Bachay Aur Maaon Ki Soch
بچے اور ماوں کی سوچ
بعض اوقات کچھ خاموش تصویریں بہت ساری درد بھری کہانیاں بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی تصویر دیکھ رہا تھا جس میں ایک نوجوان نشے میں دھت ایک جانب پڑا ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر اس کی ماں آنسوں بھرا چہرہ لیے بیٹھی بڑی حسرت سے اسے دیکھ رہی ہے اور شاید اس بات کی منتظر ہے کہ کب اس کا بیٹا ہوش میں آئے تو اسے واپس گھر لے کر جا سکے؟ کہتے ہیں کہ ہر ماں اولاد کے برے وقت کے لیے کچھ نہ کچھ بچا اور چھپا کر ضرور رکھتی ہے۔ مجھے اس ماں کی بےبسی اور لازوال محبت دیکھ کر ماوں کی محبت اور قربانی کے کئی واقعات ذہن میں آگئے۔
ایک مرتبہ ہماری دادی اماں کو ان کے بھائی نے ان کی پسندیدہ تھوڑی سی مٹھائی لا کر دی جو انہوں نے خود کھانے کی بجائے اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ کر رکھ لی۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کا بیٹا بیاض خان جو عرائض نویسی کرتے تھے۔ دوپہر کو کام کے بعداپنے گھر جانے سے قبل اپنا کاغذات کا بستہ رکھنے گھر ضرور آتا ہے اور اسے بھی یہ مٹھائی بہت پسند ہے۔ اس زمانے میں ان کے اس بیٹے پر عیال داری کا بہت بوجھ ہوا کرتا تھا اور آمدنی بھی بہت کم ہوتی تھی۔
جونہی وہ دوپہر کو آئے دادای اماں نے دوپٹے کے پلے سے مٹھائی کھول کر انہیں دی اور کہا بیاض! بیٹھو یہ مٹھائی کھا لو! یہ تمہارے ماموں جان لائے تھے میں نے تمہارے لیے سنبھال رکھی ہے۔ انہوں نے کاغذ میں لپٹی وہ مٹھائی لی اور اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لی تو دادای اماں بولی بیاض! جیب میں کیوں رکھ لی ہے کھالو تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے اماں جی آپ نے مٹھائی خود نہیں کھائی اور اپنے بچے کے لیے رکھ لی تو بھلا میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ میں نے بھی اپنے بچوں کے لیے رکھ لی ہے جیسے آپ کو میں پیارا ہوں مجھے بھی میرے بچے ایسے ہی پیارے لگتے ہیں۔ آپ میرے بغیر نہیں کھا سکتی تو بھلا میں اپنے بچوں کے بنا کیسے کھا لوں؟ بے شک اپنے بچے کی محبت ہمیں قربانی پر مجبور کر دیتی ہے۔ شیکسپئر نے کہا تھا کہ بے شک بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہوتا ہے چاہے بچے کی عمر کتنی بھی ہو؟
ہماری نانی جاں اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کے لیے ہر چیز بچا کران کا حصہ ایک اونچے چھت سے لٹکے چھینکے میں جمع کرتی رہتی تھی تاکہ محفوظ رہے اور جب ہم سال یا چھ مہینے بعد وہاں جاتے تو وہ چھینکا اتارا جاتا اور ہمیں پتہ چل جاتا کہ ہمارے بعد اس گھر میں کون کون سی چیز کھائی گئی ہے۔ دراصل تو وہ اپنی بیٹی کے لیے ایسا کرتی تھی مگر بھلا بیٹی اپنے بچوں کے بغیر کچھ کھا سکتی ہے؟ وہ پورے سال تھوڑا تھوڑ املائی سے بنا ہوا دیسی گھی جمع کرتی رہتی اور جب ہم اپنے گھر واپس آنے لگتے تو گھی کا وہ ڈبہ ہمارے ساتھ ہی جاتا تھا۔ مائیں بھلا ایسا کیوں کرتی ہیں؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے محبت اور قربانی جو قدرت نے والدین کے دلوں میں ڈال دی ہے۔
آج سے ستائیس سال قبل میری والدہ کی وفات کے بعدجب ان کے بکس سے ایک کپڑے کے ٹکڑے میں بندھے ہوئے چودہ ہزار روپے ملے تو ہم سب بہن بھائی حیران تھے کہ انہوں نے یہ کیوں جمع کرکے یوں رکھے ہوئے تھے؟ پھر ایک دن یہ ایک انگریز ی کی تحریر پڑھ کر مجھے احساس ہوگیا کہ ہماری ماں نے یہ رقم کیوں رکھی ہوئی؟ اور مائیں یہ چھوٹی چھوٹی بچت کرکے چھپا کر کیوں رکھتی ہیں؟ اس انگریز کی اپنے والدہ کے بارے میں تحریر سے یہ راز آپ بھی جان لیں گے وہ لکھتا ہے کہ "میری ماں نے میری تعلیم کے لیے اپنی انگوٹھی بیچ دی، بہن کی شادی کے لیے اپنے کنگن، اور چھوٹے بھائی کی بیماری کے لیے اپنا ہار فروخت کر دیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے جسم پر زیورات کا کوئی ٹکڑا باقی نہیں چھو ڑا۔
میں نے گریجویشن کی اور ملک سے باہر چلا گیا، میں ہر ہفتے دو بار اس سے بات کرتا ہوں، اور مجھے زیادہ تر اس کی رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ میری بہن ایک امیر آدمی سے شادی کر چکی ہے اور اپنی دنیا میں مگن ہے اور آج وہ اپنے اور اپنے بچوں کے تمام خواب پورے کر رہی ہے۔ میرا چھوٹا بھائی ایک مشہور فٹبال کھلاڑی بن چکا ہے، وہ جب سے گھر سے نکلا ہےدوبارہ نہیں آیا۔ شہرت کی رنگینوں میں گم ہو چکا ہے۔ بہت سے سال گزر گئے اور میری ماں ہر بار ننگے پاؤں دروازے کی طرف دوڑتی، جب بھی ہوا سے دروازہ ہلتا یا پڑوسی دستک دیتے۔ لیکن اکثر وہ آنسوؤں اور گھٹنوں میں ہونے والے درد کے ساتھ نڈھال واپس آتی۔ پھر میری ماں اس وقت مر گئی جب وہ اپنے پرانے رومال میں اپناآخری زیور پازیب چھپائے ہوئے تھی صرف اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں ہم میں سے کوئی بیمار نہ ہو جائے؟"۔
یہ پڑھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ بےشک ہماری ماں نے بھی اپنی اولاد کے کسی مشکل لمحہ کے لیے وہ پیسے جوڑے اور چھپا کر رکھے ہوں گے؟ کیونکہ ماں تو آخر ماں ہی ہوتی اور اولاد کے لیے سب ماوں کی سوچ بھی یکساں ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی لڑکی جب ماں بنتی ہے تو اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماں بنتے ہی رب نے جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی ہے اور اپنی محبت کا ستروں حصہ بھی عطا کرکے عظمت اور بڑائی سے نوازا ہے۔ ایک ماں کی سوچ ہمیشہ اس کے بچوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اسی لیے والدین کو جنت کا دروازہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ آج بھی یہ روایت برقرار ہے کہ بیٹی چاہے جتنی مرضی امیر و کبیر ہوجائے والدین کے گھر سے خالی ہاتھ نہیں جاتی۔
والدین وہ ہیرو ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ اولاد پر قربان کر دیتے ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش اور مستقبل کے لیے اپنی زندگی کا سکون کم کردیتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی بھی مرد اور خاتون کی زندگی اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک ہوتی ہے۔ پھر تو وہ جیب میں پیسے ہونے کے باوجود وہ اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے وغیرہ کچھ بھی نہیں خریدتے۔ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش پورا کرنے کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ انہیں اپنے لیے ےتو ذرا سی بھی فرصت نہیں ملتی۔ یہ جذبہ، ایثار اور یہ احساس ہم سب اپنے والد ین میں بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر کبھی محسوس نہیں کر پاتے کیونکہ ہم اس وقت نہیں جانتے کہ قربانی کیا ہوتی ہے؟ کیونکہ اس راہ سے کبھی گزرے بھی نہیں ہوتے۔ پھر جب ہم پہ وہ وقت آتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے والدین نے کس قدر لاڈ پیار اور محبت سے ہمیں پالا ہوتا ہے اور انہیں ہمارا کس قدر خیال ہوتا تھا اور بلکل ایسے ہی ہم بھی پھر اپنی اولاد کے لیے کرتے نظر آتے ہیں۔
ضرورت محض اسی امر کی ہے کہ والدین کی زندگی میں ان کی قربانیوں اور ان کی محبت کا احساس کرکے ان کی دلی قدر کی جائے۔ ان کے جانے کے بعد لاکھوں پیسہ لگانے اور چڑھاوے چڑھانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ ان پیلے پتوں کو جھڑنے سے پہلے سکون کی دولت دی جائے کیونکہ یہ زندگی کی خزاں کے سرد جھونکوں کا بڑی مشکل سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ خدا سب کو ان کے والدین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کی اولاد کو ان کا فرمانبردار بنائے۔ والدین کی قدر کرنا اور بزرگی میں ان کی معصومانہ خواہشات کو بخوشی پورا کرنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے بوڑھے اورمعذور والدین کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے حج اوعمرہ کراتے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ والدین کے چہرے پر محبت سے نظر کرنا بھی خدا کی خوشنودی کا موجب ہوتا ہے اور رب کی خوشنودی ہی تو ہمارا مقصد حیات ہے۔ بندوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب وسنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے اور ان کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ والدین کی جوتیاں سیدھی کرنے سے مقدر بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ آئیں سب ملکر اس جہاد کا حصہ بنیں اور اپنی دنیا وآخرت سنوار لیں اور اپنے مقدر سیدھے کر لیں۔ یاد رکھیں محبت کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بوڑھے والدین کو آج اور ابھی آپ کی توجہ درکار ہے کل جب وہ نہیں ہوں گے تو آپ کی توجہ کسی کام نہ آسکے گی۔