Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Ye Ghazi Ye Tere Purasrar Bande

Ye Ghazi Ye Tere Purasrar Bande

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

وطن عزیز پاکستان ستائیس رمضان المبارک 1947ء میں معرض وجود میں آیا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کلمہء طیبہ کے نام پر یہ وطن حاصل کیا۔ اول روز سے ہی یہ پاک وطن، دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ بھارت نے نہ صرف اس تقسیم کو قبول نہیں کیا بلکہ پاکستان کو ضروری اثاثوں اور کئی ریاستوں جن کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا، سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہے۔

پاکستان کو ایسے دشمن کا سامنا رہا ہے جو دن کی روشنی میں بھی اس کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے اور رات کے اندھیروں میں بھی سازشیں کرتا ہے۔ بھارت جس ملک کے نام کا مطلب ہی "خون بہانا" ہے، پورے خطے کے امن کے لئے خطرات پیدا کرتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اکتوبر 1947ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: "اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق البشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ ذاتی ترقی، عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے تعمیری کوشش کا، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی سے فرض شناسی کا! "۔

تاریخ گواہ ہے پاک افواج نے قائد کے فرمان کو سینے سے لگا کے رکھا ہے۔ پاکستان پر اوپر تلے چار جنگیں مسلط کی گئیں، 1948ء کی جنگ کشمیر، 1965ء کا رات کے اندھیرے میں حملہ، 1971ء کی جنگ اور پھر کارگل کا معرکہ۔ 1965ء کی جنگ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے جس کا تذکرہ آج بھی لہو گرما دیتا ہے۔ چونڈہ کے مقام پر، دوسری جنگ عظیم (بیٹل آف کرسک) کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔

بھارت نے 600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ، باجرہ گڑھی اور نحتال کے مقام پر حملہ کیا، اس سے پہلے وہ لاہور پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان اپنی کمزور طاقت اور اسلحہ کی کمی کے سبب اپنا دفاع نہیں کر پائے گا اور تر نوالہ بن جائے گا لیکن پاک افواج نے دشمن کے عزائم کو اپنی بروقت جنگی حکمت عملی، دلیری اور بے مثال جاں بازی کے سبب خاک میں ملادیا۔

میجر جنرل یعقوب خان جو جنگ عظیم دوم میں ٹینکوں کی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے انھیں کور1 میں آرمر ایڈوائزر لگایا گیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے کم نفری اور ہتھیاروں کی قلت کے باوجود اپنی جان پر کھیل کے نہ صرف دشمن کو روکا بلکہ رجمنٹ 25 کیولری جس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار تھے، اپنی بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ بھارتی فوج نے بارہ سے اٹھارہ ستمبر کے درمیان چونڈہ کے اردگرد لگاتار حملے کئے تاکہ پاک فوج کو اطراف میں مصروف رکھا جائے مگر پاک فوج نے چونڈہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک دفاعی مورچے کے طور پر استعمال کیا۔

چونڈہ مواصلات کا مرکز تھا جس سے کئی راستے نکلتے تھے۔ دشمن چونڈہ کے بعد آگے بڑھ کر پسرور اور گوجرانوالہ پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا۔ ہندوستانی 6 ماؤنٹین ڈویژن جو امریکی سازو سامان سے لیس تھا، اس نے 35 بریگیڈ، 58 بریگیڈ اور 48 بریگیڈ کے ساتھ حملے کا پلان بنایا۔ پاکستانی 24 بریگیڈ کے ساتھ کمانڈر برگیڈیئر عبدالعلی ملک کی کمانڈ میں چونڈہ کا دفاع کر رہا تھا، اس نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ (بحوالہ ہلال میگزین ستمبر 2020ء)۔

جنرل ٹکا خان کی قیادت میں پاک فوج، قوم کے آگے ناقابل تسخیر دفاعی حصار بن گئی۔ لاہور میں میجر عزیز بھٹی نے اپنی جان قربان کرکے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، سیالکوٹ سیکٹر میں ہمارے بہادر جوانوں نے دشمن کی چال جو ہماری لائف لائن جی ٹی روڈ کو کاٹنے پر مبنی تھی، اس چال کو ناکام کردیا۔ امریکی ریڈیو سروس کے صحافی "رے میلان" نے اس جنگ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا کہ "میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بھارت فتح کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن زمین پر اس دعوے کے حق میں کوئی گواہی نہیں ملتی۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ صرف تباہ شدہ بھارتی ٹینک ہیں اور بڑی تعداد میں ان کی نقل و حمل کی گاڑیاں ہیں جو اگلے مورچوں کی طرف دوڑتی پھرتی ہیں (زخمیوں کو لے جانے اور رسد پہنچانے کے لئے)۔ میں نے اپنی دو دہائی کی صحافیانہ زندگی میں کبھی اتنے پر اعتماد سپاہی نہیں دیکھے جتنے پاکستانی سپاہی ہیں جو بھارتیوں سے برسر پیکار ہیں"۔ (بحوالہ ریاض احمد چودھری کا کالم، چونڈہ، بھارتی ٹینکوں کا قبرستان: روزنامہ پاکستان)۔

بھارت نے چونڈہ پر پہلا حملہ کیا اور گاؤں"بتر ڈوگراں دی" تک پیش قدمی کرتے ہوئے اندر آگیا، اس کی بکتر بند فوج، وزیر والی الہڑ ریلوے اسٹیشن پر قابض ہوگئی۔ یہاں بھارت نے جنگ عظیم دوم کے سورما جنرل کورلا کو چونڈہ پر قبضہ کرنے پر مامور کیا تھا جس نے دو اطراف سے بھارتی فوج کے حملے کا پلان تیار کیا۔ بھارت کے 35 انفنٹری بریگیڈ نے غربی جہت سے حملہ آور ہونا تھا اور 58 انفنٹری بریگیڈ نے شمال غربی جہت سے نقب لگانا تھی۔ ان علاقوں کا دفاع پاکستان کی تین ایف ایف رجمنٹ اور 14 بلوچ رجمنٹ کر رہی تھیں۔ بھارتی فوجیوں کی تعداد پندرہ ہزار جبکہ پاکستانی فوجیوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ اسلحہ اور تعداد میں کوئی مناسبت نہ ہونے کے باوجود پاک فوج کے جوان بے جگری سے لڑے، تین سو شہادتوں سے زمین کو سرخرو کردیا اور دشمن کے پے درپے حملوں کو ناکام بنادیا۔

جو حق کی خاطر لڑتے ہیں، مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر
جب وقتِ شہادت آتا ہے، دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے دست بدستی لڑائی (CQB) میں بھارتی مرہٹے بہت سی لاشیں چھوڑ کے بھاگ نکلے اور اس کے 46 فوجی قیدی بنالئے گئے۔ اس جنگ نے بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست کردئیے بلکہ وہ پاک فوج کی پیش قدمی کا خوف محسوس کرنے لگے۔ (بحوالہ میجر جنرل شفیق اعوان کا کالم، فیصلہ کن معرکہ چونڈہ ستمبر 2018)۔

دشمن نے چونڈہ کی طرف سے حملہ اس لئے بھی کیا تھا کہ یہاں کوئی جنگل، پہاڑ، دریا نہ ہونے کے سبب کوئی زمینی رکاوٹ یا آڑ موجود نہ تھی اور ٹینکوں کی پیش قدمی کے لئے زمین صاف تھی۔ سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب، بھارتی توپیں پاکستان کی شہری آبادی پر گولے داغنے لگیں جس سے کئی معصوم شہری شہید ہوگئے۔ اس موقع پر پاک ائر فورس کے شاہین دشمن کی یلغار کو روکنے کے لئے آئے اور کئی گھنٹوں تک دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ مساجد سے جنگ کے بارے میں اعلانات ہونے لگے، بھارتی ٹینک کالے ہاتھیوں کی مانند پاکستان میں قطار در قطار داخل ہورہے تھے اور دھوکہ دینے کے لئے ٹینکوں پر پاکستانی پرچم لگا رکھے تھے۔

یہ سترہ ستمبر کی صبح تھی، دوپہر تک بھارتی ٹینک کافی علاقہ عبور کر چکے تھے۔ پاک فوج نے دشمن کے دھوکے کو بھانپ لیا اور "لاسٹ مین، لاسٹ بلٹ" کے ماٹو کے ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ خاک اور خون کی دھول میں بہت سے جوان اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ افواج پاکستان کے ساتھ چونڈہ کے جوان بھی مادر وطن کے دفاع کے لئے سرگرم عمل تھے۔ عینی شاہدین نے اپنی آنکھوں سے ناقابل یقین منظر دیکھا کہ پاک جوان بھارتی ٹینکوں کے اوپر چڑھ کر ٹینکوں کے اندر بم پھینک رہے تھے۔

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا، سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی!

آناََ فاناََ بھارت کے کالے ہاتھیوں یعنی ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے، یہ انسانی جسموں اور ٹینکوں کے مابین ایسی لڑائی تھی جس نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا۔ چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔ بھارت کے تین سو فوجی ہلاک ہوئے جن کی لاشوں کو بعد میں گدھ اور کوے نوچتے رہے۔ پھر پاک فوج نے اجتماعی گڑھا کھود کے ان کو دفن کردیا۔ جنگ بندی کے بعد یہ لاشیں دشمن کو واپس کی گئیں۔ (بحوالہ تحقیق: وثیق شیخ۔ چونڈہ کی لڑائی، کالم ایکسپریس نیوز 6 ستمبر 2021ء)۔

پاک افواج کی بہترین حکمت عملی، فقید المثال دلیری اور بہترین کارکردگی نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دئیے، بھارتی افواج کو اسلحہ اور ہتھیاروں کی کثرت اور نفری کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پاک فوج اس پوزیشن میں آگئی تھی کہ وہ پیش قدمی کرکے بھارتی زمینوں پر قبضہ کرسکتی تھی مگر اقوام متحدہ کی مداخلت کے سبب بائیس ستمبر کو جنگ بندی کرنا پڑی۔ ایک اہم عنصر یہ بھی تھا کہ پاکستانی ہتھیار امریکی ساختہ تھے جنھیں آپ ڈیٹ کرنے پر امریکہ نے پابندی لگادی تھی۔ ان کی کمک کے بغیر جنگ کو طول نہیں دیا جاسکتا تھا۔

1965ء کی جنگ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی قوم اور پاک فوج یک جان دو قالب تھے۔ یہ یکجہتی دشمن کی آنکھ کا شہتیر بن گئی اور اس نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے عوام کو فوج سے بد ظن کرنا شروع کردیا تاکہ قوم کو اپنے محافظوں اور اپنے دفاعی حصار سے کاٹ کر لقمہء تر بنایا جاسکے۔ فیک نیوز، میڈیا پروپیگنڈہ اس دور میں یہود و ہنود کا ہمارے خلاف اہم ترین ہتھیار ہے جس کے حملوں سے قوم کو باخبر رہنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں موجود غداروں کو پہچاننا ہوگا اور دفاع وطن کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہوگا۔ اب پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور ہے جس سے سارے عالم اسلام کی امیدیں وابستہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک وطن کو اسلام کا قلعہ بنادے، آمین۔

ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک
پھول بھی پھول نہ تھا، خون میں تر ہونے تک

وہی حق دار ہے سورج کی کرن کا جس نے
رات کی زلف سنواری ہے سحر ہونے تک!

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad