی طرح چمکتا دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتے اس لیے وہ سانپوں کی طرح خاموشی سے آپ کا پیچھا کرتے ہیں اور آپ کو تباہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ وہ آپ جیسی خوبیوں کے حامل نہیں ہوتے اور پھر سانپ کی طرح ڈسنا بھی ان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ زندگی میں ایسے بہت سے لوگ سانپ جیسی طبیعت رکھتے ہیں اور اپنے کسی مفاد کے نہ ہونے کہ باوجود کسی کو خوشحال اور چمکتا دمکتا دیکھ کر برداشت نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبیاں ان میں نہیں ہوتیں اور وہ خود ان جیسی صلاحیت اور خصوصیت اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے وہ صلاحیت کسی اور میں بھی نہ رہے۔ یہ کہلاتی ہے خدا واسطے کی دشمنی، ناحق کا بیر یا بلاوجہ عداوت یا پھر مفت کا جلن، آج کی جدید زبان میں اسے "پرسنلٹی کلیش " یعنی کسی شخصیت سے بلاوجہ خا ر کھانا۔

ہمارے دین اسلام میں بلاوجہ شرعی کسی مسلمان سے دشمنی کرنا یا اسے برا سمجھنا قطعی جائز نہیں ہے اور ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ہوتا ہے۔ یہ عادت حسد اور کینہ کے بھی زمرے میں آتی ہے ایک دوسرے کو بلاوجہ دشمن بنا دیتی ہے۔ حالانکہ زندگی میں آپ جن سے بلاوجہ نفرت کرتے ہیں ان میں سے نصف کو پرواہ ہی نہیں ہوتی اور نصف کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔

یہ منفی عادت بعض اوقات انسانی فطرت اور عادت میں شامل ہو کر شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے اور انسان غیر محسوس طور پر اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بینک ملازمت کے دوران میرے ساتھ بہت افسر وں اور ساتھیوں کا رویہ میرے ساتھ بلاوجہ خراب رہتا تھا اسکی وجہ میری کارکردگی یا ترقی ہوتی تھی۔ ایک دوست کو تو یہاں تک غصہ ہوتا تھا کہ وہ میری کسی ترقی یا کارنامے پر مبارکباد تک نہ دیتے۔ اور برملا مجھے کہتے یار! یہ اتنا ڈیپازٹ، پرافٹ اور بزنس تمہاری برانچ میں کہا ں سے آجاتا ہےکہ ہر سال پورے ریجن میں بلکہ کئی مرتبہ پاکستان بھر میں اول آجاتے ہو اور ہر سال "مین آف دی ائیر " قرار پاتے ہو۔ اور ہمارےافسران بالا کے بھی کان بھرتے رہتے تھے۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک بڑے افسر سے انہوں نے میرے بارے میں کوئی گلہ کیا تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو جاوید سے کیا دشمنی ہے کہ آپ اس کے بارے میں غلط اور جھوٹی باتیں کرتے جبکہ وہ تو چند سالوں میں ترقی کرکے ایک کلرک سے وائس پریذیڈنٹ بن گیا ہے اور اس کی کارکردگی بھی مثالی ہے۔ تو ہمارے اس ساتھی نے جواب دیا سر! مجھے تو یہ غصہ اور تکلیف ہے کہ وہ جب سے ہمارے ریجن میں آیا ہے ہر انعام، ہر ترقی، ہر ایوارڈ وہی جیت جاتا ہے اس کے ہوتے ہوے ُ کوئی دوسرا یہ اعزاز کیسے حاصل کرے گا؟ جبکہ اس کے ریجن میں آنے سے پہلے یہ سارے اعزاز اور انعام مجھے ملا کرتے تھے۔

یہ بندہ اپنی کارکردگی سے پورے ریجن کے لوگوں سے زیادتی کر رہا ہے وہ افسر یہ بات سن کر ہنسے اور کہنے لگے بھائی ہم نے اسے ریجن کی مشکل ترین ساری برانچوں میں بھیج کر دیکھ لیا ہے یہ ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتا ہے۔ اب تو پھر اسکے ٹرانسفر یا اسکی موت کا انتظار کرو اسکی زندگی یا اسکی اس ریجن میں موجودگی میں کسی اور کا نمبر نہیں آنے لگا۔ میرے ایک افسر تو غصہ میں کہتے تھے "تمہاری کارکردگی مجھے تو زہر لگتی ہے " ہمارا بینک ہر سال ایک ملازم کو قرعہ اندازی کے ذریعے مفت حج پر بھجوایا کرتا تھا اتفاق سے ایک سال بینک کی قرعہ اندازی میں پورے پاکستان سے میرا نام نکل آیا تو مبارکباد کا شور مچ گیا لیکن ہمارے اس دوست نے کہا کہ اس مرتبہ قرعہ اندازی میں کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے اس لیے میں آپ کو مبارکباد نہیں دیتا۔

آج ہم جن برائیوں کا شکار ہیں ان میں سب سے اہم اور خطرناک بیماری حسد اور بغض و جلن ہے یہی انسانوں میں عداوت اور نفرت کے بیج بوتا ہے ہمارے معاشرے میں حسد و کینہ کی یہ وباء آج تو بہت شدت اختیار کر چکے ہے ایک دوسرے سے بلاوجہ بیر اور دشمنی رکھنا ہماری انفرادی اور اجتماعی عادت بن گئی ہے حساسد دراصل دوسروں کو ملنے والی نعمت کا زوال چاہتا ہے خواہ وہ اسے ملے نہ ملے مگر دوسرے کے پاس سے بھی جاتی رہے۔ تاکہ وہ اس سے بڑھ نہ جاے ُ یہ عفریت اب گھروں، خاندانوں، گاوں محلوں، سوسائٹیوں، قصبوں، شہروں سے نکل کر ملکی اور قومی سطح تک سرایت کر رہا ہے۔

ہمارے سیاستدانوں، سرکاری و نجی اداروں، درسگاہوں، تعلیمی کارکردگی کی دوڑ، اور ہر گھر میں آپ کو چند لوگ ایسے ملیں گے جو بلاوجہ آپ سے عداوت پال لیں گے اور ہر کام کرنے والے اور کارکردگی دکھانے والے سے حسد اور کینہ ناصرف رکھا جاتا ہے بلکہ اس کا برملا اظہار بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سیاستدانوں کی تو خیر اپنے مخالفیں پر بلاوجہ تنقید سمجھ میں آتی ہے وہاں تو بات عدم برداشت کی آخری حد بھی پار کر چکی ہے لیکن ہمارے میڈیا کے ہر اینکر اور ہر تجزیہ نگار کے بارے لوگ جانتے ہیں کہ یہ کس کی تعریف یا کس کی برائی کرے گا؟ اس کے خیالات اور نظریہ کیا اور کیوں ہے؟ ہم سب نے اپنے آپ کو کئی حصوں میں تقسیم کر لیا ہے۔

ہمارے والد صاحب فرمایا کرتے تھے "جو شخص دوسروں کی خوشی پر خوش ہو کراس میں شریک نہیں ہوتا اسے اپنی خوشی پر خوش ہونے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ اور جو شخص کسی کے اچھے کام کی تعریف نہیں کرتا اس کو اپنی تعریف کرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی اچھائی اور خوشی پر خوش نہ ہونا اور تعریف نہ کرنا دراصل حسد ہے اور حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اسے چھیننے کی خواہش کرنا ہےجو یہ ایک منفی رویہ ہے۔ انہوں نے کہا حسد کی چند اقسام ہوتی ہیں، حسد کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے پاس اشیاء ہونے پر حسد کرتا ہے کیونکہ وہ تنگ نظری کا شکار ہوتا ہے۔ حسد کی ایک اور قسم یہ ہے کہ دوسروں سے نعمت زائل ہونے پر انسان خوش ہوتا ہے جبکہ اسے کوئی چیز حاصل نہیں ہوئی ہے۔

حسد کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے پاس نعمتیں آنے کی وجہ سے غمگین ہوتا ہے۔ لیکن دوسروں کو نعمتوں سے محروم کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتا بلکہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ حسد ایک زہر ہے جسے انسان خود پیتا ہے اور توقع دوسرے کے نقصان کی کرتا ہے۔ وہ فرماتے تھے حسد کے کے اسباب میں ہماری منفی سوچ ایک باطنی خباثت ہوتی ہے جو ایک شیطانی عمل ہے۔ اس لیے قرآن شریف کی "سورۃ الفلق "میں پناہ چاہنے کا حکم ہے۔ "اور میں پناہ مانگتا ہوں حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے "۔

حدیث مبارک ہے "اگلی امتوں کی بیماری تمہاری طرف بھی آگئی ہے وہ بیماری حسد و بغض ہے جو مونڈنے والی ہے میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ بال مونڈتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈتی ہے " حضرت امام حسنؑ فرماتے ہیں" حسد ایک آگ ہے جو انسان کو جلاتی ہے اور دوسروں کو عداوت پر ابھارتی ہے "حضور ﷺ نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے " حسد گھر، قوم، خاندان اور قبیلے کی بربادی کا سبب ہوتا ہے ارشاد نبوی ہے "لوگ ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ آپس میں حسد نہ کریں"پھر فرمایا "کسی انسان کے دل میں ایمان اور حسد اکھٹے نہیں ہو سکتے (یعنی یا ایمان ہوگا یا پھر حسد)بہترین اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حسد کی تباہ کاریوں اور نقصانات سے خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ کریں یہی ہماری ترقی اور فلاح کا راستہ ہے۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan