Social Media Ka Karnama
سوشل میڈیا کا کارنامہ
پاکپتن کے علاقہ گلشن فرید کالونی میں ایک بدبخت بیٹے نے جائیداد کی خاطر اپنے بوڑھے والد کولاتوں، مکوں اور جوتوں سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تو کسی نے اس تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردی۔ سوشل میڈیا صارفین نے ویڈیو میں بوڑھے باپ پر تشدد دیکھ کرشدید الفاظ میں مذمت کی اور بدبخت بیٹے کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ آخرکار ویڈیو متعلقہ پولیس تک پہنچ گئی اور پاکپتن تھانہ فرید نگر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بدبخت بیٹے اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرلیا۔
جائیداد کی خاطر بوڑھے والدین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے قبل بھی بدبخت اولاد کے ہاتھوں بوڑھے ماں باپ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں بلکہ پاکپتن میں ہی مارچ کے مہینہ میں ایک بدبخت بیٹے نے جائیداد کے تنازعہ کی خاطر بوڑھی ماں، بھابھی اور بھائیوں سمیت گھر کے سات افراد کو قتل کردیا تھا۔ اسلامی معاشرے میں والدین اپنی زندگی اولاد کی خاطر وقف کردیتے ہیں، خود بھوکے رہ کر اپنی اولاد کا پیٹ پالتے ہیں اور پھرجب وہی اولاد ناخلف ہوجاتی ہے، والدین کو برا بھلا کہے یا ان پر تشدد کرتی ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ وہ بے اولاد ہی رہتے۔
معاشرے کا المیہ ہے کہ اکثر بدبخت اولاد اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کو ترجیح دینے کی بجائے اسی تاڑ میں رہتے ہیں کہ کب ان کو جائیداد کا حصہ ملے گا حالانکہ جس جائیداد کو وہ پانا چاہتے ہیں ایک دن وہی جائیداد ان کے لئے بھی اسی طرح کی بدسلوکی کا سبب بن جاتی ہے۔ بدبخت اولاد بوڑھے والدین پر تشدد کرتے وقت یہ بات بھول جاتی ہے کہ ایک دن اس نے بھی بڑھاپے میں قدم رکھنا ہے تب اس کی اولاد یہی سلوک کرے گی تو اس پر کیا بیتے گی؟
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 6 میں سے ایک ساٹھ سال کی عمر کے بزرگ کو کسی نہ کسی طرح بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ وہ بدسلوکی اہل خانہ کی طرف سے ہو یا معاشرے کی طرف سے۔ المیہ یہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد اس بدسلوکی پر احتجاج بھی نہیں کرپاتے۔ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق کل آبادی کا چار اعشاریہ دو فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ 2050 تک یہ تناسب 15 اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ جاہے گا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے 66 برس ہے اورپاکستانی خواتین کی اوسط عمر تقریباً 67 سال جبکہ مردوں کی اوسط عمر لگ بھگ 65 برس کے برابر ہے۔
اسلام میں بزرگوں کو اہمیت اور خاص مقام دیا گیا ہے۔ گھر میں بزرگوں کی موجودگی برکت کا باعث ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا "ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیروبرکت ہے، پس وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی بے ادبی کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے"۔ اسی طرح نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا"بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کروگے تو تم جنت میں میری رفاقت پالوگے"۔ ماں کی خدمت گذاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو خاص عنایت اور مقام عطا فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا "جب لوگ جنت میں جارہے ہونگے تو جنت کے دروزے کے قریب اویسؓ کواللہ کے حکم پر روک لیا جائے گا، اویسؓ گھبرا جائیں گے، کہیں گے یااللہ، مجھے کیوں روک لیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، پیچھے دیکھو، اویسؓ پیچھے دیکھیں گے تو کڑوروں، اربوں کی تعداد میں جہنمی کھڑے ہونگے، اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اویسؓ تیری ایک نیکی (ماں کی خدمت)نے مجھے بہت خوش کیا ہے، تو انگلی کا اشارہ کر جدھر جدھر تیری انگلی پھرتی جائے گی میں تیرے طفیل ان کو جنت میں داخل کردوں گا"۔ ماں کی خدمت کرنے والے عاشقِ رسولﷺ حضرت اویس قرنیؒ کو خیرالتابعین کا لقب حضور اکرمﷺکی زبان مبارک سے عطا ہواہے۔
اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کو جھڑکنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو سخت نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تمہارے سامنے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ نرم دلی وعجزو انکساری سے پیش آنا"۔
اسلامی معاشرے میں آج بھی بزرگوں کا ادب و احترام پایا جاتا ہے جسے مزید فروغ دینے کے لئے نوجوان نسل کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اگر آج ہم بزرگوں کا احترام کریں گے تو کل ہم بھی اسی عزت و احترام کے حقدار بن سکیں گے۔