Bijli Kyu Karakti Hai
بجلی کیوں کڑکتی ہے
یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ ہمارے شہر کے پولیس اسٹیشن کے صحن میں ایک ٹنڈ منڈ، سوکھا اور جھلسا ہوا درخت نظر آتا تھا۔ جس کے بارے میں مجھے میرے دادا جان نے بتایا تھا کہ بہت پہلے آسمانی بجلی کے گرنے سے یہ درخت جلا تھا۔ لیکن پھر کبھی ہرا نہ ہو سکا میں نے داداجان سے پوچھا بڑے اباجی! یہ آسمانی بجلی کیوں گرتی ہے؟ وہ مجھے سمجھاتے ہوے بولے یہ آسمانی بجلی دراصل ایک قدرتی آفت ہوتی ہے جس کا گرنا تو دور کی بات ہے محض دیکھنا ہی دہشت زدہ کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لوگوں کے لیے ایک الارم اور خبردار کرنے والا سائرن ہوتا ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ عارضی دنیا کی ہر شے عارضی ہے اس لیے تکبر اور ظلم سے باز رہو ورنہ صرف ایک ہلکی سی چمک تمہاری زندگی کا اختتام بن سکتی ہے یہ اللہ کی وہ ہدایت ہے جو کسی بڑے عذاب سے قبل اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جاتی ہے۔
یہ فضا اور زمین کے درمیان پیدا ہونے والی ایک چنگاری ہوتی ہے جس کی کڑک اور چمک سننے اور دیکھنے والے کو اتنا خوفزدہ کر دیتی ہے کہ وہ اپنے رب سے پناہ اور خیر مانگنے لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آسمانی بجلی گرنے کی صرف موسمیاتی اور سائنسی وجوہات ہی ہیں یا پھر رب تعالیٰ کی بےشمار حکمتیں اس میں پوشیدہ ہیں سورۃ الرعد میں ارشاد ہے "گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے وہی آسمان سے بجلیاں گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں اور اللہ سخت قوت والا ہے" پھر فرمایا "اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہیں بجلی کا منظر دکھایا جس کا ایک رخ خوفناک اور دوسرا امید افزا ہے"۔
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی آسمانی بجلیوں کے گرنے سے کثیر تعداد میں اموات بھی بیان کی گئی ہیں۔ قوم ثمود یعنی حضرت صالحؑ کی قوم کو ایسی ہی آسمانی بجلی اور تیز پتھروں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ قرآن پاک میں لفظ "صاعقتہ" اس ہولناک بجلی کو کہتے ہیں جو زبردست دل دہلا دینے والی کڑک اور چمک کے ساتھ آسمان سے زمیں پر گرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "رہے قوم ثمود سو ہم نے ان کی بھی رہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس کی بنا پر انہیں رسواکن عذاب آسمانی بجلی نے ان کے کرتوتوں کی باعث پکڑ لیا"۔
پچھلے ہفتے پورے پنجاب کے مختلف علاقوں میں اتنی شدید کڑ کڑاتی گرج چمک دیکھنے میں آئی جو کڑک پہلے کبھی نہیں سنائی دی تھی اور اس دوران بارش کے دوران آسمانی بجلی کے گرنے کی غیر معمولی واقعات میں تقریباََ تیس افراد اور بےشمار جانور اس کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گئے جبکہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد بھی سامنے آئی ہے یہ سلسلہ جاری ہے اور آسمانی بجلی کی گھن گرج بڑھ رہی ہے۔ یقیناََ انسانی جانوں کے ضیاع کا دکھ ہے لیکن دیکھنا اور سوچنا یہ بھی ہے کہ کچھ ایسا تو ہو رہا نہیں ہے کہ رب تعالیٰ ہمیں ہدایت دینے اور باز رہنے کے لیے خبردار کررہا ہے۔ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو کئی واقعات نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔
غزہ اور فلسطین میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں پر انسانیت سوز مظالم اور ان کی آسمان کو چھوتی فریادیں اور آہ وبکا کچھ کم تو نہ ہیں۔ پوری دنیا سراپا احتجاج ہے اور اس ظالمانہ نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کرہی ہے۔ کوئی ہسپتال، مسجد، گھر سلامت نہیں رہا، کھنڈروں اور ملبوں کے ڈھیروں سے اپنوں کی لاشیں تلاش کرتے مظلوم فلسطینی اپنے رب کی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔
دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام سرعام جاری ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں نظر آتا۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل چکا ہے جہاں نہتے لاکھوں پناہ گزین پچھلے چھ ماہ سے سخت محاصرے میں خوراک اور پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ مہذب دنیا کے سامنے غزہ کی بےبسی اور پوری دنیا کی بےحسی کی تاریخ میں کوئی مثال نظر نہیں آتی ہے۔ کہیں یہ بجلی کی کڑک اور چمک ہماری دنیا کی بیداری کے لیے تو نہیں ہے؟
لشکر فیل جہالت پہ اتر آیا ہے
اے خدا پھر سے ابابیلوں کو کنکر دے دے
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک علاقے علی پور میں ایک ماں اور اسکے سات بچوں کا سفاکانہ قتل اور وہ بھی ایک بے رحم باپ کے ہاتھوں کچھ کم المیہ تو نہیں ہے ان کے آبائی علاقے مڈ والا میں آٹھ جنازے اٹھے تو جہاں ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل افسردہ تھا وہیں انسانیت کے اس خون پر آسمان چیر دینے والی چیخ وپکار نے آسمان کو لرزہ دیا ہے۔ ذہنی مریض یا سنگدل باپ کی یہ کاروائی اور درندگی گھریلو ناچاتی تھی یا غربت اور بھوک ہمارا دل یہ تصور کرنے سے قاصر ہے کہ ایک باپ اپنے ہاتھوں اپنے ہی بیوی اور معصوم بچوں کو کدال سے ذبح کیسے کر سکتا ہے؟ غربت کے ہاتھوں خودکشیاں پہلے ہی بڑھتی جارہی ہیں غربت جہاں انسان کا ذہنی توازن بگاڑ دیتی ہے وہیں تنگدستی کی باعث گھریلو ناچاتی پیدا ہو جاتی ہے۔
مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے بےروزگاری نے گھروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ایک جانب بچوں کی بھوک مٹانے کی جدوجہد ہے تو دوسری جانب بجلی اور گیس کے ادائیگی کسی طرح بھی ممکن نہیں ہو پارہی ہے ایک دیہاتی درزی آٹھ افراد کے گزراوقات بھلا کیسے کر سکتا ہے؟ اتنا بڑا واقعہ ایک دم نہیں ہوا یہ آگ کب سے سلگ رہی تھی اور اس کی تپش اردگرد کے لوگوں اور معاشرے کو محسوس کیوں نہ ہو سکی؟ ہمساے اپنے حقوق ادا کیوں نہ کر پاے؟ کیا ہم اور ہمارا معاشرہ اس معاملے میں بری الزمہ ہوسکتا ہے؟
ملت ایکسپریس ٹرین میں پولیس کانسٹیبل کے تشدد کا نشانہ بننے والی تیس سالہ خاتون کی لاش چنی گوٹھ ریلوے اسٹیشن سے ملنے کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ دوران سفرپولیس کانسٹیبل کے تشدد سے ہلاکت کے بعد چنی گوٹھ کےقریب پھینکی جانے والی لاش کی شناخت ہو چکی ہے جو ایک خاتون مریم بی بی کی بتائی جاتی ہے جو بیوٹی پارلر کا کام کرتی تھی جسے ایک ویڈیو میں رمضان شریف میں بلند آواز سے وردکرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ تشدد کا یہ واقعہ چند دن قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں دیکھنے میں آیا تو بڑا شور مچ گیا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف وہ کانسٹیبل ہی اس قتل کا ذمہ دار ہے؟ یا پھر گاڑی میں سوار بےشمار لوگوں کی بےحسی اور خاموشی بھی اس میں شامل ہے؟
پوری ٹرین میں اس ظلم کے خلاف آواز کیوں اٹھائی جاسکی؟ کیا ہم اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو بھی اس کا ذمہدار نہیں سمجھتے؟ انسان سازی حکومت یا ریاست کی نہیں معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور معاشرے کی تعمیر ہم اور آپ سے عبارت ہوتی ہے۔ ذرا غور کریں تو قصور ہمارا ہی بنتا ہے۔ انسان سازی کے لیے اخلاقیات ضروری ہیں جبکہ ہم اور ہمارا معاشرہ اخلاقی اقدار سے دن بدن دور ہوتا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ظلم برداشت کرنا اور خاموش رہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کیا یہ بےحسی کی انتہا نہیں کہ کسی خاتون پر بھری ٹرین میں تشدد ہو اور ہم سب خاموشی سے یہ سب دیکھتے رہیں؟ ہم اپنے حقوق کا شور مچانے والے لوگ کیوں اپنے فرائض بھول جاتے ہیں؟
کوئٹہ نوشکی میں گذشتہ روز گیارہ نوجوانوں کو گاڑی سے اتار کر اور ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر بہیمانہ قتل کی واردات میں ناجانے کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے ہیں۔ ان گیارہ جنازوں نے جو قیامت صغریٰ برپا کی ہے اور ان کے ورثا کی آہ وپکار نے جو آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ کیا ان کی حفاظت صرف قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری تھی یا پھر بطور قوم ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے؟ سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوں کے ہاتھوں اغوا شدہ اشخاص کی چیختی چلاتی فریادیں اور پیغامات کی وڈیوز دیکھ کر ہر شخص پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ اغوا شدہ ڈرائیوروں کی مسخ شدہ لاشیں کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کہ ہم بحیثیت مجموعی بے حسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صرف کسی سخت آپریشن کی ہی نہیں بلکہ ہماری اور ہمارے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی بھی درکار ہے۔ یہ تو وہ صرف چند واقعات ہیں جو منظر عام پر آسکے ہیں ورنہ تو یہاں ہماری بےحسی کی ایک طویل فہرست ہے۔
یقینا" یہ کڑکتی اور گرتی بجلیاں ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ کی جانب سے یہ ایک الارم ہے یہ ایک خطرے سے خبردار کرنے والا سائرن ہے کہ اب ظلم حد سے بڑھ رہا ہے اسے روکا جاے ٔ ورنہ اللہ کی بےآواز لاٹھی حرکت میں آنے کو تیار ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں یہ بارشیں، طوفان، سیلاب، زلزلے، ژالہ باری اور آفات دراصل قدرت کا ایک پیغام ہے کہ ابھی وقت ہے کچھ کر لو۔ ایک انتباہ ہے کہ بےحسی چھوڑ دو اور احساس کرو کیونکہ کسی بےبس پر زیادتی یا ظلم پر ہماری خاموشی بھی ظلم ہوتی ہے۔