Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Soomro
  4. Taleemi Idaron Main Art Bator Subject Parhane Ki Zaroorat

Taleemi Idaron Main Art Bator Subject Parhane Ki Zaroorat

تعلیمی اداروں میں آرٹ بطور سبجیکٹ پڑھانے کی ضرورت

تعلیمی اداروں میں آرٹ کی ضرورت، سائنس سے آگے، احساس کی دنیا تک۔۔ دنیا کی ترقی کا پہیہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے زور پر تیزی سے گھوم رہا ہے۔ لیکن جب رفتار بڑھتی ہے تو اکثر سمت کھو جاتی ہے۔ اس ہی سوال نے امریکی مفکر اور مصور اور تعلیم دان جان میڈا (John Maeda) کو سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا انسان صرف سائنس اور مشینوں سے مکمل ہو سکتا ہے یا پھر اس کے اندر کوئی ایسا عنصر بھی ہے جو علم کو روشنی اور احساس میں بدل دیتا ہے، اس سوچ کے تحت جان میڈا نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی (STEM) میں ایک نیا حرف "A" یعنی آرٹ (فن) شامل کیا۔ یوں ایک نیا تصور وجود میں آیا STEAM) Science، Technology، Engineering، Art، Mathematics)۔

سائنس سوال کرتی ہے، یہ کیسے ہوتا ہے تو آرٹ پوچھتا ہے، یہ کیوں ہوتا ہے یہ دونوں سوال مل کر انسان کو سوچنے، سمجنے اور محسوس کرنے کی مکمل قوت دیتے ہیں۔ جہاں سائنس حقیقتوں کو کھولتی ہے، وہاں آرٹ ان حقیقتوں کو معنی دیتا ہے۔

تعلیم اگر صرف حساب کوڈ اور فارمولے تک محدود ہو جائے تو انسان مشین بن جاتا ہے۔ مگر جب آرٹ (فن) شامل ہو، تو وہی تعلیم انسان کے دل ذوق اور سوچ کو جِلا بخشتی ہے۔

مشاہدے اور حقائق کے بیاد پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بہت سےنجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں آرٹ اور تخلیقی مضامین کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، نصاب میں اس مضمون کو "اضافی" سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کو تخلیقی ذہن کے بجائے مشینوں کی طرح رٹا لگانے والی مخلوق میں بدلنا شروع کر دیا ہے۔

یہ رویہ بچوں کی ذہنی و جذباتی نشوونما پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ تخلیقی سرگرمیاں بچوں کے اندر اعتماد، مشاہدہ، احساس اور خود اظہار کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ اگر گہرائی سے سوچا اور تعلیمی نفسیات کو پرکھا جائے تو اسکولوں میں بڑھتے ہوئے ڈسپلن کے مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہ ہی پائی جاتی ہے۔

جب بچے اپنی تخلیقی توانائی کا مثبت استعمال نہیں کر پاتے تو وہ توانائی بے چینی، عدم توجہ، ضد اور چڑچڑے پن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط بہتر بنانا ہے تو آرٹ کو بطور سبجیکٹ نصاب میں شامل کیا جانا لازمی ہوگا کیونکہ ماہرینِ نفسیات کے مطابق آرٹ بچے کے ذہن میں توازن پیدا کرتا ہے یہ نہ صرف اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتا ہے بلکہ احساسِ صبر توجہ، تفاوت، برداشت اور ٹیم ورک کو بھی فروغ دیتا ہے۔ جب ایک بچہ رنگوں سے اپنا احساس بیان کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنے اندر کے خوف، خوشی اور خیال کو مثبت شکل دیتا ہے۔

تعلیم صرف امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے کیونکہ جب آرٹ تعلیم کا حصہ بنتا ہے، تب ہی انسانیت مکمل ہوتی ہے اور تب ہی علم روشنی بنتا ہے یہ ہی اوصاف ایک متوازن اور پرامن تعلیمی ماحول کی بنیاد بنتے ہیں۔ جس سے بچوں کی کارکردگی اور نتائج بہتر سے بہتر ہوتے ہیں اور نظم و ضبط میں رہتے ہوئے اخلاقی قدروں کی اعلی مثال بنتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اب تعلیمی نصاب مرتب دینے والے ماہرین اور تعلیمی اداروں کے سربراہان آرٹ کو اپنی ضرورت کے مطابق صرف ایک سرگرمی سمجھنے کے بجائےاسے تعلیم کا لازمی اور بنیادی جزو تسلیم کریں اور نصاب سازی میں سنجیدگی سے سوچیں کہ آرٹ محض تفریح نہیں بلکہ تربیت بھی ہے یہ بچوں کے ذہن کو سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور دنیا کو بہتر بنانے کے قابل بناتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق آرٹ بچے کے ذہن میں توازن پیدا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتا ہے بلکہ احساسِ تفاوت، برداشت اور ٹیم ورک کو بھی فروغ دیتا ہے۔ جب ایک بچہ رنگوں سے اپنا احساس بیان کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنے اندر کے خوف، خوشی اور خیال کو مثبت شکل دیتا ہے۔

تعلیم صرف امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک سماجی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ایسے ادارے درکار ہیں جو سائنس کے ساتھ احساس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ تخلیق کو پروان چڑھائیں۔ کیونکہ جب آرٹ تعلیم کا حصہ بنتا ہے، تب ہی انسانیت مکمل ہوتی ہے اور تبھی علم روشنی بنتا ہے، محض معلومات نہیں۔

اس لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ آرٹ کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس کی اہمیت کو سمجھ کر سائنس، ریاضی یا کسی دوسرے مضمون کی طرح اہمیت دے جائے کیونکہ آرٹ صرف رنگ اور برش کا کھیل نہیں یہ سوچنے سمجنے اور انسان بننے کی تربیت کا دوسرا نام بھی ہے۔ ٹھیک اس طرح ٹیکنالوجی کا حسن بھی آرٹ سے ہی مکمل ہوتا ہے ایجاد، خواہ وہ سافٹ ویئر ہو یا مشین، تب ھی دیرپا اور مؤثر بن سکتی ہے جب اس میں خوبصورتی اور انسانی احساس جذبات شامل ہو۔

ایک مصور کا ذہن سائنسدان کی طرح سوال کرتا ہے مگر وہ سوال میں رنگ، احساس اور تخیل بھی شامل کر دیتا ہے یہ ہی وہ مقام ہے جہاں تھنکنگ ڈیزائن جنم لیتی ہے جہاں آرٹ اور سائنس مل کر زندگی کو بہتر اور بامقصد بناتے ہیں۔ آج کی دنیا میں مصنوعی ذہانت اور روبوٹس تیزی سے انسان کا متبادل بنتے جا رہے ہیں مگر مصنوعی ذہانت ہو یا دیگر سائنسی علم اگر آرٹ سے خالی ہو تو وہ جسم تو بنا سکتا ہے، روح نہیں۔

اس صورتحال میں خوف زدہ ہونے کے بجائے آرٹ کے کردار کو پہلے سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ اور موثر کرنے ضرورت ہے کیونکہ آرٹ احساس اور ہمدردی سکھاتا ہے جو مشینوں کے پاس نہیں ہوتا یہ ہی احساس انسانیت کی بقا کی ضمانت بھی ہے جو آرٹ سے ہی ممکن ہے۔

جان میڈا کا پیغام آج بھی تعلیم کے ہر میدان میں گونج رہا ہے (اسٹیم) کا تصور دراصل تعلیم کو روح واپس دینے کی کوشش ہے جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی کے ساتھ آرٹ کی صورت مین احساس، تخلیق اور انسانیت کا رنگ شامل ہو۔ یہ ہی وہ تعلیم ہے جو صرف ذہن کو نہیں، بلکہ سماجی جانور کو مکمل انسان بناتی ہے۔۔

About Imran Soomro

Imran Soomro is a visual artist, curator, writer, and art administrator. He has been working as an art teacher for 12 years. Imran Soomro has exhibited in international and national art galleries. Imran Soomro is a member of several art organizations internationally and in Pakistan.

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan