Jangain Mustaqbil Ka Tayun Karti Hain
جنگیں مستقبل کا تعین کرتی ہیں
کیا آپ کو پتہ ہے کہ آج کی دنیا میں موجود سماجی و سیاسی و اقتصادی اور عسکری بےچینی و اضطراب کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ دنیا کا کوئی نا کوئی خطہ سماجی دباؤ، سیاسی تناؤ، فوڈ سیکیورٹی کی عدم فراہمی، عسکری محرکات کی وجہ سے کسی نا کسی شکل میں حالتِ جنگ میں ہے؟ اس کے پیچھے بھی ایک سوچ کارفرما ہے۔
یقیناً آپ نے دو فلاسفرز کے نام بالضرور سن رکھے ہونگے، ایک سیموئل ہنٹنگٹن اور دوسرا فرانسس فوکویاما۔ دونوں نے قابلِ زکر افکار کو قلمبند کیا۔
فرانسس فوکویاما نے اپنے تھیسز (The End of History and the Last Man) میں بیان کیا ہے کہ کیمونزم کے خاتمے سے لبرل جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور تاریخ اپنے نکتہِ اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ ان کے نزدیک لبرل ڈیموکریسی انسانی حاکمیت کی حتمی شکل ہے۔ مارکیٹ اکنامکس (کیمونزم جیسے) نظاموں کا بہترین و امتیازی متبادل ہیں۔ فوکویاما یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت اور سرمایہ داری کا دنیا بھر میں پھیلاؤ نظریاتی ارتقاء کے خاتمے کی علامت ہے۔
جبکہ سیموئل ہنٹنگٹن اپنے تھیسز (Clash of Civilizations) میں رقم کرتے ہیں کہ سرد جنگ (Cold War) کے خاتمے کے ساتھ ہی اب نظریاتی تصادم کی بجائے ثقافتی تصادم کی صورت اختیار کرلی ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ اب دنیا میں nation-state کی بنیاد پر تنازعات کی بجائے تہذیبی (ثقافتی، مذہںی یا لسانی) بنیادوں پر تنازعات و تصادم اور فسادات ہونگے۔ انکے نزدیک مغربی تہذیب کی آفاقیت کو اب غیر مغربی تہذیبوں کی طرف سے چیلنج کیا جائے گا۔
سیموئل ہنٹنگٹن نے مستقبل کے حوالے سے پشینگوئیوں میں بیان کیا ہے کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب کے غلبے کو چیلنج کرے گی۔ چائنہ کا ابھرتا ہوا اثر و رسوخ مغرب کے ساتھ تنازعہ کو لیڈ کرے گا۔ روس اپنی Salvic-Orthodox شناخت کو اپنائے گا اور عالمی حاکمیت (Global Governance) مختلف تہذیبوں کے تصادم سے مشکل تر ہوجائے گی۔
اور ایک حد تک یہ سب درست بھی ہے، درست ثابت ہوچکا ہے۔ انکی یہ سوچ کوئی نئی بات نہیں بلکہ گزشتہ سو سالہ مغربی تہذیب کے جھوٹے رویے و نقاب سے ماخوذ ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ اگر سمندر میں دو مچھلیاں آپس میں جھگڑ رہی ہوں تو یقیناً وہاں سو کوئی برطانوی (جرنیل و سیاستدان) گزرا ہوگا، چونکہ گزشتہ صدی کا کے پہلے نصف تک یعنی 1945 تک باقاعدہ سپرپاور برطانیہ تھا۔ جبکہ اس وقت فتنوں کی ماں امریکہ کلچرل شفٹ، گریٹ ڈیپریشن، اور انیس سو تیس کی دہائی میں emerge ہورہا تھا۔ ایک فتنہ جو برطانیہ و فرانس نے Sykes-Picot معائدے کی رو سے حمل ٹھہرایا اس ناجائز اولاد کی زچگی امریکہ نے تمام عالمی گریٹ گیم پلیئرز کی مدد سے 1948 میں کی اور اس ناجائز بچے کا نام اسرائیل رکھا۔
گزشتہ سو سال سے زائد کی تاریخ میں جو ایک چیز بنیادی ہے، وہ جنگوں (مع دو عظیم جنگیں) کا ہونا ہے، جنہوں نے دنیا کی تاریخ کے دھارے موڑ کر رکھ دیئے۔ جنگِ عظیم اول کے بعد سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹی اور کئی ممالک وجود میں آئے۔ اسی طرح جنگِ عظیم دوم ہوئی تو ڈیموکریسی کے پرچ تلے فری ورلڈ، فریڈم آف سپیچ اور انسانی حقوق کے نعرے نظر آئے جنہوں نے کیمونزم (جس کی علمبرداری روس کر رہا تھا) کے خلاف نظریاتی سرد جنگ چھیڑ کر گریک سول وار، کورین وار، انڈو چائنہ وار، ویتنام وار، کیوبا کا انقلاب، ہنگری کا انقلاب، کمبوڈیا و سویت - افغانستان جنگ کی سوغات سے تاراج کر ڈالا۔ لاکھوں انسان فقط مغربی تہذیب و تمدن اور دنیا کو فری ورلڈ کے نام پر دلدل میں پھنسایا۔
جہاں سویت افغان جنگ کے بعد روس کئی ٹکڑوں میں بٹا تو وہیں دیوارِ برلن کا سقوط بھی ایک زخم کی صورت میں روس کو ملا۔ مشرقی روس کے سفارتخانے میں جہاں روسی عملہ موجود تھا، ان میں ایک کے جی بی (KGB) (سویت روس کی جاسوس ایجنسی) کا ایک اہلکار ولادمیر پیوٹن بھی موجود تھا۔ کہتے ہیں نا کہ کچھ واقعات انسان کی صحت و دماغ اور احساسات و جزبات پر بہت گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی اثر ولادمیر پیوٹن پر بھی ہوا۔ اس روسی صدر نے روس کو rebuilt کرنے کی ٹھان لی اور روسی حکومتی سٹریکچر میں جگہ بناتے ہوئے صدارتی کرسی تک پہنچ گئے۔ یہ خود Salvic-Orthodox عیسائی ہیں اور انہوں نے مذہبی عنوان سے روس کو بھی سرکاری سطح پر وابستہ کردیا ہے۔ ایسی تفصیلات کیلیے روسی فلاسفر الگزینڈر ڈگین کو پڑھنے کیلیے سجیسٹ کرونگا کہ انکو پڑھیں یا انٹرویوز سنیں۔
یہاں مغرب کو لگا کہ روس ختم! جبکہ انکا سارا فوکس، سارا دھیان چین کی طرف منتقل ہوگیا۔ نوے کی دہائی سے ہی باضابطہ یعنی پہلے کی نسبت فوکسڈ اور مضبوطی سے چین کو کاؤنٹر کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی۔ چین و امریکہ کی ٹسل نوے کی دہائی سے ہی تیز ہوگئیں۔ جسکی آج واضح شکل تائیوان کے مسئلہ میں مسلسل بھارت اور ساؤتھ چائنہ سمندر سے منسلک ریاستوں کو چین کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ خود تو امریکی جنگی بیڑے ساؤتھ چائنہ سی میں ہوتے ہی ہیں لیکن اب امریکہ نے کواڈ کے نام سے بھارت و جاپان و آسٹریلیا کو ملا کر چین مخالف ایک اتحاد بھی قائم کرلیا ہے۔ جبکہ BRI vs IMEC بھی ایک الگ تفصیلی سٹریٹجک داستان ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چین معاشی سپرپاور بن چکا ہے۔
"زمانی لحاظ سے انسان اپنے نزدیک ترین انقلاب سے متاثر ہوتا ہے"۔ تاہم ہماری نسل کے جوانوں اور ہم سے بڑی دو نسلوں کیلیے زمانی و مکانی دونوں لحاظ سے نزدیک ترین انقلاب، انقلابِ نظامِ اسلامی ایران ہے! جب ایران میں انقلاب آیا تو اس وقت عرب ریاستیں ناجائز صیہونی رجیم سے متعدد شکستیں کھا چکے تھے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایران کے دو بڑے ہمسائے پاکستان و عراق دونوں میں آمریت کا راج تھا اور دونوں امریکہ کے قریب تھے۔ عراق نے 1980 میں ایران پر جنگ مسلط کردی جو مزید آٹھ سال یعنی 1988 تک جاری رہی۔
ایران کے انقلاب کی core اسلام ہے۔ جبکہ روس و چین و شمالی کوریا کی core آپس میں نسبتاً یکساں و مشترکہ ہے یعنی کیمونسٹ و سوشلسٹ طرز کی حکومتیں۔ جبکہ ان ممالک سے ایران کا اتحاد و تعاون فقط ایک بنیاد پر ہے کہ سب امریکہ و مغرب کے غلبے، انکی سامراجیت و استکباریت کے خلاف ہے، یہی وہ نکتہِ اتحاد ہے! نظامِ اسلامی ایران اسرائیل کے حوالے سے شدید مخالف مؤقف رکھتا ہے۔ ایران کا واضح مؤقف ہے کہ فلسطین کے مقامی باشندے چاہے وہ عیسائی ہوں یا یہودی یا چاہے وہ مسلمان ہوں، وہ ریفرنڈم کے زریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ بصورتِ دیگر قابض کنندان کو بزورِ بازو فلسطینی سرزمین سے نکال باہر کریں۔
مسئلہ یہودی ریاست کا ہونا نہیں، غیر فطری ہونا ہے۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کی کوئی legitimacy ہی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی عدالت کی verdictions کی رو سے اسرائیل کی کوئی حقیقت و اصلیت نہیں ہے۔ لہذا اس ناسور کے خاتمے کیلیے ایران نے "محورِ مزاحمت" قائم کیا جس نے جولائی 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش کیا۔ مزید یہ کہ غزہ و مغربی فلسطین میں انتفاضہ جات کی تحریکوں نے خوب اثر کیا۔ جبکہ آج ایران کے شہید قاسم سلیمانی کی سٹریٹجی کی بدولت آج مزاحمت بہتر ہتھیاروں سے لیس ہے اور اسرائیل کا جواں مردی سے مقابلہ کر رہی ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں دنیا نے کئی تجربات حاصل کیے ہیں۔ کئی سیاسی و سماجی اور ثقافتی و عسکری و معاشی ڈیولپمنٹس ہوئی ہیں۔ جس کیمونزم (روس) کے خاتمے کا اعلان 1992 میں سیموئل ہنٹنگٹن کر چکے تھے وہ اب 2014 میں بغیر insignia کے یوکرین میں فوج بھیج کر مغربی تسلط کا منہ چڑا رہا تھا۔ چین ساؤتھ چائنہ سی میں شارک مچھلی کی طرح سب کچھ ہڑپ کرتے ہوئے افریقہ و ایشیاء اور حتیٰ یورپ میں بھی خود کو بڑی معیشت ثابت کرتے ہوئے امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ جبکہ مشرقِ وسطیٰ خصوصاً شام و عراق اور یمن میں بعض عرب ممالک اور امریکہ کی ملی بھگت سے لگائی گئی آگ کو ایران نے اپنے محورِ مزاحمت سے بجھا کر رکھ دیا ہے۔
مزید یہ کہ موجودہ برسوں میں روس کی یوکرین سے اور فلسطین کی غزہ کے محاظ پر اسرائیل سے جنگ بڑھتی escalation ladder پر منحصر ہے کہ آیا یہ ریجنل وار ہی رہے گی یا عالمی جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ ایک چیز یہ بھی مشاہدے میں ہونی چاہئیے کہ جب عظیم جنگیں اول و دوم ہوئیں تو دونوں کے بعد لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح گزشتہ دس سالوں میں مشرق سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ان میں سے اہم ترین برکس (BRICS) کا قیام ہے۔ اس کا قیام 2006 میں عمل میں لایا گیا مگر اس نے بخوبی فعالیت 2002 کے بعد سے بڑھائی ہے جبکہ 2022 کے بعد کہ جب مغرب جنگ کے شعلے سلگ رہا ہے، اس نے مزید اہمیت اختیار کرلی ہے۔ بعید نہیں کہ بڑی طاقتیں بھی واضح و اعلانیہ اس میں کود پڑیں۔ کیونکہ سو سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جنگیں مستقبل کا تعین کرتی ہیں! اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ مزاحمت میں ایران اپنا کوئی ثانی بھی رکھتا ہے؟
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!