Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Mil Gaye Tum Bhi Tu Kya Aur Na Jane Mange

Mil Gaye Tum Bhi Tu Kya Aur Na Jane Mange

مل گئے تم بھی تو کیا اور نا جانے مانگے

محبت ایک فطری عمل ہے۔ یہ کسی نہ کسی انداز سے سرزد ہو ہی جاتی ہے۔ محبت کی نہیں جاتی بلکہ خود بخود ہو جایا کرتی ہے۔ میں بنیادی طور پر اس بات کا بہت بڑا حامی ہوں کے محبت یا عقیدت کے لیے جینس کا مخالف ہونا ضروری نہیں۔ انسانی معاشرت کی تاریخ میں کچھ الفاظ ایسے ملتے ہیں جن کی معنویت میں ایک جہان آباد ہے۔ ان کی تشریح کرنے کے لیے مختلف فنون کا سہارا لینا پڑجاتا ہے مگر تب بھی اس کو بیان کرنے کی تشفی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایک لفظ محبت، یا رومان، ہے۔

مذکورہ لفظ کے مزید مترادفات میں عشق، پیار، لَوّ اور چاہت جیسے الفاظ شامل ہیں، جن سے اس لفظ کی معنویت میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے اور تفصیل سے اس جذبے کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے، کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس لفظ کا طلسم ٹوٹا نہیں ہے۔ اس لفظ کی اپنی طے شدہ کیفیت ہوتی ہے، جس میں مبتلا فرد کبھی اس کے سحر سے باہر نہیں آنا چاہتا۔امجد اسلام امجد نے اس جذبے کے احساس کو کس قدر سہل لیکن ڈوب کر لکھا ہے کہ:

محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا

محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا

کسی سے جب محبت ہو جاتی ہے تو پھر اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انسان ہمیشہ اسی کے خیالوں میں مگن رہتا ہے اور اسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ محبت کیا ہے؟ اس کا ایک سیدھا جواب تو یہ ہے کہ محبت ایک جذبہ ہے جس کی افادیت مسلمہ ہے اور اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محبت روشنی کی ایک کرن ہے جو اپنے اندر بے شمار رنگ سمیٹے ہوتی ہے لیکن جب اس کو جذبوں کے شیشے کی منشور میں سے گزارا جائے تو بے شمار حسین رنگ پھوٹ پڑتے ہیں اور ان رنگوں میں بے شمار جذبے پروان چڑھتے ہیں۔

بعض لوگ محبت کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہیں حالانکہ محبت کی تقسیم ممکن ہی نہیں، لیکن اگر ہم ان کی رائے کو تسلیم کر لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماں کا اپنے بچوں سے پیار بھی محبت ہے، استاد بھی اپنے شاگرد سے پیار کرتا ہے، کسی تخلیق کار کو بھی اپنی تخلیق سے محبت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ انسانی رشتوں سے بھی بڑھ جاتی ہے، انسان کا بچہ بھی ایک تخلیق ہے، قدرت کی بے حد خوبصورت اور انمول تخلیق اس لئے تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس کی ماں سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے۔

تاہم ان محبتوں کے ساتھ ساتھ شاعروں نے ایک اور محبت بھی تخلیق کی ہے، یہ وہ محبت ہے جس کے متعلق ہم آج کل کم و بیش ہر نوجوان سے تذکرہ سنتے ہیں، اس محبت کا ظالم سماج سے گہرا ربط ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی شاعر نے محبت کی تعریف یوں بھی کی ہے کہ

اک لفظ محبت کا ادنیٰ سا فسانہ ہے

سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

شاعر نے محبت کے متعلق گہری بات کہی ہے لیکن یہ پرانے وقتوں کی بات ہے کہ انسان صرف محبت کرتا تھا، اب اسے اور بھی بہت کام ہیں، یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے کہ محبت کی جائے یا دنیا کے کام کئے جائیں، سولہ سترہ برس کا نوجوان یقیناً یہی کہے گا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہو سکتے، محبت صرف محبت مانگتی ہے، ویسے اگر اس جذبے کا صحیح استعمال کیا جائے تو فرہاد کی سی ہمت اور استقلال کے ساتھ شہنشاہ وقت سے بھی ٹکر لی جا سکتی ہے، چاند کی تسخیر ہو سکتی ہے۔

میرے مرشد حضرت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کے ساتھ زندگی کے عملی میدان میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے اور یہی تینوں چیزیں اسلحے کا کام دیتی ہیں ۔

ہر چیز کا تجسس ہی آپ کے اندر جذبے کو ابھرے رکھتا ہے اور تجسس کی حد تک ہی میرے خیال میں کام ٹھیک ہے جب کوئی چیز حاصل ہو جایا کرتی ہے تو پھر اس کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو اہمیت وہ تجسس کے وقت رکھتی تھی۔ پھر انسان کسی اور تجسس میں پڑ جاتا ہے اسی کے گرد انسان کی زندگی گومتی رہتی ہے۔ اور یہ چکر کاٹتے کاٹتے ہی آخر کار انسان اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ احمد فراز صاحب نے کہا تھا:

یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے

اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے

دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فرازؔ

مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

محبت کی آج تک کی بہترین تعریف جو میں نے سنی یا پڑھی ہے وہ یہ ہے کہ "محبت ایک عزم ہے"۔ جی ہاں! اور اسے نبھانا بھی پرعزم لوگوں کا کام ہے۔

محبت کی کئی شکلیں ہیں محبت آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے تو ہونی بطور مسلمان ہمارے ایمان کا حصہ ہے جبکہ والدین سے محبت اس کے ساتھ ساتھ دوستوں عزیزوں (عزیزوں میں سب آ جاتے ہیں وہ بھی جنہیں شاید آپ تلاش کر رہے ہیں) سے محبت اس کے علاوہ بھی اس کی بے شمار اقسمام ہیں۔ محبت کا سیدھا تعلق دل سے ہے آپ کا اس پے کوئی اختیار نہیں۔ محبت اک جذبے کا نام ہے لیکن اس میں عشق کی حد تک جانے کا ایک معیار ہے اگر تو وہ عشق حقیقی ہے تو وہ آپ کی زندگی تبدیل کر دے گا اور اگر آپ مجازی عشق کا شکار ہو گئے ہیں تو یہ میرے خیال میں کسی حد تک بیوقوفی کی نشانی ہے۔ کیونکہ محبت ہونا ایک فطری عمل ہے اس کو عشق مجازی تک لے جانا کہیں نا کہیں کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور ایسا عمل اکثر بقول آفتاب اقبال کے جہالت کی عمر میں سرزد ہوتا ہے۔ بہرحال بات لمبی ہونے کے خدشے سے عبید اللہ علیم صاحب کے مفت مشورے پر اپنی بات کا اختتام کروں گا:

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal