Kya Sirf Un Mein Qabliat Hai?
کیا صرف ان میں ہی قابلیت ہے؟
میں اگلے دن اک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں جمہوریت کو مزاح کے اندز میں پیش کیا گیا تھا۔ اک بابا جی جن کو سب استاد جی کہہ رہے تھے بیٹھے تھے جبکہ ان کے سامنے چھ لوگ موجود تھے بابا جی ان کو جمہوریت کے بارے میں بتا رہے تھے بابا جی نے جمہوریت کو سمجھانے کے لیے مثال دی کہ میں سوال پوچھتا ہوں اس کے جواب میں سب اپنی رائے دیں۔ بابا جی نے سوال پوچھا مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کس کا بیٹا تھا بابر کا یا ہمایوں کا؟ وہاں موجود چھ میں سے دو نے کہا ہمایوں کا جبکہ چار نے کہا بابر کا۔ بابا جی نے کہا لہذا جمہوریت کی روح سے ثابت ہوتا ہے کہ اکبر بابر کا بیٹا ہے۔ حالانکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شہنشاہ اکبر، ہمایوں کے جانشین تھے۔ جمہوریت کے اس نقصان دہ پہلو کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی۔ جمہوریت کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں تعداد فیصلہ کرتی ہے۔ ایک عقل و شعور رکھنے والا شخص بھی ایک ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے جبکہ ایک ایسا شخص عقل و شعور جس کے پاس سے بھی نہیں گزری وہ بھی اس کے برابر ہی تصور کیا جائے گا۔
میرے پیر و مرشد حضرت علامہ محمد اقبال نے بھی کہا تھا نہ کہ:
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کِیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہُوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بُندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے!
شاعر مشرق نے اسی باعث مغربی جمہوریت کو برہنہ تلوار قرار دیا۔ نیز یہ مثال دے کر اپنے مقدمے کو مضبوط بنایا: "دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسانی ذہن کی برابری نہیں کر سکتے۔"
چونکہ جمہوریت کوئی فلسفہ یا نظریہ نہیں محض طرزِ حکومت ہے، اسی لیے پچھلے دو سو برس میں یہ کئی اشکال اختیار کر چکا۔ مثلاً برطانوی جمہوریت جہاں آج بھی بادشاہت محدود روپ میں زندہ ہے۔ یا امریکی جمہوریت جہاں صدر سب سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔ مگر انہی جمہوری یا عوام دوست ممالک کے حکمرانوں نے پچھلے دو سو برس میں انسانیت پر بے انتہا ظلم بھی ڈھائے اور جنگ و جدل کی انتہا کر دی۔ اسی باعث "بال جبرئیل "میں حیرت زدہ شیطان بھی پکار اٹھتا ہے؎
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب ِسیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
سو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اخلاقی و مذہبی اصولوں سے عاری مغربی جمہوریت دراصل آمریت ہی کا نیا روپ ہے۔ چناں چہ دنیائے مغرب میں امیر حکمران طبقہ عوام کا استحصال کر کے اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بس جمہوریت کے نام پر عوام کو کچھ سہولتیں دے دی جاتی ہیں تاکہ وہ مطیع و فرماں بردار رہ سکے۔
اسلامی ملک میں بقول میرے محسن ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ایوب خان کے دور میں جب سیکولر تحریک جو جمہوریت کے نام سے شروع ہوئی نے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو تک پہچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں ذوالفقار علی بھٹو صرف پاکستان کے ہی نہیں دنیا بھر کے عظیم لیڈروں میں سے ایک تھے۔ جب کچھ قسمت کے لکھے اور کچھ اپنی غلطیوں کے بعد ان کو پھانسی دے دی گئی۔ تو ان کی پھانسی کے بعد کیا ان کے بیٹے یا بیٹیاں ہی لیڈر بننے کے اہل تھیں۔ باقی قربانیاں دینے والے کہاں گئے۔ چلو وہ بات تو کسی حد تک تسلیم کرنے والی کے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے آپ کو لیڈر ثابت کروایا۔ لیکن یہ کتنی ہی بری خیز دلیل ہے کہ آصف علی زرداری اس لیے لیڈر ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کا شوہر ہے اور اسی طرح بلاول زرداری اس لیے لیڈر ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے سبحان اللہ کیا ہی خوب صورت دلیل ہے۔ دل باغ باغ ہو جاتا ہے ایسی دلیلیں سن کے۔ یعنی ذرا سوچیں کہ بیرسٹر اعتزاز احسن جیسا قابل بندہ جو بھٹو صاحب کے دور سے میدان سیاست میں ہے جب بلاول پیدا بھی نہیں ہوا تھا جب وہ بلاول کے پیچھے ہاتھ بندھ کے کھڑے ہوتے تو میرے جیسے نادن بندے کے ذہن میں تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بلاول زرداری جس کی قابلیت صرف یہ ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے اس کے پیچھے سید یوسف رضا گیلانی، قمر زمان کائرہ، راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر جیسے قابل بندے جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین میں شامل ہیں کیسےغلام بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح نواز شریف نے بھی اپنے آپ کو ثابت کروایا اور اپنا ووٹ بینک بنایا چاہے پھر اس میں جنرل جیلانی یا جنرل ضیا الحق صاحب کی مدد شامل حال تھی۔ اور اسی طرح شہباز شریف بھی کم از کم عثمان بزدار سے تو بہت حد تک کامیاب وزیراعلی ثابت ہوئے پھر چاہے کرپشن کے الزامات میں پھنسے ہیں اور ان میں کسی حد تک صداقت بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ان کے بعد مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قابلیت صرف یہ ہے کہ یہ ان کے گھر پیدا ہوئے ہیں مریم نوازشریف کے بعد جنید صفدر تیار ہو جائیں گے لیڈرشیپ کے لیے جبکہ جاوید ہاشمی اور راجہ ظفرالحق صاحب جیسے بہترین لیڈرز خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف سمیت سب بڑے مریم نوازشریف کے بعد جنید صفدر کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گئے۔ یہ جمہوریت پھر تو ان چند خاندانوں کو ہی راس آئی۔
باقی ہر طرف نظر دوڑایں ہر طرف معاملات اس جیسے ہی ہیں۔ جےیوآئی کو دیکھ لیں مولانا مفتی محمود صاحب کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا اسد محمود تیار ہیں۔ اے این پی کو دیکھیں باچا خان کے بعد خان عبدلوالی خان ان کے بعد اسفندیار ولی خان اور اب ایمل ولی خان تیار ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی میں اصل جمہوریت ہے مولانا مودودی، میاں طفیل احمد، قاضی حسین احمد اور اب سراج الحق ان میں موروثی سیاست کا عنصر باقی جاعتوں سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔
پاکستانی سیاست پر شروع سے ہی چند خاندان ہی مسلط رہے ہیں۔ اور وہ چند خاندان ہر دفعہ اپنی فاداریاں ہوا کے رخ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جنہیں آپ الیکٹیبلز کہتے ہیں۔ یہ ملک چند سیاست دانوں بلکہ چند خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے۔
میں بنیادی طور پر اس نظریہ کے بہت خلاف ہوں جو موروثی سیاست کو جنم دیتا ہے۔ یعنی باپ کے بعد بیٹا اور پھر اس کا بیٹا ہی لیڈر بنے گا پھر چاہے وہ لیڈر بننے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ سب کو اسے لیڈر ماننا ہو گا یہ کیا ہی بے ہودہ طریقہ کار ہے کیا اس طرح لیڈر بنا کرتے ہیں۔ اسے مسلط کرنا کہتے ہیں جو ہر بار کسی نا کسی صورت میں کر دیا جاتا ہے۔
اور عوام تو پیدا ہی ان جاگیرداروں کے بیٹوں کے حق میں نعرے مارنے کےلیے ہے۔ اپنے اوپر خود ساختہ لیڈرز مسلط کرنے میں عوام کا سب سے زیادہ کردار ہے۔ ابھی وہ صحیح طریقے سے بول نہیں سکتا اور عوام اس کے حق میں نعرے مار مار کر اپنے گلے خراب کر لیتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ عوام کیا کرے وہ بچاری بھی ایک بریانی کی پلیٹ کی خاطر یہ سب کرنے کو مجبور ہے۔
اس ملک میں بھی ایک ایرأنی انقلاب کی ضرورت ہے ناجانے وہ انقلاب کب اور کون اس ملک میں لے کر آئے گا۔ لیکن اگر یہ سوچتے رہے اور کوئی مسیحا تلاش کرتے رہے تو پھر تو انقلاب آنے سے رہا۔ سب سے اہم چیز نوجوانوں کو اس نظام کی تبدیلی اور میدان سیاست کی طرف توجہ دینا ہو گئی کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی اور اس میں تبدیلی کا سب سے زیادہ انحصار اس قوم کے نوجوانوں پر ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے ایک کتاب لکھی " سچ تو یہ ہے " اس کتاب کی رونمائی کے لیے ایک تقریب ہوئی جس میں موجودہ وزیر داخلہ جو اس وقت اپوزیشن میں میں تھے جناب شیخ رشید احمد نے بھی بطور مہان خصوصی شرکت کی اس تقریب میں خطاب کے دوران شیخ صاحب نے ایک بڑی معنی خیز بات کی کہ سارے سیاست دان پینسٹھ سال سے تجاوز کرتے جا رہے ہیں اور کوئی بڑا سٹوڈینٹ لیڈر پیدا نہیں ہو رہا۔ یہ بات غور کرنے کے قابل ہے۔
لہذا نوجوان طبقے کو بجائے سیاست سے نفرت کرنے کے (جو آجکل کے زیادہ تر نوجوان کرتے ہیں) اس میں دلچسپی ظاہر کرنی چاہئے اور بقول حسن نثار صاحب کے اس نظام کو تیزاب سے نہلانا ہو گا اور یہ کام نوجوان طبقہ ہی بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔ اس لیے اس نظام کی تبدیلی کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا اور اپنی توانائی اس ملک کے لیے صرف کرنی ہو گی تب جا کے ہی اس نظام کی تبدیلی کسی حد تک ممکن ہو گی۔
مالک کریم اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺ کے صدقے اس ملک کا حامی و ناصر ہو (امین)۔