Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Bachpan Ki Mout

Bachpan Ki Mout

بچپن کی موت

ایک طرف ہمارا ملک عزیز سیلاب کی تاریخی آفت سے نبرد آزما ہے۔ پانی رفتہ رفتہ تباہی مچاتا ہوا سندھ کے میدانوں تک پہنچ چکا ہے۔ ہر وہ جگہ جہاں سے یہ پانی گزرا ہے بےشمار افسوسناک انسانی المیے سامنے آرہے ہیں۔ اسی دوران دوسری جانب غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر آگ اور خون کی بارش لگاتار برس رہی ہے اور شہدا کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جن میں زیادہ تعداد غزہ کے معصوم بچوں کی بتائی جاتی ہے۔

گذشتہ سال تاریخ کا سب سے مختصر جمعہ کا خطبہ دیا گیا مشہور فلسطینی داعی محمود الحسنات نے یہ خطبہ دیا تھا کہ "کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں کیا بیان کروں اور کس کو کروں؟ کون ہے جو سن لے؟ جب تیس ہزار شہداء ستر ہزار زخمیوں بیس لاکھ مہاجرین اور بھوک سے تڑپتے بچوں نے خون میں لت پت عورتوں نے اس امت کو خواب غفلت سے بیدار نہ کیا نہ کوئی ہماری مدد کو آیا تو پھر میرے خطبے سے تو یہ ناممکن ہے وما علینا الاالبلاغ المبین" لیکن گذشتہ روز تو جمعہ کے مختصر ترین خطبے نے روئے زمین پر لرزہ طاری کردیا جب امام خطبہ دینے آے تو فقط یہی کہا کہ "اے لوگو! میں بھوکا ہوں بول نہیں سکتا۔۔ تم بھوکے ہو سن نہیں سکتے۔۔ بس نماز قائم کر و۔۔ اللہ اکبر "زمین ہل گئی آسمان کانپ گیا لیکن اقوام عالم کا ضمیر نہیں ہلا۔

غزہ میں بھوک اور پیاس کا مکروہ ترین ہتھیار استعمال ہو رہا ہے۔ غزہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں۔ گلیاں سنسان اور قبرستان جیسی لگتی ہیں۔ اسکول اور ہسپتال کھنڈر بن چکے ہیں۔ جہاں کبھی زندگی کی چہل پہل ہوا کرتی تھی وہاں ہر جانب صرف بھوکے فلسطینیوں کی چیخیں اور بارود کی بو پھیلی دکھائی دیتی ہے۔ یہ صرف اینٹ پتھریا مٹی کا ملبہ ہی نہیں بلکہ بکھرے خوابوں، اجڑے گھروں اور بھوکی پیاسی ماوں کی گود چھن جانے والے ہزاروں بچوں اور معصومیت کے قتل کا نوحہ ہے۔

معصوم بچوں کے خون سے تر یہ زمین آج دنیا کے ضمیر سے سوال کر رہی ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ نوزائیدہ بچوں کا جرم کیا ہے؟ ان بچوں کا جرم کیا ہے جو پیدا ہونے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں؟ کیا غزہ میں پیدا ہونا ہی ان کا جرم ہے؟ جانورں پر رحم کا پرچار کرنے والے انسانوں اور معصوم بچوں پر رحم کیوں نہیں کھاتے؟ انہیں کی دھرتی انہیں کے لیے کیوں تنگ ہو چکی ہے؟ غزہ کی گلیوں میں آج بھی ان معصوم بچوں کے قدموں کی دھیمی دھیمی چاپ ابھی بھی سنائی دے رہی ہے۔

زندگی سے مایوس بھوک، پیاس اور بارود کی بارش سے غزہ میں دم توڑتا یہ معصوم بچپن بڑی حسرت و یاس سے پوری دنیا کی جانب دیکھ رہا ہے ان میں تو اب چیخنے کی سکت بھی نہیں رہی۔ شاید یہ وہ بدنصیب خطہ ہے جہاں آج بچپن کا سب سے بڑا خواب اسکول کا بستہ یا کھلونا نہیں بلکہ کسی بھی طرح زندہ بچنے کی خواہش ہے۔ جو بھوک کے مارے درختوں کے پتے اور جڑیں کھا رہے ہیں اور سڑکوں پر کھڑا گندہ پانی پی کر پیاس بجھا رہے ہیں۔ جو خوراک کے حصول کے لیے خالی برتن لیے اگر کہیں اکھٹے ہوں تو گولیوں کی بوچھاڑ ان کے سینے چیر دیتی ہے۔ یہ غریب تو خوراک کی طلب میں اپنی بھگڈر سے خود ہی کچلے جا رہے ہیں۔ ہر جانب آہ و پکار، شور اور فریاد ہے بھوک اور خوراک کی کمی سے مرنے والے بچوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جارہی ہے۔ شاید دنیا کا سب سے بڑا تاریخی المیہ جنم لے چکا ہے۔ دہشت گرد اسرائیل کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر فلسطینوں کی نسل کشی کا یہ گھناؤنا کھیل بڑی دیدہ دلیری سے کر رہا ہے۔ بچوں پر یہ مظالم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

غزہ کے یہ بچے معمولی نہیں بلکہ دنیا کے ان نایاب بچوں میں شمار ہوتے ہیں جو دھماکوں کے شور میں پیدا ہوتے ہی جنگ کا جغرافیہ پڑھ لیتے ہیں۔ ان کی پہلی لوری بمباری کی آواز سے ہوتی ہے اور پہلا کھیل ملبے سے بچ نکلنے کی خواہش اور مشق ہوتی ہے۔ ان کے چہرے کی پہلی مسکراہٹ کسی ماں کی آغوش یا باپ کا کندھا نہیں بلکہ بارود کی آگ کا وہ خوف ہوتی ہے جو مسکراہٹ سے قبل ہی انہیں ملبوں تلے دبا دیتی ہے۔ غزہ میں موت بچوں کو بڑی آسانی سے ڈھونڈ لیتی ہے کیونکہ ان کے پاس نہ کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے اور نہ کسی محفوظ کل کا تصور یا خواب ہی ان کا منتظر ہے۔ ان کے نصیب کی بےشمار چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھن چکی ہیں۔

شاید وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ بچے کاغذ کی کشتیاں کیسے چلاتے ہیں؟ تتلیوں کو کیسے پکڑتے ہیں؟ بارش میں بھیگنے کا لطف کیا ہوتا ہے؟ کھلونے سے کیسے کھیلتے ہیں؟ ان کے نصیب میں ہوش سنبھالتے ہی گولی کی آواز، میزائل اور بم کا دھماکہ اور زخموں کی تپش ہوتی ہے۔ غزہ میں بچپن مر چکا ہے اور زندہ جسموں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے معصوم خواب بھی غزہ کے کھنڈروں میں کہیں دفن ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف غزہ کے بچوں کا معصوم بچپن ہے جو ہر روز مرتا جارہا ہے؟ یا پھر انسانیت کا بچپن بھی ان کے ساتھ دفن ہو رہا ہے؟ کیونکہ کہتے ہیں کہ جب ایسے بھیانک ظلم پر دنیا چپ رہتی ہے تو یہ مجرمانہ خاموشی خود ایک موت ہوتی ہے۔

یقیناََ یہ صرف غزہ کے نہیں پوری دنیا کے بچے ہیں کیونکہ بچے تو سانجھے ہوتے ہیں۔ بچوں اور بوڑھوں کی شناخت صرف ان کی معصومیت اور بےبسی ہوا کرتی ہے۔ دنیا بھر کے انسانیت کے علمبردار خاموش ہیں اور شاید منتظر ہیں کہ یہ شیطانی کھیل مسلمانوں کو غزہ سے ختم کردے یا نکال دے لیکن غزہ کے ان مظلوم بچوں کا خون رائیگاں ہرگز نہیں جاے گا۔ بےشک اللہ ہماری دعائیں سننے والا ہے وہ یقیناََ غیب سے اسباب اور مدد ضرور فرمائے گا۔ دنیا کے اس سب سے بڑے ظلم اور ان مظلوم بچوں کی تاریخ لکھی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ دنیا کی خاموشی بھی رقم ہو رہی ہے۔ تاریخ یہ ضرور بتاے گی کہ "بیت المقدس" کی سرزمین پر غزہ کے مسلمانوں نے تن تنہا آخری سانس تک جنگ لڑی اور اپنا سب کچھ نچھاور کردیا۔

بیت المقدس ہم سب کا ہے بےشک وہ غزہ کے باسی سارے مسلمانوں جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور دنیا میں امن کے علمبردار اپنی مذمتی قراردادوں اور اپیلوں تک محدود ہیں۔ یہاں تک کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان محصور فلسطینیوں کو خوراک فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کی عرش کو چھوتی دعائیں ضرور ایک دن رنگ لائیں گیں۔ ایک آزاد اور خود مختیار فلسطینی ریاست ضرور وجود میں آئے گی۔ اسرائیل کی یہ کھلی دہشت گردی بڑھتے بڑھتے ہمارے برادر مسلمان ملک ایران، لبنان، شام، یمن اور پھر قطر تک آپہنچی ہے۔ دنیا کے تمام جنگی واخلاقی اصولوں کی پامالی اس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب ضرور کوئی نہ کوئی ایسا لائحہ عمل اپنانا ہوگا جس سے اس خطے میں امن دشمن اسرائیل کی جارحیت کو روکا جاسکے۔

اے اہل غزہ ہم بہت شرمندہ ہیں ہم صرف مذمت اور اظہار ہمدردی ہی کر سکتے ہیں لیکن ہمارا ایمان اپنے خدا پر اٹل ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ ایک سوئی بھی چاہیے تو صرف مجھ سے ہی مانگو اور دعا گو ہیں یااللہ تو ہی ان مصیبت زدہ اور بھوکے پیاسے مسلمانوں کی داد رسی فرما جو بڑی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ بےآسرا، مجبور و بے بس اور بےکس ہیں۔ تو ہی ان کا مدد گار بن اور ان کو اس تکلیف و اذیت سے نجات دلا دے۔ بےشک تو ہی ان کی مدد بہتر انداز سے کرنے پر قادر ہے۔ پاکستان اور یہاں کے عوام کی ہمدردیاں اور حمایت ہمیشہ فلسطینوں کے ساتھ ہیں اور رہیں گیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan