1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Mulk Do Tukre Na Hota

Mulk Do Tukre Na Hota

ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا

سعید لائبریری میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے عمیر اسے دیکھ کر پوچھتا ہے کون سی کتاب پڑھی جا رہی ہے جناب؟

سعید نظریں اٹھاتے ہوئے کہتا ہے پتہ تو ہے تمہیں مجھے تاریخ سے کس قدر لگاؤ ہے ظاہر ہے تاریخی کتاب ہی پڑھ رہا ہوں گا۔

عمیر کہتا ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم مجھے تھوڑے غصے میں بھی دیکھائی دیتے ہو اس کی کیا وجہ ہے؟

سعید کہتا ہے، دراصل بات یہ ہے کہ جوں جوں میں اپنی تاریخ پڑھتا ہوں مجھے چند کرداروں پر بہت غصہ آتا ہے۔ جہنوں نے پاکستان میں ہمیشہ منفی کردار ادا کیا۔

عمیر پوچھتا ہے آپ کو آج کون سے کردار پر غصہ آ رہا ہے؟

سعید کہتا ہے کہ میں آج سانحہ مشرقی پاکستان کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے جنرل یحیٰی کے کردار پر بہت غصہ آیا۔

عمیر اس کی وجہ پوچھتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت سب سے طاقتوار شخصیت تھے وہ چاہتے تو ملک کو دو ٹکرے ہونے سے بچا سکتے تھے۔ کیوں انھوں نے اختیارات کی صحیح تقسیم نہ کی۔ کیا وہ اتنے طاقتور نہ تھے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو سمجھا نہ پاتے کہ حکومت کا حق شیخ مجیب الرحمٰن کا بنتا ہے الیکشن کے نتائج کے مطابق ہی اقتدار منتقل کیا جاتا تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔ مگر انھوں نے تو یہ سب کرنے کی بجائے ساری بات ذوالفقار علی بھٹو پر چھوڑ دی جس کا نتیجہ سب نے بھگتا۔

لیکن سعید بھائی کیا اس معاملے میں سارا قصور جنرل یحیٰی کا بنتا ہے میرے خیال میں سارا الزام اس ایک کردار پر ڈالنا زیادتی ہوگی۔ کیونکہ میرے مطالعے کے مطابق جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان مذکرات کامیاب کروانے کی بہت کوشش کی لیکن دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے رہے۔

اس بات میں تو کوئی شک کی گنجائش موجود نہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن واضح طور پر الیکشن جیت چکے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو تمام ووٹ مشرقی پاکستان سے پڑے اور مغربی پاکستان میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے۔ جبکہ ان کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بن کر سامنے آئے جبکہ مشرقی پاکستان میں ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی مکمل طور پر نا کام رہی۔

اب معاملہ یہ تھا کہ دونوں اپنے اپنے علاقے میں تو فتح یاب ہو گئے مگر دوسری طرف کی ناکامی کی وجہ سے کامیابی میں توازن نہ رہا اور دونوں کو اقتدار حاصل کرنے کی چاہ پیدا ہوگئی۔ اب اقتدار کا حق تو شیخ مجیب الرحمٰن کو تھا کیونکہ وہ اکثریت حاصل کر چکے تھے مگر بھٹو یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ لہٰذا اس سارے معاملے میں اکیلے جنرل یحیٰی خان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اس میں اور بھی بہت سے کردار قابل ذکر ہیں۔

اور سعید بھائی اس میں موجود تیسرا کردار بھی شک و شبہ سے خالی نہیں یعنی شیخ مجیب الرحمٰن وہ جیت تو گئے مگر تاریخ کے کچھ باب ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ شیخ صاحب کی دوستیاں دشمن ملک کے ساتھ تھیں۔ بعض تاریخ دان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن زمانہ طالب علمی سے ہی بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے ساتھ مراسم رکھتے ہیں۔ اور بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بھی پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار شیخ صاحب کا ہی تھا۔

اور ان کے علاوہ میڈیا کا کردار بھی قابل ذکر ہے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک اخبار کی سرخی نے کس حد تک مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں نفرت کی فضا پیدا کی اور بعد میں یہی سرخی مسٹر بھٹو سے منصوب کر دی گئی یعنی "ادھر ہم أدھر تم۔ " مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو۔ تاریخ دان اسی سرخی کو سانحہ مشرقی پاکستان کی ابتداء کہتے ہیں۔

عمیر مزید کہتا ہے کہ اصل بات تو یہ تھی کہ ایک ایجنڈے کے تحت دشمن ملک کی طرف سے 45ء کی جنگ میں شکست کے بعد سے کسی ایسے موقع کی تلاش جاری تھی جب وہ پاکستان کو کمزور کر سکے اور ان کی خفیہ ایجنسی راء نے یہ کام بہت پہلے سے شروع کر رکھا تھا کہ بنگالیوں میں مغربی پاکستان کے لیے نفرت پیدا کی جائے اور ان کو احساس دلایا جائے کہ مغربی پاکستان والے آپ کا حق کھا رہے ہیں۔ آپ اصل پاکستان ہیں مگر وہ آپ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ آپ اکثریت میں ہونے کے باوجود ان کے غلام کیوں ہو؟

اس قسم کا منفی پروپیگنڈا بنگالیوں میں بدنام ذمہ راء کی تنظیم "مکتی باہنی" کے ذریعے پھیلایا گیا اور بہت سے میر جفر اور میر صادق بھی اس تنظیم کی مدد کر رہے تھے۔ اور یہ تنظیم بہت عرصے سے پاکستان کو کمزور کرنے پر کام کر رہی تھی جس میں بد قسمتی سے انہیں کامیابی ملی۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

سعید کہتا اور زبان کی وجہ سے بھی ایک دوسرے میں نفرت پھیل رہی تھی مشرقی پاکستان والے کہتے تھے کہ بنگالی بھی سرکاری زبان ہو جبکہ مغربی پاکستان والے چاہتے تھے کہ اردو ہی سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جائے۔ یہ بھی تو اس نفرت کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

عمیر کہتا ہے کہ دراصل بہت سے ایسے اقدامات ہوئے جن سے مشرقی و مغربی پاکستان میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن شروع سے ہی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے خواہش مند تھے کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن شروع میں علیحدگی کی تحریک کو اس لیے سپورٹ کر رہے تھے کیونکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ 23 مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد میں مسلم ریاستوں (Muslim states) کا تصور دیا گیا ہے لہٰذا ان کو الگ ریاست بنایا جائے گا۔ یعنی وہ سمجھ رہے تھے کہ بنگالیوں کو علیحدہ خودمختار ریاست بنایا جائے گا۔ مگر جب پاکستان بنا تو مشرقی و مغربی پاکستان ایک ہی ملک بنا۔

اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ زبان کا پیدا ہوا کیونکہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو بنگالیوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ اس کے بعد جب میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی مدد سے ملک پر پہلا مارشل لاء نافذ کیا تو شیخ مجیب الرحمٰن کے علحیدگی کے اس عمل کو مزید تیز کر دیا گیا لیکن اس وقت تک شیخ مجیب الرحمٰن واضح طور پر علیحدگی کی بات نہیں کر رہے تھے۔ حالانکہ بنگلادیش کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شوکت علی نے اعتراف کیا تھا کہ ہم شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں علیحدگی کی تحریک بہت پہلے سے سرگرم کیے ہوئے تھے۔

صدارتی الیکشن میں شیخ مجیب الرحمٰن نے جنرل ایوب کی مخالفت کی اور محترمہ فاطمہ جناح کو سپورٹ کیا شاید اگر محترمہ فاطمہ جناح جیت جاتی تو ملک دو ٹکڑے ہونے سے بھی بچ جاتا کیونکہ شیخ مجیب الرحمٰن بھی محترمہ کی جیت سے مطمئن ہو جاتے کیونکہ شیخ صاحب بھی محترمہ کو لیڈر مان چکے تھے اور ان کی الیکشن کمپین کر رہے تھے لیکن یہ موقع بھی جنرل ایوب خان کے اقتدار کے لالچ نے ہم سے چھین لیا۔ اور لازوال دھاندلی کر کے ایوب خان صدراتی الیکشن جیت گئے۔

عمیر کہتا ہے کہ المختصر یہ تینوں یعنی جنرل یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو اس سانحہ کے مرکزی کردار ہیں اور بھی بہت سے عوامل تھے مگر اگر یہ تینوں درست سمت میں چلتے تو ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Shahbaz Sharif Se Awami Tawaquat

By Umar Khan Jozvi