Leader (1)
لیڈر (1)
میں اکثر عشاء کی نماز دیر سے پڑتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس وقت سارے سو جائیں اس وقت اکیلے میں اپنے رب سے باتیں کرنے کا مزہ ہی الگ ہے۔ پر سکون ماحول میں اللہ کی عبادت کرنے کا زیادہ سے زیادہ دل کرتا ہے۔ نو اپریل جس دن غالباً چھٹا روزہ تھا افطاری کے بعد سے ہی میں سیاسی ماحول دیکھنے میں مصروف تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ملک کشیدگی کی طرف جا رہا ہے۔ ہر کسی کی نظریں پالیمان پر جمی ہوئی تھیں۔ کچھ دوست تو ماحول کو دیکھتے ہوئے مارشل لاء لگتا بھی دیکھ رہے تھے لیکن رات تقریباً پونے بارہ بجے کے قریب حالات ساز گار ہوگئے اور اسپیکر اسد قیصر مستعفی ہو گئے اور ایوان کی کاروائی سابقہ اسپیکر ایاز صادق کے حوالے کر دی گی۔
عدم اعتماد کامیاب تو ہونا ہی تھی کیونکہ اپوزیشن کے پاس منحرف ارکان کے علاوہ بھی نمبرز پورے تھے۔ ایاز صادق اسپیکر چیئر پر بیھٹے اور ووٹنگ شروع ہوئی تو میں عشاء کی نماز پڑھنے لگ پڑا دل ادس تھا کہ ایک سچا اور مخلص لیڈر جا رہا ہے۔ ابھی کیونکہ ووٹنگ چل رہی تھی تو عمران خان ہی وزیر اعظم تھے۔
جب نماز پڑھ چکا تو عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے تھے۔ اسی اداسی میں آنکھ لگ گئ سحری کے لیے اٹھا تو دل و دماغ پر وہی عمران خان سوار تھا۔ آخر کار جب فجر کی نماز کے لیے اللہ کے حضور کھڑا ہوا تو ایسے ہی دل سے صدا سی آئی کے دو نفل عمران خان کی خاطر پڑھے جائیں کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے صدقے اس مرد مجاہد کو مضبوط رکھے اور دوبارہ ایک نئی قوت جوش و ولولے سے اس ملک کا حاکم بنائے۔ نفل پڑتے پڑتے میں آبدیدہ ہو گیا اور ساری ادسی آنکھوں سے باہر آ گئ۔
میں بنیادی طور پر بتاتا چلوں کہ میں عمران خان صاحب کو نومبر2011 سے فالو کر رہا ہوں جس وقت ان کی سیاسی حیثیت بہت کم تھی۔ اور لوگ انہیں تانگے کی سواریوں والی جماعت کہا کرتے تھے۔ لیکن اس کے بعد ان پر عروج آتا چلا گیا لوگ تیزی سے ان کی جماعت میں شامل ہوتے چلے گئے۔ جب بڑے بڑے لیڈر مثلا مخدوم جاوید ہاشمی جن کو سیاست میں ایک بہادر آدمی کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور تازہ تازہ وزارت خارجہ سے استعفیٰ دینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی (جو اب ان کی جماعت کے وائس چیرمین بھی ہیں) نے آ کر خان کے کندھے سے کندھا ملایا تو خان کی بھی سیاسی حثیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
2013 کے انتخاب میں خان صاحب وفاق میں حکومت تو نا بناسکے لیکن کے پی کے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے اور سیاسی منظر نامے پر بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئے اور پی پی پی کی فرینڈلی اپوزیشن کے مقابلے میں اصلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 2014 کے دھرنے نے عمران خان کو اور زیادہ مقبول اور مقتدر حلقوں کے قریب کر دیا اور خاص کر جب پانامہ کا ہنگامہ ہوا تو اس نے ن لیگ کا بہت سا ووٹ توڑ کر عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ خان منزل کی جانب اکیلا چلا تھا اور کوئی سوچ بھی نا سکتا تھا کہ یہ ایک دن اقتدار کے ایوانوں تک پہچ جائے گا لیکن 2018 کے انتخاب نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان کو کوشش جاری رکھنی چاہئے ایک نا ایک دن کامیابی اس کا مقدر ضرور بنے کی اور یہی بات عمران خان کی لیڈرشپ کوالٹی کو ظاہر کرتی ہے۔
جو بھی ہو اقتدار کے ان تین سالوں میں عمران کی ذات پر کوئی الزام تک نہیں لگا سکا کہ اس نے بد عنوانی کی کوشش بھی کہیں کی ہو۔ گورننس کے ہزار مسائل ہوں گے باقی بھی بہت سی چیزوں میں خان کا دفاع میرے جیسا بندہ نہی کرنا چاہئے گا کیونکہ پرفیکٹ تو کوئی بھی نہیں ہوتا لیکن یہ بات تو ہزار فیصد درست ہے کہ عمران خان سے بےشک حکومت نہیں چلی لیکن ان شریفوں اور زرداریوں سے وہ پھر بھی بہتر ہے اور تاریخ میں بھی وہ ان سے بہتر لکھا جائے گا۔
اس ساری ملکی و غیر ملکی سازش کے خلاف جو عوام اپنے آپ سے باہر نکل رہی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان کا دیا ہوا شعور عوام میں سرایت کر گیا ہے اور لوگ اپنے حق کے لیے باہر آ رہے۔
ایک لیڈر کا بنیادی طور پر کام ہی عوام کو بیدار کرنا اور غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنا حق مانگنے کے قابل بنانا ہوتا ہے اور وہ خان نے پوری قوت سے کیا ہے اب عوام کی باری ہے کہ وہ کس طرح ان سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔
لانگ مارچ میں اتنی روکاوٹوں کے باوجود جس قدر لوگ آئے اور خان کے آزادی مارچ میں شرکت کےلیے جس قدر پر جوش ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ قوم بیدار ہو چکی ہے۔
اس سارے ماحول میں مجھے جو بات بہت نا گوار گزری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارے گئے اور چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی واقعی ہی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بزرگ خواتین ڈاکٹر شیریں مزاری اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور خاص کر مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال کے گھر ان کے پوتے سینٹر ولید اقبال کو پکڑنے کے لیے رات کو چھاپہ مارا گیا اور علامہ صاحب کی بہو محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے بعد تو مجھے مشیر کاظمی صاحب کی ایک نظم ہی یاد آ رہی ہے جو اس سارے حالات پر نوحہ گری کرتی ہے:
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو "ایسا" گوارا نہیں
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
سرنگوں تھا قبر پہ مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارا نہیں
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں
کچھ سیاسی مہاشے بھی موجود تھے
چاند تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے
چاند تارے کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہین تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہو گئے
ٹکڑے کر ڈالا دشمن کی تلوار نے
گھر بھی دو ہو گئے در بھی دو ہو گئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
کچھ تمہاری سیاست کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائی گئی
میرے خون جگر سے بنائی گئی
نقشۂ ایشیاء میں سجائی گئی
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ہم کو حصوں میں بٹنا گوارا نہیں
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو"ایسا" گوارا نہیں
(جاری ہے)