1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Gham e Hussain (1)

Gham e Hussain (1)

غم حسینؓ (1)

غریب و سادہ و رنگیِں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعِیلؑ

محرم الحرام کا مہینہ ہر سال واقعہ کربلا کی عظیم داستان کو تازہ کرتا ہے اور حق و باطل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ تاریخ کا ایسا واقع جو کسی اور نبی کی اولاد کے ساتھ پیش نہیں آیا کہ ان کے پردہ فرمانے کے پچاس سال بعد ان کی اولاد کو شہید کر دیا گیا ہو۔ اور پھر شہید کرنے والے بھی خود کو مسلمان کہتے ہوں اور اسی نبی کے امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں اور ان ہی کی اولاد کو شہید کر دیں۔ یہ ایسا دردناک واقعہ ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

اس واقعہ سے بہت سے سبق ملتے ہیں لیکن سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ اگر اللہ کے نام پہ آپ کو اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے تو پیچھے نہ ہٹو۔ اللہ نے اپنے سب سے پیارے نبیﷺ کے نواسے امام حسینؓ سے امتحان لیا اور امام عالی مقام اس میں کامیاب رہے اور ناناﷺ کے دین کے لیے اپنا سر کٹوا دیا اور اپنی اولاد اللہ کے نام پر قربان کر دی۔ ذرا سوچیں کے چھ ماہ کے شہزادے علی اصغر تک کو قربان کر دینا کیسے ممکن ہوا۔؟ یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو امام عالی مقام نے دی۔ اور اپنے ناناﷺ کے دین کو زندہ کیا۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

جب بھی محرم الحرم آتا ہے سب کے درمیان فرقہ واریت کی ایک بحث شروع ہو جاتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کے بجائے مل کر غم حسینؓ منانے کے ہم آپس میں ہی دست وگریباں ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس بحث میں پڑنے کے کہ فلاں غلط اور فلاں صحیح ہے کیا ہمیں امام عالی مقام کے نقش قدم پہ نہیں چلنا چاہیے؟

کیا ہمیں پانچ وقت کا نمازی نہیں بننا چاہئے جو سبق میدان جنگ میں بھی امام عالی مقام امام حسینؓ نے نماز ادا کر کے ہمیں دیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وہاں امام حسینؓ نماز نا بھی ادا کرتے تو وہ اللہ کے دین کے لیے جنگ لڑ رہے تھے اور دین کی حفاظت کر رہے تھے اگر اس موقع پر ان کی نماز رہ بھی جاتی تو کوئی گناہ تو نا تھا۔ لیکن نہیں انہوں نے اپنے ناناﷺ کی امت کو پیغام دینا تھا کہ تم جس حالت میں بھی ہو نماز کبھی ترک نا کرنا۔ اور آج کے معاشرے میں اس قدر بےحسی ہے آذان سن کر فضول کاموں میں لگے رہیں گے جو آخرت میں کوئی فائدہ نا دیں گے مگر نماز پڑھنے کی توفیق نا ہو گئی۔ اور پھر نعرے ہم امام حسینؓ کے لگاتے ہیں نعروں سے کیا ہو گا؟ قیامت کے دن نعرے نہیں نماز کام آئے گی۔ آپﷺ نے فرمایا: " نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے "

غم حسینؓ منانا تو سنت رسولﷺ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اپنی زندگی میں ہی یہ خبر مل گئی تھی کہ میرے نواسے کےساتھ میرے بعد کیا ہو گا اور اسے میرے امتی شہید کریں گے۔

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ امام حسینؓ کو گود میں اٹھائے رو رہے تھے اس وقت امام عالی مقام امام حسینؓ کی عمر تین چار سال ہو گی۔ تو کسی نے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ آپ کو کس نے غمگین کیا تو فرمایا جبرائیل تشریف لائے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کے اس نواسے کو آپ کی امت ہی شہید کرے گی اور میری خواہش پر انھوں نے کربلا کی سرخ مٹی مجھے دیکھائی جس کی وجہ سے میں غمگین ہوں۔

آپ ﷺ اپنے نواسوں سے بے پناہ پیار کرتے تھے بخاری و مسلم میں حدیث ہے آپ ﷺ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو اس سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا۔

حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی خلافت کے آغاز ہی سے مسلمانوں میں جو خانہ جنگی پیدا ہوگئی، اس کا خاتمہ حضور اکرمﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق حضرت علی کے جانشین حضرت حسنؓ کے ہاتھوں ہوا، حضور اکرم ﷺ نے اپنے ہردلعزیز نواسہ کے بارے میں یہ بشارت سنائی تھی:"میرا یہ بیٹا سردار ہے امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے"۔

چناں چہ حضرت علی ؓکے بعد جب خلافت کے مسئلہ میں اختلاف ہوا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ کے سپرد کرکے خود کو اس نزاع سے دست بردار کرلیا، تاریخ اسلامی کا یہی وہ سال ہے جسے "عام الجماعۃ" (اجتماعیت واپس آجانے کا سال)کہا گیا۔

حضرت حسن ؓنے اختلاف ختم کرنے کے لئے گرچہ خود کو دستبردار کرکے حضرت امیر معاویہ کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی، لیکن حضرت امام حسنؓ کے چھوٹے بھائی حضرت امام حسینؓ اس فیصلے سے راضی نہ تھے، پھر بھی اپنے بھائی کے اس فیصلے کا احترام کرتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ تعلقات بہتر ہوتے گئے۔ لیکن اختلاف پھر اس وقت پیدا ہوگیا جب حضرت امیر معاویہ نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے کسی کو اپنا جانشین بنانا چاہا اور اس کے لئے اپنے بیٹے یزید کو موزوں قرادیا، چناچہ یزید کی جانشینی پر بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا، جن میں حضرت حسینؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے فرزند حضرت عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سر فہرست ہیں۔

ان حضرات کا اختلاف عہدہ طلبی یا کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے یہ نیک خیال کار فرما تھا کہ باپ کا اپنے بعد اپنے بیٹے کو عہدۂ خلافت پر فائز کرنا اسلامی خلافت کا دستور نہیں ہے بلکہ شاہی طرز حکومت کا دستور ہے، جس میں رعایا کو کوئی اختیار نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک خاندان کے ماتحت رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم وشدت کو برداشت کرنا ہی ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نیز ان حضرات کے پیش نظر یہ بات تھی کے ابھی جبکہ جلیل القد ر صحابہ کرامؓ موجود ہیں ان کی موجودگی میں ان ہی میں سے کوئی منصب خلافت کے لئے موزوں ہوسکتا ہے، ان کی موجودگی میں ایک نوعمر اور جواں سال انسان جو کہ صحابی بھی نہیں کیسے خلیفہ بن سکتا ہے؟ گویا یہ اختلاف ایک اصولی اور اخلاص پر مبنی اختلاف تھا، جس کا مقصد حق کی ترجیح اور عہدۂ خلافت کی عظمت و اہمیت کا تحفظ تھا۔

بہر حال چند بزرگوں کی جانب سے اختلاف کے باجود عمومی اتفاق کے ساتھ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد اور جانشیں مقر کردیا، جن لوگوں کو اس کی جانشینی سے اختلاف تھا وہ اپنے اختلاف اور اس کی ولی عہدی کو قبول کرنے سے انکار پر قائم رہے، بالآخر حضرت امیر معاویہ کی وفات ہوگئی۔ یہی وہ اختلاف تھا جس سے واقعہ کربلا کی داغ بیل پڑی اور جو اس المناک حادثہ کا سبب بنا، اس میں کوفہ کے لوگوں نے بھی اپنی تلون مزاجی کا ثبوت خوب پیش کیا اور قابل حل مسئلہ کو میدان جنگ تک لانے میں کافی اہم کردار اداکیا، کوفہ چونکہ حضرت علیؓ کا دارالخلافہ تھا، اس لئے حضرت حسینؓ سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگ کوفہ میں موجود تھے۔

یزید ملعون نے اپنے والد کی وفات کے بعد خلافت ہاتھ میں لے کر حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ مدینہ کے اہم لوگوں بالخصوص حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت حسین ؓ سے بیعت لی جائے اور ان سے یزید کی خلافت تسلیم کروائی جائے، مدینہ کے حاکم نے اپنے احباب مشاورت سے مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں جلدی نہ کی جائے کیونکہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں، البتہ بقیہ دونوں حضرات سے جلد ازجلد اس مسئلہ کو حل کرلینا ضروری ہے، چناں چہ جب یہ بات ان حضرات کے سامنے آئی تو ان حضرات نے بیعت سے انکار کیااور اپنی حکمت عملی سے مدینہ سے مکہ پہنچ گئے۔

حضرت حسین ؓ اپنے پورے کنبہ کے ساتھ مکہ پہنچ گئے، حضرت حسینؓ اپنے پورے کنبہ کے ساتھ ۸؍ذی الحجہ تک مکہ میں ہی مقیم رہے، اس دوران اہل کوفہ کے متعدد وفود اور خطوط حضرت حسین کے پاس آئے جن میں حضرت حسین کو کوفہ آنے اور وہاں کے انتظام اور خلافت کو سنبھالنے کی دعوت اور درخواست تھی اور یہ یقین دلایا گیا تھا کہ سارا کوفہ آپ کے ساتھ ہے اور آپ کے آتے ہی اہل کوفہ یزید کی خلافت سے منہ موڑ کر آپ کی خلافت پر بیعت کرلیں گے۔

ایک طرف یہ دعوتی خطوط تھے تو دوسری جانب کوفہ اور اہل کوفہ کے حالات اور تلون مزاجی کے پیش نظر مخلصین کا مشورہ یہ تھا کہ ان خطوط پر اعتماد نہ کیا جائے اور کوفہ کی روانگی کا پروگرام نہ بنایا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن مطیع ؓ نے جوکہ ان دنوں مکہ ہی میں تھے، حضرت حسینؓ سے بصد ادب اور بڑی عاجزی سے کہا کہ ہر گز کوفہ کا رخ نہ کیجئے اور ان لوگوں کا کردار مت بھولئے۔ ان کے علاوہ حضر ت ابو سعید خدری، ؓ حضرت جابر بن عبد اللہ، ؓ حضرت واثلہ بن واقد اللیثی اور حضرت مسور بن مخرمہؓ نے بھی نہ جانے کا مشورہ دیا۔

لیکن دعوتی خطوط کے اصرار اور عہد وپیمان نے نیز حق کی اشاعت اور عہدۂ خلافت کے تحفظ کے "جذبۂ بے پناہ" نے ان حضرات کے مشوروں اور خواہشوں کو بے اثر کردیااور حضرت حسین ؓنے کوفہ روانگی کا فیصلہ کرلیاالبتہ آپ نے اپنے سفر سے پہلے اپنا ایک آدمی کوفہ بھیج کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ وہ لوگ اپنے خطوط میں لکھے ہوئے عہد وپیمان میں کس حد تک سچے ہیں، چناں چہ آپ نے اس کے لئے حضرت مسلم بن عقیل کو منتخب کرکے کوفہ روانہ کیا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Talaba O Talibat Ki Security Aur Amli Iqdamat

By Amirjan Haqqani