Haq, Haqdar Tak
حق! حقدار تک
کورونا وائرس چین کہ شہر ووہان سے ہوتا ہوا یورپ و ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ تک دنیا کے 196 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ جہاں معاشی و معاشرتی معمولاتِ زندگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے وہیں انسانی جانوں کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہوا ہے اور اب تک یعنی حالیہ رپورٹس کے مطابق 19 ہزار سے زائد انسانی جانوں کیلئے موت کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے، 309405 ایکٹو کیسز درج ہیں اور یہ تعداد آئے روز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اب تو سعودیہ عرب میں بھی اس موذی وبا سے پہلی انسانی موت واقع ہوئی ہے۔
اس وبا کے کنٹرول کرنے میں دنیا کے ممالک بہت سے جتن کررہے ہیں۔ مختلف ریاستوں ملکوں میں مکمل یا جزوی کرفیو جیسے اقدامات انجام دے رہی ہیں۔ اٹلی و چین اور انڈیا تک کرفیو۔ چونکہ یہ وبا پاکستان میں بھی پھیلنا شروع ہوئی ہے، اس ضمن میں احتیاطی و حفاظتی اقدامات میں قرنطینہ سے لے کر لاک ڈاؤن تک جیسے اقدام شامل ہیں۔ پاکستان جوکہ ترقی پزیر ملک ہے، اس وقت ملک میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے جن کا سوائے پختون خواہ میں صوبائی حکومت کے علاوہ کوئی خاصہ تجربہ نہیں، مگر تجربہ کار سیاست دان ضرور ہیں۔ پاکستان کیلئے 2019 کا سال معاشی طور پر سنگین حد تک سخت ثابت ہوا اور نظامِ مملکت چلانے کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے پڑے۔ شاید کہ کچھ بہتری آتی، کورونا نے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ پاکستان کی اکثریت غریب ہے۔ ایسے میں کرفیو کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان قوم سے پہلے بھی خطاب کرچکے ہیں، مزید براں ایک مرتبہ پھر بھی جلوہ گر ہوئے اور غربت میں پستی عوام کیلئے ایک پیکج لائے۔ اشیائے ضرورت برائے گھریلو استعمال پر ٹیکسوں میں کمی کے علاوہ انتہائی غریب افراد کیلئے 150 ارب مختص کئے گئے جوکہ ہر خاندان کو 4 ماہ تک 3 ہزار روپے ماہانہ ادا ہونگے، 1000 ارب کا امدادی پیکج شامل ہے۔ صنعت و زراعت اور لاک ڈاؤن کیلئے 100، 100، مزدور طبقے کیلئے 200، میڈیکل ورکرز اور یوٹیلٹی سٹورز کیلئے 50، 50، این ڈی ایم اے کیلئے 25 ارب رکھے گئے ہیں (**یہ اعداد و شمار 92 نیوز کہ اخبار سے حاصل کئے گئے ہیں )۔
اس پیکج کی تفصیلات میں کثیر پیسہ عوام کی فلاح و ضروریات کیلئے ہے۔ مگر!!!
میں بھی مُنھ میں زبان رکھتا ہوں،
کاش پوچھوں کہ مدّعا کیا ہے؟
سوال یہ کہ پیکج کی عملی صورت میں یہ تعین کیسے کیا جائے کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں؟ امدادی سرگرمیوں میں تقسیم کا دائرہ کیا اور کیسے ہوگا؟ جواب ایک مثال سے بھکر کے ایک وارڈ نمبر 07 میں کچھ عرصہ قبل سروے ہوا، ٹوٹل 730 کے قریب گھر تھے جن میں سے تیس قرعہ اندازی کے زریعے منتخب ہوئے اور تصدیق ہونے کے بعد رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھیج دی گئی۔ اب اگر امداد پہنچی تو مزکورہ وارڈ کے ان تیس گھروں میں پہنچے گی۔ مگر ان تیس گھروں میں ایک گھر وکیل کا ہے، ایک گھر ایسے شخص کا ہے کہ جسکی شہر کے مرکزی چوک پہ چھ سے سات دکانیں کرائے پہ ہیں، ایک گھر محکمہ تعلیم کےدفتر کے سابقہ نائب قاصد کا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے گھر ہونگے جنکا نظامِ معاش بہتر حالت میں ہوگا اور وہ لاک ڈاٶن کا کرفیو جیسی صورتِ حال میں Survive کرسکیں گے۔ مگر ان تیس گھروں کے علاوہ 700 گھروں میں سے مستحقین ہونگے، انکا کیا؟
یوں تو مشیر برائے خزانہ و محصولات نے فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے سٹریم لائن اجلاس میں شفاف عمل کے ضابطے کو یقینی بنانے کے احکامات صادر فرمائے۔ اگر سروے کی بنیاد پر فنڈز تقسیم ہونگے تو پھر غریبوں کو شاید دو وقت کا کھانا نہ مل پائے اور بہت سے مستحقین خالی ہاتھ رہ جائیں۔ اگر کوئی نئی پالیسی مرتب کریں گے تو شاید خوش آئند ہو مگر ہنگامی حالات میں کوئی نیا کام ممکن نہیں۔ سروے ہی بنیاد بنے گا۔
ہمارا یہ سسٹم بنیادی طور پر کھوکھلا ہے۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ہیلتھ کارڈ جیسے اقدامات میں بھی کچھ یہی خامیاں تھیں۔ سننے میں آیا کہ بعض ایسے سرکاری حضرات جو بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کام سے وابستہ تھے، انہوں نے اپنی جیب گرم کئے رکھی یا فہرستوں میں اپنے اقربا کو شامل کیا۔
یوں تو پاکستان کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، مثلا کسی ٹھیکےدار کو اگر مرمت یا تعمیر کیلئے کوئی پراجیکٹ دیا جائے تو یا وہ ناقص مٹیریل لگاتا ہے یا کام ادھورا چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے۔ یونہی بلدیات کے نظام میں کسی کونسلر یا عہدےدار کو فنڈز ملیں تو وہ کھا پی جاتا ہے، اور غربا و مستحقین تک حق نہیں پہنچ پاتا۔ ان مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فنڈز کی تقسیم کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ایک زاویے سے ان افراد کیلئے یہ تین ہزار کافی نہیں کیونکہ یقینا کچھ لوگ کرائے کے گھروں میں ہونگے، کسی کا صحت کا مسئلہ ہوگا کسی کا دیگر کوئی مسئلہ۔ ایسے میں میری حکومت سے گزارش ہے کہ دور رس اثرات رکھنے والی پالیسی بنائے۔ ساتھ ان انجمنوں اور صاحبانِ ثروت سے بھی گزارش ہے جو نجی سطح پہ قائم ہیں اور ان دنوں راشن پانی کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں کہ، خدارا حق! حقدار تک ضرور پہنچے!