Aasamion Ki Dehleez Par Khare Khwabon Ke Qafle
آسامیوں کی دہلیز پر کھڑے خوابوں کے قافلے

بےروزگاری اور غربت کے اس طوفان میں پولیس سب انسپکٹر اور ریلوے پولیس کی آسامیوں کے اعلان کے ساتھ ہی لاکھوں بےروزگار نوجوانوں کے ہجوم نے روزگار اور ملازمت کے خواب دیکھنا شروع کردئیے ہیں۔ ابھی درخواستیں اور کاغذات جمع کرانے کا مرحلہ ہے کہ نوجوان بھاگے پھر رہے ہیں ہر جانب ایک ہلچل سی مچ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوان ایک دوسرے کو امیدیں دلا رہے ہیں ہر نوجوان ملازمت کا سنہرا خواب دیکھ رہا ہے بہاولپور میں یونیورسٹی چوک پر فوٹو اسٹیٹ کی شاپس پران آسامیوں کے لیے درخواست فارم اور معلومات لینے والوں کا یہ ہجوم ہمارے ملک میں جاری موجود ہ بے روزگاری اور غربت کی کی نشاندہی کرتا ہے۔
انسانوں کے اس سمندر میں شامل ہر چہرے پر ایک خواب، ہر آنکھ میں ایک امید، ہر دل میں ایک آس اور تمنا جنم لے چکی ہے۔ وہ تصور ہی تصور میں خود روزگار کے ساتھ ساتھ پولیس کی وردی پہننے کی عزت کا خواہشمند ہے۔ ریلوے پولیس یا پولیس سب انسپکٹر کی چند سو نشستوں کے لیے لاکھوں نوجوان یوں اکھٹے ہو جاتے ہیں جیسے پیاسے صحرا میں پانی کے ایک چھوٹے سے چشمے یا ٹوبے کو دیکھ لیں۔ یہ منظر محض نوکری کی تلاش کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی بےروزگاری اور بے یقینی کا نوحہ بھی ہے۔
ڈگریوں کے انبار اٹھائے نوجوان جب چھوٹی بڑی ہر آسامی کے پیچھے دوڑ تے دکھائی دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے علم کا چراغ تو جلایا گیا ہے مگر اس چراغ کو جلانے کے لیے ہوا کا کوئی انتظام نہیں کیا جاسکا ہے۔ تعلیم کی کشتی سمندر میں تو اتری ہے لیکن اس کے لیے ساحل پر اترنے کا کوئی کنارہ موجود نہیں ہے۔ ہمارے نوجوان خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے خواب تعبیر مانگتے ہیں۔
گذشتہ روز چند آسامیوں کے لیے واک ان انٹرویو پر بلایا گیا مگر لوگوں کے ہجوم کو کنٹرول نہ کرنے کی باعث اس انٹرویو کو ملتوی کرنا پڑا۔ مجھے ایک فوٹو اسٹیٹ مشین والے نے بتایا کہ اس روز فوٹو اسٹیٹ مشینوں پر نوجوانوں نے قطاروں میں کھڑے ہو کر بڑے عزم سے اپنی درخواستیں مکمل کرائیں مگر پھر بھی انٹرویو تو دور کی بات ہے وہ اپنی درخواست جمع کرانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے یہ کاغذات اس متعلقہ دفتر کے باہر ردی کاغذوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔ چند سو نوکریاں اور لاکھوں بکھرے خواب شاید آج یہی ہمارے نوجوان کی کہانی ہے۔
مجھ جیسے لوگ جنہوں نے بےروزگاری کی لذت چکھ رکھی ہے اس تکلیف سے بخوبی واقف ہیں جو نوکری نہ ملنے پر ہوتی ہے اور جس بے یقینی اور ناامیدی کی ملی جلی کیفیت اور کرب و اذیت سے آج کا نوجوان گزر رہا ہے شاید حصول روزگار کے لیے اس کھٹن مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ جہاں ایک سے ایک ڈگری لیے ملازمت کے متلاشی کا میرٹ بنانا آسان نہیں ہے۔ ایک نوجوان کے مطابق ملازمت ملے یا نہ ملے کم از کم درخواست دینے سے آسامیوں کی سلیکشن تک کا وقت اس خوش فہمی اور امید میں بڑا اچھا گزرتا ہے کہ اس کی ملازمت اور سلیکشن ضرور ہوگی۔ سلیکشن میں ناکامی سے قبل ہی کوئی نیا ملازمت کا اشتہار سامنے آجاتا ہے اور ہم نئے سرے درخواست دے کر کچھ عرصہ کے لیے سے امید کا نیا چراغ روشن کر لیتے ہیں۔
سرکاری نوکری ہماری معاشرے میں صرف تنخواہ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ عزت، تحفظ اور اپنے کل کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ پنشن تحفظ اور مستقل آمدنی کی آس وہ لنگر ہے جس سے نوجوان اپنے خوابوں کی کشتیاں باندھ دیتے ہیں۔ وردی کی شان، اختیار کی جاذبیت اور استحکام کی چاہ۔۔ یہ سب اس دوڑ کو اور بھی تیز تر کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ بےہنگم ہجوم چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ چند سو نشستیں لاکھوں خوابوں اور تمناوں کو تھامنے کے لیے ناکافی ہیں۔ شاید کامیاب ہونے چند خوش نصیب تو اپنی منزل پا لیتے ہیں مگر باقی ہزاروں اپنی ٹوٹی ہوئی آس کے ساتھ گھروں کو لوٹتے ہیں۔
یہ نامرادی و ناکامی صرف ایک فرد کے دل میں زخم نہیں ڈالتی بلکہ پورے خاندان اور معاشرے میں مایوسی کی آنچ مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ آنچ کبھی ذہنی دباؤ کی صورت بھڑکتی ہے، کبھی جرائم کے دھوئیں میں لپٹ جاتی ہے اور کبھی غیر قانونی ہجرت کے راستوں پر زندگیاں نگل لیتی ہیں۔ حکومت اور ارباب اختیار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف بھرتی کے اشتہاروں سے نسلیں مطمین نہیں ہوتیں اور نہ ہی انٹرویو اور امتحان سے ان کی تسلی و تشفی ہوتی ہے۔ صنعت کا پہیہ، زراعت کی زمین، ٹیکنالوجی کی دنیا اور کاروبار کی راہیں کھولنا ہوں گی تاکہ ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکے۔ اگر ہم نے اپنی نئی اور نوجوان نسل کے خوابوں کو حقیقت کا لباس نہ پہنایا تو یہ قافلہ امید کا نہیں بلکہ شکوئے اور ناامیدی کا قافلہ بن جاے گا۔
یہ وقت ہے کہ ہم نوجوان کو صرف چند سو آسامیوں کی مسابقتی بھٹی میں نہ جھونکیں بلکہ ان کے خوابوں کے لیے روزگار کے ایسے وسیع آسمان تلاش کریں جہاں ہر پرندہ اپنی پرواز اور اپنی صلاحیت کو آزماسکے اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکے۔ ورنہ یہ نوجوان ایک ہجوم کی صورت محض ایک شور کی بازگشت بن کر رہ جاے گا اور لاکھوں دل اپنی دھڑکنوں کے ساتھ یہ سوال دھراتے رہیں گے "کیا ہماری تعلیم کا صلہ صرف انتظار اور ناکامی ہے۔ جہاں تعلیم کا پھل صرف بے روزگاری ہو وہاں امیدیں بھی قطاروں میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ روشنی کے متلاشی یہ قافلے اگر اندھیروں میں بھٹک گئے تو وقت کا مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ یہ وہ نسل تھی جس نے خواب تو بڑے بڑے دیکھے مگر ان خوابوں کے لیے چراغ جلانے والا کوئی تھا" ان کے پاس تعلیم اور ڈگریاں تو بڑی بڑی موجود تھیں مگر روزگار اور مواقع نہ تھے۔ یہ ہجوم صرف نوکری کا نہیں کل کی ضمانت اور عزت نفس کا طلب گار تھا۔ جب خوابوں کے قافلے آسامیوں کی دہلیز پر رک جائیں تو مایوسی کے اندھیرے سماج کو نگل لیتے ہیں۔
ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان خواب دیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے خوش نما خواب ہی نہیں دیکھتے بلکہ ان خوابوں کی تعبیر بھی مانگتے ہیں۔ حکومت اور ارباب اختیار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف بھرتی کے اشتہاروں سے نسلیں مطمین نہیں ہوتیں بلکہ ان کے لیے عملاََ کچھ کرنا ہوگا۔ کروڑں لوگوں کے لیے چند سو نوکریاں بےروزگاری کا حل نہیں سمجھا جاسکتا۔ دوسری جانب بڑھتی ہوئی آبادی اور بےروزگاری کے باوجود میری نوجوانوں سے بھی درخواست ہے کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ رزق دینے والی ذات صرف خدا کی ذات ہے۔
رزق انسان کو خود تلاش کرتا ہے اور "دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام" مایوسی اور ناامیدی چھوڑ کر پورے خلوص اور لگن سے تیاری اور کوشش کرتے رہیں اور فیصلہ رزق دینے والی ذات پر چھوڑ دیں وہی اسباب پیدا کرنے والا ہے۔ اس دنیا میں آپ کارزق کہاں سے اور کیسے ملنا ہے؟ یہ ہمارا خدا ہی بہتر جانتا ہے جو سب کا رازق ہے۔ ناکامیاں ہمیشہ کام یابیوں کا زینہ ہوتی ہیں۔ خدارا! ڈگریوں کی بجاے جدید فنی مہارتوں پر توجہ دیں۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ جہاں آپ کو قطار میں کھڑا نہیں ہونا ہے بلکہ لوگ آپ کو قطاروں میں کھڑے ہوکر ڈھونڈھیں گے۔

