Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Apna Ghar

Apna Ghar

اپنا گھر

اپنا گھر ہر انسان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے۔ اپنی چھت کے نیچے جو سکون ملتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان لوگوں سے پوچھو جو اس محرومی کا شکار ہیں اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی کی توانائیاں لگا دیتے ہیں تب کہیں جاکر اس نعمت کا حصول ممکن ہو پاتا ہے۔ واقعی انسان کے لیے اس کا اپنا گھر اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں گھر کی سہولت کی دستیابی کو اپنا خاص انعام قرار دیا ہے۔ ہمارے چاروں اطراف کتنے ہی لوگ اس نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے سڑکوں کے فٹ پاتھوں، پارکوں، مزاروں، اور ویران کھنڈروں میں پڑے اپنے دن رات بسر کرتے نظر آتے ہیں یا جھگیوں اور خیموں تلے پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر گھر کی سہولت جیسی نعمت کا احساس دو چند ہو جاتا ہے۔

میرے والدین کی پوری زندگی سرکاری اور کرائے کے مکانوں میں گزری والدین کی وراثت سے گھر کی ایک چھوٹی سی کوٹھری تک نہ مل سکی۔ اس لیے میری والدہ کی پہلی اور آخری خواہش ذاتی مکان یا گھر ہو اکرتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ دل کی مریض ہے اور زندگی مختصر ہے لیکن اپنے بچوں کو ایک چھت دینے کے لیے وہ ہمیشہ کوشش کرتی رہی اور جونہی اللہ نے ان کی اولاد کو اس نعمت سے نوازہ تو وہ اس دنیا میں نہ رہیں۔ اس لیے مجھ سمیت سب بہن بھائیوں کی خواہش رہی کہ اپنا اپنا گھر ضرور ہونا چاہیے۔ جس میں اپنی زندگی کے کچھ لمحات بسر ہو سکیں۔ جبکہ میرے والد صاحب حضرت ابوذر غفاریؓ کے پیرو کار تھے اور گھر بنوانے کے خلاف تھے اوروہ کہتے تھے دنیا ایک سرائے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ چند دن قیام کے لیے اتنا تردد اور کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

وہ فرماتے تھے رزق حلال میں پہلے تو گھر بنتا ہی نہیں اگر گھر بنوا بھی لیا تو کتنے دن قیام ہو سکتا ہے؟ گھر بنوا کر اسے اپنے بچوں کو وارثت کے لیے لڑنے کو چھوڑ جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ان کی خواہش تھی کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوں تو ان کی وراثت میں ایک انچ زمین کا ٹکڑا بھی نہ ہو اور وہ کہتے تھے مکان ایسا سادہ اور مختصر سا ہونا چاہیے کہ جو مکین کو نہ لے بیٹھے۔ اونچی اونچی عمارات اور تعمیرات کی اسلام شدید ممانعت کرتا ہے اور ان پر بے دریغ دولت خرچ کرنے کو اسراف قرار دیتا ہے۔ زندگی ایک مختصر سفر ہوتا ہے اس لیے زاد راہ کم سے کم رکھنا چاہیے اور گھر اتنا سادہ ہو کہ اختتام سفر پر اسے چھوڑتے ہوے افسوس نہ ہو۔ وہ ہمیں اس بارے میں مختلف روایات سنایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ بتایا کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک بڑھیا کو روتے ہوے دیکھا تو وجہ دریافت فرمائی تو بڑھیا نے عرض کی کہ "میرا ایک بچہ صرف ڈیڑھ سو سال کی عمر میں انتقال کر گیا ہے۔ اس کی کم عمری میں انتقال پر روتی رہتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ بڑی بی! ایک امت ایسی بھی آنے والی ہے جس کی اوسط عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوں گی لیکن وہ اونچی اونچی عماعتیں اور گھر تعمیر کریں گی۔ تو بڑھیا نے کہا کہ خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میری عمر اس قدر ہوگی تو اتنی زندگی تو میں کسی پیڑ کے نیچے رہ کر گزار دونگی۔

اسی طرح ایک مرتبہ یہ راویت بھی سنائی کہ حضرت نوحؑ کی عمر تقریباً 950 سال تھی۔ وہ جس جھونپڑی میں رہتے تھے۔ وہ اتنی چھوٹی تھی کہ جب آپ سوتے تو آدھا جسم اندر اور آدھا جسم باہر ہوتا۔ جب حضرت عزرائیلؑ روح قبض کرنے آئے تو پوچھا "آپ نے اتنے سال اس جھونپڑی میں گزار دئیے؟ آپ چاہتے تو ایک اچھا گھر بنا سکتے تھے تو میرے پیارو کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت نوحؑ نے کیا جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ اے عزرائیل! میں نے تو تمہارے انتظار میں ہی اتنا عرصہ گزار دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کی عمریں 100 سال سے بھی کم ہوں گی اور وه بڑے بڑے محل بنائیں گے۔ اس پر حضرت نوحؑ نے فرمایا میں اس زمانے ہوتا تو اپنا سر سجدے سےہی نہ اُٹھاتا۔

آج ہمارے معاشرے اور پوری دنیا میں بلند و بالا عمارات بنانے اور ان میں رہنے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اونچی اور بڑی عمارات اور گھر بنانے کو قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گھر بنا کر انسان کتنے دن ان میں قیام کر پاتا ہے؟ اپنی پوری زندگی اور دولت ان کی تعمیر پر خرچ کرکے ان مین رہنے کا خواب پورا نہیں کر پاتا کہ موت کے بے رحم ہاتھ اسے دبوچ لیتے ہیں اور وہ چھ فٹ کے ایک زمین کے ٹکڑے کے تلے خالی ہاتھ دب کر رہ جاتا ہے۔ جسے وہ اپنا عالیشان گھر کہتا ہے وہ گھر اسی زمین کے اوپر کھڑا اس پر اور اسکی نا دانی پر ہنس رہا ہوتا ہے۔ شاید حضرت نوحؑ نے حضرت عزرائیلؑ سے اسی دور کے بارے میں ہی ارشاد فرمایا تھا۔

آج جس کے پاس بھی پیسہ ہے وہ ضروری اور غیر ضروری تعمیرات پر اسے بے دریغ خرچ کر رہا ہے۔ جس شہر میں چلے جائیے، نت نئی ڈیزائنوں کی بلڈنگیں جابجا نظر آئیں گی۔ اس معاملہ میں اس قدر اسراف ہو رہا ہے جو ناقابل بیان ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار جو دینی اور دنیاوی ضرورتوں میں چند روپیہ دیتے ہوئے بھی جھجکتے ہیں اور کئی حیلے بہانے بناتے ہیں وہ اپنی ذاتی تعمیرات میں بلا ضرورت بے حساب رقم خرچ دیتے ہیں۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کتنی بڑی فضول خرچی کے مرتکب ہورہےہیں۔

آج کل تعمیرات میں تنوع بھی ایک مستقل فیشن بن گیا ہے۔ ہر مالدار یہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر اس ڈیزائن کا بنے جیسا آج تک دنیا میں کسی نے نہ بنوایا ہو۔ یہ سب شوخیاں اور شو بازیاں اللہ تعالیٰ کو اور رسول اللہ ﷺ کو بالکل پسند نہیں ہیں۔ پیغمبرؑ نے فرمایا: ہے اللہ تعالیٰ جس کی رقومات کو ضائع کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے پیسہ کو مٹی گارے (تعمیرات)میں خرچ کرا دیتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ ہم بلند وبالا گھر وں پر دولت کا بے دریغ اسراف کرکے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی تو نہیں کر رہے ہیں؟ اللہ اور اسکے رسول نے تواللہ کے گھر یعنی مساجد کو بھی سادہ رکھنے کی بار بار ہدایت فرمائی ہے۔

اپنے مکان بنانے کی خواہش کو ضرور پورا کریں۔ مکان بنانے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ اس پر بے تحاشا اور غیر ضروری اخراجات کا شمار اسراف میں ہوتا ہے۔ گھر صرف مٹی اور گارے کا نام نہیں ہے۔ گھر ایک ایسا گہوارہ ہوتا ہے جسکی آغوش میں ہماری نسلیں پرورش پاتی ہیں۔ گھر کی مثال باغ کی مانند ہوتی ہے۔ جسکی نگہداشت کے لیے مالی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کی مناسب دیکھ بھال اور نگہداشت نہ ہو تو یہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ گھر تو گھر والوں سے ہی سجتا ہے۔ ورنہ ویرانہ شمار کیا جاتا ہے۔

ریاست بہاولپور کا دارلخلافہ ڈیرہ نواب صاحب جہاں کا میں رہنے والا ہوں وہ آج بھی محلات کا شہر کہلاتا ہے۔ یہاں نواب آف بہاولپور کے بے شمار محل اور عمارات ہوا کرتیں تھیں۔ جن کا شمار دنیا کی چند خوبصورت ترین تعمیرات میں ہوتا تھا۔ ریاست میں تعمیرات کا ایک باقاعدہ محکمہ ہوا کرتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے صادق گڑھ پیلس کی آب وتاب دیکھی ہے۔ ان محلات کی سونے چاندی سے مزین چمکتی ہوئی چھتیں اور دیواریں آنکھوں کو خیرہ کر دیتی تھیں۔ شاید ان سے زیادہ خوبصورت، دیدہ زیب، مضبوط اور بلند و بالا عمارات یہاں اب کبھی نہ بنوائی جا سکیں۔ لیکن انقلاب زمانہ اور ورثاء کے باہمی اختلاف نے انہیں کھنڈر بنا دیا ہے۔

میرے دیکھتے ہی دیکھتے بیشتر محل اور عمارات کا تو نام ونشان تک مٹ چکا ہے۔ گھر والے بادشاہ نہ رہے تو ان کی نگہداشت کون کرے؟ لوگ اینٹیں تک اکھاڑ کر لے جا چکے ہیں۔ البتہ عباسی ریاست بہاولپور کا رعب ودبدبہ اب بھی باقی ہے۔ اب ان تعمیرات کی حالت زار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ ان عظیم بادشاہوں اور حکمرانوں کے گھر تھے جن کی شان و شوکت پورے برصغیر پاک وہند میں مثالی تھے۔ جن کی عظمت و جاہ وجلال کا ڈنکا بجتا تھا۔ جو برصغیر کی دوسری بڑی اور دولت مند ریاست شمار ہوتی تھی یہی وہ ریاست بہاولپور تھی جس نے قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قائد اعظم اور مملکت پاکستان پر وار دیا تھا۔

یہی نہیں تاج محل، لال قلعہ، شاہی قلعہ اور ایسی ہی بےشمار عمارتیں پوری دنیا میں آج بھی اپنے بنانے والوں کی یاد میں افسردہ کھڑی ہیں اور آج بھی اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بقا نہیں ہے۔ باقی رہنے والی صرف وہ پاک ذات ہی ہے۔

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan