Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Jamshaid Nazar
  4. Barf Ka Aadmi

Barf Ka Aadmi

برف کا آدمی

میرے والد مرحوم جناب غلام محی الدین نظر صاحب سن 1970 سے 1992ء اپنی وفات تک روزنامہ مشرق سے وابستہ رہ کر بچوں اور بڑوں کے لئے صحافتی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے قومی روزنامہ میں پہلی مرتبہ بچوں کے لئے خصوصی ایڈیشن "بچوں کا مشرق"اورتصویری خاکوں کے ساتھ روزانہ شائع ہونے والی سلسلہ وار کہانی کا آغاز کیا۔ روزانہ شائع ہونے والی ان کی لکھی سلسلہ وار کہانی کو اتنی مقبولیت ملی کہ بچے تو بچے، بڑے قارئین بھی اسے شوق سے پڑھتے تھے جس کی وجہ سے آئے روز دفتر میں پسندیدگی کے خطوط کے ڈھیر لگے رہتے۔

اخبار کے صفحہ نمبر2 پرروزانہ شائع ہونے والی سلسلہ وار کہانی کے لئے تصویری خاکے معروف کارٹونسٹ میرؔ صاحب تیار کرتے تھے۔ والد مرحوم دفتر سے گھر آکر رات گئے تک لکھتے رہتے تھے، جب وہ اپنی کوئی تحریر مکمل کرلیتے تو پھر وہ مسودہ اپنی بیگم یعنی میری والدہ صاحبہ کو دے دیتے۔ والدہ صاحبہ ان کی تحریر پڑھ کر سناتیں اورجہاں ضرورت ہوتی جملہ کو مزید بہتر کرنے میں والد صاحب کی مدد کردیتیں جبکہ میں اور میرے چھوٹے بھائی پاس بیٹھ کران کی لکھی کہانی بڑے شوق سے سنتے ہوئے پس منظر میں کھو جایاکرتے تھے۔ اس طرح ایک طرف ہمیں مزیدار کہانی سننے کو ملتی تھی تو دوسری جانب ہماری ذہنی ومعاشرتی تربیت بھی ہورہی ہوتی تھی۔

انہی دنوں والد صاحب نے ایک سلسلہ وار کہانی "برف کا آدمی" شروع کی۔ کہانی کا ہیرو برف کا آدمی ہوتا ہے جو برف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی لئے وہ برفانی پہاڑوں پر ہی رہتا ہے۔ کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی اپنے نومولود بچہ کے ساتھ برف کے پہاڑوں پر گھومنے آتے ہیں تو برفانی طوفان کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں لیکن ان کا نومولود بچہ معجزانہ طور پر بچ جاتا ہے۔ قدرت اس بچہ کی حفاظت کرتی ہے اور وہ برفانی وادیوں میں خطرناک جانوروں کے درمیان پرورش پانے لگتا ہے اور ایک دن بڑا ہوکر وہ برف کاآدمی بن جاتا ہے۔

برف پوش پہاڑوں پر آنے والے سیاح جب بھی کسی برفانی طوفان یا مصیبت میں پھنس جاتے تو برف کا آدمی ان کی مدد کرکے سیاحوں کی جان بچادیتا۔ سلسلہ وار کہانی میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلووں کو بھی اجاگر کیاجاتا تاکہ مثبت معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔ کہانی پڑھتے سنتے اکثر بچوں کے ذہن میں ہیرو کاکردار تخلیق ہوجاتا ہے جوانھیں ہمیشہ یاد رہتا ہے جیسے میرے ذہن میں برف کے آدمی کردار ابھی تک نقش ہے کہ کیسے وہ برف میں پھنسے سیاحوں کی مدد کرتا ہے۔ جب مری میں حالیہ سانحہ پیش آیا تو مجھے میرے بچپن کا ہیرو کرداربرف کا آدمی بہت یاد آیا۔ میرے دل میں خیالات آنے لگے کہ شائدکہانی کے کردار کی طرح کوئی سچ میں برف کا آدمی ہوتا اور اس برفانی طوفان میں گھرے ہوئے سیاحوں کی زندگیوں کو بچالیتا، کاش کہ آج کے دور میں سچ میں برف کا آدمی ہوتا۔

مری کے دلخراش واقعہ کے بعد جب میڈیا رپورٹس آنا شروع ہوئیں کہ کس طرح ہوٹلز نے مصیبت زدہ سیاحوں کو لوٹنا شروع کیا، کس طرح نامعلوم افراد نے راستوں میں برف کی رکاوٹیں پیداکردیں، کس طرح لالچیوں نے ٹائروں کے لئے سونے کے بھاو، لوہے کی زنجیریں بیچیں، کس طرح انتظامیہ کے اہلکاروں نے معصوم بچوں، بزرگوں اورخواتین کی چیخ وپکارسنی ان سنی کردی، کس طرح خواتین کے زیورات اتروائے گئے۔ میں تواپنے خیالوں میں ایک نیک دل برف کے آدمی کا سوچ رہا تھا لیکن یہاں تو بے شمارایسے برف کے آدمی نکلے جن کے دل بھی برف کے تھے جو انسانیت کو بچانے کی بجائے انسانیت کے ہی قاتل نکلے۔

شائد یہ موجودہ دور کے برف کے آدمی ہیں جو جان بچانے کی بجائے یہ سوچتے ہیں کہ کس طرح جان لی جائے۔ اللہ کوپیارے ہونیوالوں کی دردناک ویڈیوزجو سوشل میڈیا پر پر اپلوڈ کی گئی تھیں اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا لیکن سوچیے ان ویڈیوز کے اصل ذمہ دار کتنے سنگدل، کتنے بے رحم اور کتنے سفاک ہیں جنھوں نے محض چند روپوں کی خاطر انسانی زندگی کے روشن چراغ بجھا دیئے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے شفاف انکوائری کے بعد 15 افسران کو عہدوں سے ہٹاتو دیا ہے لیکن ابھی بھی بہت سے بے حس انسانوں کے دلوں پر جمی برف کی تہہ کو اتارنے کی ضرورت ہے۔ مری کو سیاحوں کے لئے کھولنے سے قبل ضروری ہے کہ وہاں پہلے عالمی معیار کے مطابق انتظامات مکمل کئے جائیں تاکہ پھر برفانی طوفان میں کسی آنکھ کومدد کے لئے برف کے آدمی کی تلاش نہ کرنا پڑے۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad