Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Infiradi Tabdeeli Aur Quran e Pak

Infiradi Tabdeeli Aur Quran e Pak

انفرادی تبدیلی اور قرآن پاک

"بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔"

قرآن کریم کے مطابق تاریخ کو رخ دینے والا بنی نو انسان بذاتِ خود ہے۔ پہلے انسان کی تخلیق کے ساتھ شروع ہونے والے الہی قوانین اور اصولوں کے منافی برتاؤ کرنے کی خواہش بعد کے ادوار میں اضافے کے ساتھ اپنےوجود کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ در اصل ماضی سے لیکر براہ راست اللہ تعالی کے وضع کردہ اصولوں اور بشری قوانین میں انتہا پسندی، ظلم و ستم اور دیگر برائیوں کی ممانعت لائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید اور حضرت محمد ﷺ کے ارشادات کے لحاظ سے جائزہ لینے سے اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو بلا کسی قائد کے اپنے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا گیا ہے۔ غیظ و غضب پر مصر ہونے والے معاشروں کے وجود کو منفی چیزوں کو نظر انداز نہ کرنے کی حدکو پار کرنے پر مختلف وسیلوں اور عذابوں کے ذریعے ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔

مولانا ظفر علی خان کا شعر جسے اکثر لوگ علامہ صاحب سے منسوب کرتے ہیں کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

کسی بھی قوم کی اجتمائی تبدیلی کا انحصار اس کے افراد کی انفرادی تبدیلی پر ہوتا۔ جب تک انفرادی تبدیلی عمل میں نہ آئے اجتمائی تبدیلی کا تصور ہی بے سود ہے۔ کوئی حکمران چاہے کتنا ہی صاف شفاف کیوں نہ ہو قوم کو تبدیلی سے ہمکنار کرنے میں اسے سب سے پہلے ہر ایک کی انفرادی تبدیلی درکار ہوتی ہے۔ دوسروں پر تنقید کے تیر چلانا بہت آسان عمل ہے اور اپنا گریبان جھانکنا اس قدر ہی مشکل۔ قوموں کی تقدیریں انفرادی تبدیلی سے بدلتی ہیں۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ جب تک ایک دودھ فروخت کرنے والا اس میں پانی ڈالنے سے، ایک دکاندار ناپ تول میں بے ایمانی کرنے نیز ہر سطح پر ہونے والی ناانصافی سے اگر ہم باز نہیں آئیں گے تو یہ تصور کرنا کہ ہمارے حکمران کرپشن نہیں کریں گے اور بیرون ملک جائیدادیں نہیں بنائیں بے سود ہے کیونکہ یہ تو ہمارے ساتھ وعدہ کیا جا چکا کہ جس طرح کی عوام ہو گی ان پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط کیے جاہیں گے۔

انقلاب کے لیے حقیقی طور پر قوم تیار ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس میں انفرادی تبدیلی کا جذبہ عملی طور پر عروج پر ہوتا ہے۔ انفرادی تبدیلی کی سب سے پہلی اور لازمی شرط اسلام کے ساتھ منسلک ہونا ہے۔ ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہماری اسلام سے دوری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم سے زیادہ مغرب اسلام کے اصولوں سے سبق سیکھ کر اور انھیں اپنا رنگ دے کر پوری دنیا پر حکمرانی کرنے اور سب پر سبقت لے جانے میں ماہر بنا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ ہماری تعلیم و مطالعہ اور غور و فکر سے دوری ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مغرب ہمارا علمی سرمایہ چُرا کر دنیا پر راج کرنے لگا اور ہم ان چیزوں سے دور ہو کر تنزلی اپنے مقدر میں لکھتے رہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال کا ایک مشہور شعر بھی ہے کہ

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سِیپارا

مسلمانوں نے 10ویں صدی سے 14ویں صدی عیسوی تک کم و بیش پوری دُنیا پر حُکمرانی کی۔ تب یورپ تاریکی میں ڈُوبا ہوا تھا، جب کہ بغداد، قرطبہ، صقلیہ اور وسطی ایشیا میں علم و حکمت کے چراغ روشن تھے۔ اس عرصے میں مسلمان سائنس دانوں نے علمِ فلکیات، ریاضی اور فلسفے سمیت دیگر علوم پر لاتعداد کُتب تصنیف کیں، جن کا پہلے ہسپانوی زبان میں، پھر فرانسیسی اور تقریباً ایک سو سال بعد انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ دراصل، بغداد اور ہسپانیہ کی جامعات میں آنے والے یورپی طلبا واپسی پر ان کُتب کے اصل مسوّدات، قلمی نُسخے، مخطوطات اور نقول اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور جب مسلمانوں پر زوال آیا، تو اس علمی و ادبی لوٹ مار کا سلسلہ دراز ہو گیا، جو مختلف صُورتوں میں آج بھی جاری ہے۔ تاہم، علمی سرمائے کی یورپ منتقلی کے مسلمان خود بھی ذمّے دار ہیں۔ برِ صغیر کے کئی علمی و ادبی گھرانوں میں نادر قلمی نُسخے، مسوّدات اور کُتب موجود تھیں، لیکن سربراہِ خانہ کے انتقال کے بعد نئی نسل نے ان میں کوئی دل چسپی نہ لی جو زوال کا سورج نکلنے کی بنیاد تھی۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

انفرادی تبدیلی کا سب سے اہم مقولہ اللہ تعالٰی کے پاک کلام قرآن کریم کا مطالعہ ہے۔ وہ کلام جس میں ہر علم موجود ہے جو انسان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل کر دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ غوروفکر سے اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی تفسیر کو سمجھا جائے تو یقیناً اس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔

اپنے خیالات کو بدل ڈالیں، بلکہ ایسا کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ صرف اعلیٰ خیالات ہی سوچیں، کیونکہ آپ کے خیالات آپ کے عقیدے کی بْنیاد ہیں اور عقیدہ بہت ہی ضروری چیز ہے، اس کا تعلق آپ کے لاشعور سے ہوتا ہے، مثلاً آپ کو ایک رنگ بہت پسند ہوگا اور دوسرا بالکل بْرا معلوم ہوتا ہوگا لیکن اس کی وجہ آپ نہیں جانتے لیکن اگر اپنی ابتدائی یادداشت میں جائیں تو آپ کو معلوم ہوسکے گا کہ یہ رنگ پہلی دفعہ آپ کو کیوں پسند آیا تھا۔ یہ بہت ہی معمولی سی مثال ہے، آپ نے اپنے بارے میں ایک نظریہ اور عقیدہ قائم کیا ہوا ہے مثلاً میں پڑھائی میں کمزور ہوں یا مْجھے ریاضی کا مضمون بالکل نہیں پسند، آپ کا عقیدہ آپ کے لیئے احکامات کا درجہ رکھتاہے، اب اگر آپ ریاضی پڑھنے کی کوشش بھی کریں گے تو آپ کے اندر سے آواز آئے گی کہ میں نہیں پڑھ سکتا، جو چیز مْجھے پسند نہیں آخر میں وہ کر بھی کیوں سکتا ہوں ۔

ہمیں اپنے اندر انفرادی تبدیلی لانا ہو گی اور درست سمت کا تعین کرنا ہو گا کیونکہ یہ کسی بھی قوم کے عروج کے لیے لازمی شراط میں سے ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں اسلام کو اپنے اوپر اصولی طور پر رائج کرنا ہو گا تب ہی کہیں ہماری بقا ممکن ہے۔اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کے صدقے اس ملک و قوم پر اپنا مزید کرم فرمائے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq