Gham e Hussain (2)
غم حسینؓ (2)
مسلم بن عقیل نے وہاں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا اور حالات کو موافق محسوس کیا اور کیوں نہ کرتے کہ ان کے پہنچتے ہی کوفیوں نے جوش عقیدت کا اظہار کیا اور گروہ در گروہ تقریبا اٹھارہ ہزار آدمیوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت حسینؓ کی خلافت وامامت کی بیعت کرلی، ان حالات اور جوش عقیدت کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے حالات کے موافق ہونے کی اطلاع حضرت حسین کو دی۔ لیکن افسوس کہ یہ جوش عقیدت پائیدار ثابت نہ ہوسکا، اور حالات کے بدلنے میں بھی کوئی زیادہ وقت نہ لگا، اور ساتھ ہی کوفہ کے بااعتماد لوگوں کے اعتماد نے بھی بہت ہی جلد اپنی حقیقت اور اپنی بے بسی کو ظاہر کردیا، چناں چہ ادھر جبکہ اہل کوفہ کی تائید میں حضرت مسلم بن عقیل کا خط روانہ ہوا، کوفہ کے حالات حضرت مسلم بن عقیل کے لئے ناموافق ہوگئے اور جن لوگوں کے اعتماد پر یہاں آئے تھے ان کے وعدوں اور ان کی باتوں کا ان حالات نے کھوکھلا پن بھی ظاہر کردیا، تاریخ کربلا کا یہ انتہائی تعجب خیزموڑہے کہ کوفہ کے وہ لوگ جو پہلے بہت جوش وخروش کا مظاہرہ کررہے تھے، اب جب کوفی ارباب اقتدار کی جانب سے انتباہ اور وارننگ سنائی گئ تو مسلم بن عقیل جو اصرار اور فرمائش کے بعد آئے تھے ایک بے کس اور اجنبی کی طرح اپنی جائے پناہ کی تلاش پر مجبور ہوگئے اور اپنے میزبان مختار بن ابی عبید کے گھرسے بے یار ومدد گار ہانی بن عروہ کے مکان منتقل ہوگئے۔
مسلم بن عقیل کی اس بے بسی سے کوفیوں کی بےوفائی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا اور حضرت حسین ؓ کو ان حالات سے مطلع کرکے سفر سے روکا جاسکتا تھا، لیکن قضاء الہی میں کچھ اور ہی لکھا تھا، اس لئے ان حالات کی حضرت حسین ؓ کواطلاع نہ ہوسکی اورحضرت مسلم بن عقیل نے دشمنوں کی گرفت میں آکر جام شہادت نوش کرلیا، ادھر حضرت حسین ؓ نے شہید حق حضرت مسلم کی تائیدی تحریر کو پاکراپنے پورے کنبہ کے ساتھ سوئے کوفہ رخت سفر باندھ لیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ سفر کا آغاز اور حضرت مسلم کی گرفتاری کا واقعہ ایک ہی دن یعنی۸؍ذی الحجہ کو پیش آیااور دوسرے دن حضرت مسلم کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔ حضرت حسین ؓ کو اس کا پتہ راستہ کی کافی منزلیں طے کرنے کے بعد چلا، اس پر آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا، مگر برادران مسلم کے جذبات انتقام آڑے آگئے، جو یہ چاہتے تھے کہ یا توبدلہ لیں یا مرجائیں، چناں چہ آپ سفر جاری رکھنے پر مجبور ہو گئے اور پھر دوسری بار جب آپ نے یہی ارادہ کوفہ سے کچھ قریب پہنچ کر اس وقت کیا جب آپ کو اس بات کی مزید شہادت ملی کہ کوفہ پوری طرح حاکم کوفہ عبد اللہ بن زیاد کی گرفت میں ہے اور آپ صرف گرفتار ہوکر ہی اندر جاسکتے ہیں، تب واپسی کے لئے کوئی گنجائش اور کوئی راہ باقی نہیں رہی تھی، آپ کی گرفتاری کے لئے فوجی دستے حرکت میں آچکے تھے، آپ نے اس وقت فوری طور پرایک غیر معمولی فیصلہ کیا، یعنی اپنا رخ یزید کے دار الخلافہ دمشق کی طرف موڑدیا، مگر ان فوجی دستوں نے پیچھا کرکے آپ کو جلد ہی رک جانے پر مجبو رکردیا، جو ابن زیاد کے حکم کی تابعداری میں یہ چاہتے تھے کہ آپ کوفہ چلیں، یہی " کربلا"کے نام سے موسوم وہ جگہ ہے جہاں آپ کو قدم روک لینے پڑے اور جو آپ کی جائے شہادت بنی۔
کربلا میں بے بس مسافروں کے قافلہ کوابن زیاد کے فوجی دستوں نے گھیر رکھا تھا، دونوں جماعتوں کے مابین صلح ومصالحت کی باتیں ہوتی رہیں، فوجی دستوں کے سردار عمر بن سعدؓ بن ابی وقاص جن کے بارے میں روایتیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ان کے دل میں حضرت حسینؓ کے لئے نہایت نرم گوشہ تھا، انہوں نے اندھا دھند کوئی کارروائی کرنے کے بجائے معاملے کو پرامن طریقے سے سلجھانے کی کوشش میں حضرت حسینؓ سے رابطہ قائم کیا اور آپ کی طرف سے یہ خواہش سامنے آنے پر کہ آپ کی تین باتوں میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔ 1:اپنے وطن واپس ہونے دیا جائے.2: یزید کے پاس چلا جانے دیا جائے یا لے چلا جائے.3:کسی مملکت کی سرحد پر بھیج دیاجائے جہاں آپ مقیم ہو جائیں اور جہادی مہمات میں حصہ لے کر عمر گذاریں۔ عمر بن سعد نے ابن زیاد (حاکم کوفہ) کو اس کی اطلاع اس طور سے بھیجی کہ جیسے یہ ایک نہایت عمدہ اور قابل قبول بات ہو، روایتوں کے مطابق ابن زیاد کو بھی اس صورت حال سے خوشی ہوئی، مگر شمر جیسے مشیران نے اس کی رائے پلٹ دی، بلکہ عمرو بن سعد سے بھی اس کو کچھ بدگمان کردیا جس کے نتیجے میں شمر ہی کو بھیجا گیا کہ وہ عمر سے اصل حکم کی تعمیل کرائے۔ یعنی مفاہمت سے یاطاقت سے، جس طرح بھی ممکن ہو امام عالی مقام امام حسینؓ اور ان کے ہمراہیوں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے کوفہ لایا جائے اور یہی چیز اس قتل و قتال کا موجب بن گئی۔ ابن زیاد نے حضرت حسین ؓ کی ان تین مصالحتی نکات کا یہ جواب دیا کہ اس طرح بات نہیں بنے گی، پہلے انہیں میرے ہاتھ میں ہاتھ رکھنا ہوگااور بیعت کرنی ہو گی۔
اب سوائے جنگ کے کوئی اور راستہ نہ تھا، اس موقع پر جب کہ صورت حال مزید سنگین ہوتی جارہی تھی۔ تاہم آپ نے تمام حجت کے لئے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے لوگو اذرا ٹھہرو، میری بات سنو، میں اپنی ذمہ داری پوری کردوں، اگر تم نے میری بات سن کر میرے ساتھ انصاف کیا تو تم سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں، لیکن اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی، معاملہ کا ہر پہلو تمہارے سامنے ہے اور تمہیں اختیار ہے کہ جو چاہو کرواور میرے ساتھ کوئی کسر نہ اٹھارکھو اللہ میرا مددگار ہے"
آپؓ نے اپنی اس تقریر میں اپنا مقام ومرتبہ اور نبی اکرم ﷺ سے اپنی قربت اور آپ ﷺ کی آپ سے محبت کا بھی تذکرہ کیا اور جنگ بندی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے آپ نے ان سرداران کوفہ سے جنہوں نے آپ کو خطوط بھیجے تھے، مخاطب ہو کر کہاکہ کیا تم لوگوں نے مجھے نہیں بلایا ہے؟ تم نے مجھے ضرور بلایا ہے لیکن اگر اب تمہیں میری آمد ناپسند ہے تو مجھے اپنی پناہ کی جگہ واپس جانے دو، آپ کی اس تقریر سے اتنا تو ضرور ہوا کہ ابن زیاد کے فوجی دستہ میں شامل حر بن یزید حنظلی نے مداخل کرتے ہوئے فوجیوں کی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا: "بخدا یہ بات اگر تم سے ترک اور دیلم (کے کافر)بھی مانگتے تو ان کا سوال رد کرنا تمہارے لئے روانہ ہوتا"
او ر یہ کہہ کر وہ فوجی دستہ سے نکل کر قافلہ حسینی میں شامل ہوگئے اورانہوں نے حضرت حسینؓ کے پاس آکر اپنی معافی کی درخواست کرتے ہوئے کہا: "اے فرزند رسول اللہ ا میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سب سے پہلے آپ کو روکا، مگر مجھے خبر نہ تھی کہ میری قوم بدبختی کی اس حد تک پہنچ جائے گی، اور جنگ کے سوا کوئی مناسب تجویز کو قبول نہ کرے گی، اب میں آٖ پ کے قدموں میں حاضر ہوں اور جب تک جسم کا جان سے تعلق ہے آپ کا حق رفاقت ادا کروں گا "
بالآخر جنگ جو ہونی تھی ہو کر رہی اور حضرت حسین ؓ اور ان کے قافلہ میں شامل افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ اس جنگ کے واقعہ میں بے بنیاد باتوں کا اتنا زیادہ اضافہ کردا گیا ہے کہ میدان جنگ کے واقعات میں سے صحیح اور غیر صحیح کا امتیاز مشکل بن گیا ہے اور ان تمام واقعات کو ماننے میں یہ رکاوٹ پیش آتی ہے کہ ایک واقعہ دوسرے واقعہ سے ٹکڑاتا ہوانظر آتا ہے، اس لئے بس یہ کہہ لیا جائے کہ ابتدائی مصالحتی کوششوں کی ناکامی نے جنگ کا ماحول پیدا کردیا اور۱۰؍محرم ۶۱ ہجری جمعہ کو جنگ ہوئی اور قافلہ حسین ؓ کے مجاہدین حق نے ایک ایک کرکے اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواسہ رسول اور ترجمان حق کے دفاع کے لئے خود کو پیش کرکے جام شہادت نوش کیا اور بالآخر نواسہ رسولﷺ پر بھی دشمنوں نے حملہ کرکے شہید کردیا نواسہ رسولﷺ اس وقت بھی قرآن کی تلاوت کر رہے تھے پھر آپ کی گردن کو آپ کے تن مبارک سے جدا کرکے یزید کے دربار میں پیش کیا اور اس قافلہ کی خواتین ِپردہ شعار کو دربار خلافت میں پہنچا دیا گیا۔
شہادت کی اس عظیم داستان حادثہ کبری کے دوسرے دن غاضریہ کے لوگوں نے نماز جنازہ ادا کرکے شہداء کی لاشوں کو اسی میدان میں سپرد لحد کیا غور کریں اگر نواسہ رسولﷺ اس لعنتی ظالم یزید کی بیت کر لیتے تو یہ جنگ پیش ہی نہ آتی لیکن امام عالی مقام ؓنے جنگ کو گوارہ کرکے اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہ ڈالا، درحقیقت حضرت حسین ؓنے اس کے ذریعہ اپنے بعد والوں کوایک سبق دیا کہ باطل کی تائید نہ کرنا ہی اسوۂ حسینی ہے، ماتم کرکے اس اسوہ کو زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ باطل کی مخالفت کرکے اسے زندہ کیا جاسکتا ہے۔ امام عالی مقام امام حسین ؓ اور اہلبیت نے تو اپنا کام کر دیا اب ہمارا کام ہے ان کی سنت پر عمل کرنا اور وقت کے یزیدوں اور شیطانوں کا مقابلہ کرنا۔