1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Dittay Vichon Dena

Dittay Vichon Dena

دتے وچوں دینا

کچھ بڑے لوگ ایسی وزن دار باتیں کہہ جاتے ہیں جو آپ کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے کافی ہوتی ہیں اور ان پر عمل کرنے سے آپ کی شخصیت میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو کہ متاثر کن ہوتی ہے۔

بابا جی اشفاق احمد مرحوم ایسے ہی بڑے لکھاری تھے کہ جن کے طرز تحریر کا جواب نہیں۔ بڑا لکھاری وہی ہوتا ہے جو آپ کو کم از کم اتنا شعور دے دے کہ آپ نے زندگی گزارتے وقت کن عوامل پر خاص توجہ دینی ہے۔ اور آپ کو کسی نا کسی احساس میں ضرور مبتلا کرے۔

اشفاق احمد مرحوم لکھتے ہیں کہ میں بابا جی کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ رکشہ سے اترے تو میں نے رکشہ والے کو کچھ پیسے دیے۔ اس کے کوئی تین روپے اسی پیسے بنتے تھے۔ میں نے اس کو چار روپے دے دیے۔ میں یہ سمجھا کہ میں نے بہت بڑا معرکہ مارا ہے تو بابا جی نے پوچھا، پت پیسے دے دیے؟ میں نے کہا دے دیے۔ کہنے لگے کتنے دیے؟ میں نے کہا چار روپے۔ تو کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا اس کے تین روپے پچاس پیسے یا اسی پیسے بنتے تھے میں نے اسے چار دے دیے۔ انہوں نے کہا نہیں پنج دے دینے سی۔ میں نے کہا پانچ؟ مجھے بڑا دھچکا لگا کہ پانچ کیوں دے دیتا۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے تسیں وی تاں"دتے وچوں دینے سی" تسیں کہڑے پلیوں دینے سی (خدا کے دیے ہوئے پیسوں سے دینے تھے کون سی اپنی جیب سے ادا کرنے تھے)۔ (اشفاق احمد زاویہ دیے سے دیا صفحہ 48)

کیا ہی بہترین تھیوری دی بابا جی نے غور کرنے والوں کے لیے بہت بڑی بات ہے بہت بڑی کہ ہم کون سا اپنے پاس سے کسی کو کچھ دیتے ہیں۔ یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے اور سب سے بڑی بات کہ کسی کی مدد کرنے کی توفیق بھی مالک کریم کی ذات پاک ہی بخشتی ہے یعنی اندزہ کریں آپ پر مالک کا کس قدر کرم ہے کہ ایک آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ کسی کے کام آسکیں اور پھر اس کی توفیق عطا کی۔ سوچیں آپ میں ایسا کیا ہے جو مالک کریم کی ذات پاک آپ پر اتنی مہربان ہے آپ کی اس میں کیا قابلیت؟ اگر وہ چاہتا تو آپ کو مانگنے والوں میں محتاجوں میں پیدا کر سکتا تھا آپ کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔ لہذا آپ تو جتنا شکر ادا کرتے رہیں کم ہے میاں کم ہے سوچیں غور کریں۔

یہ بنیادی طور پر بہت بڑا عمل ہے سوچنے اور غور کرنے سے اس کی اہمیت کا اندزہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ کسی کے لیے آسانی کا باعث بن سکیں یہ بہت بڑا عمل یقین مانے بہت بڑا۔

کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس جوگا بنایا ہے کہ آپ کسی کی مدد کر سکیں۔ انسان اگر سوچے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ کتنے مختصر وقفے کے لیے وہ اس دنیا میں آتا ہے اور اس مختصر وقفے میں وہ جتنے بھی اچھے عمل کرتا ہے وہی اس کا سرمایہ ہوتے ہیں اور آخرت کے لیے اس کی کمائی ہوتی ہے۔ کسی کی کچھ تھوڑی بہت مدد کرنے کے بعد جو ذہنی اطمینان اور سکون ملتا ہے اس کو تو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا اور یہ ہوتی بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہے دیکھا جائے تو مال بھی رب کا توفیق بھی رب کی طرف سے اور مدد بھی رب کی مخلوق کی انسان تو اس میں کوئی تیر نہیں مارتا۔

اشفاق احمد صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ بابا جی کی یہ تھیوری "دتے وچوں دینا" میں پہلے اپنے دوست ابن انشاء کو بتا چکا تھا اور اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گی تھی کوئی دو مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشاء جی کے دفتر ملنے پہنچا۔ انشا بیٹھا کام کر رہا ہے - ہم گپ لگا رہے ہیں۔ ادھر کی باتیں، ادھر کی باتیں بہت خوش۔ ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت خراب تھی، اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔ اس نے چھپانے کے لیےاپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا، آ کھڑی ہو گئی انشاء جی کے سامنے۔ اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا۔ پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا، پھر میز پر رکھا، پھر دراز کھولا۔

کہنے لگا بی بی! میرے پاس یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تم لے لو، پھر بعد میں بات کریں گے۔

کہنے لگی! بڑی مہربانی۔ وہ بچکی سی ہوگئی بیچاری، اور ڈر سی گئی، گھبرا سی گئی۔ اس نے کہا، بڑی مہربانی دے دیں۔ وہ لے کر چلی گئی۔ جب چلی گئی تو میں نے انشاء سے کہا، انشاء یہ کون تھی؟ کہنے لگا پتا نہیں۔ میں نے کہا، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی۔ تو تو نے تین سو روپے دے دیے تو اسے جانتا تک نہیں۔ کہنے لگا، نہیں میں اتنا ہی جانتا ہوں۔ یہ خط ہے۔ اس میں لکھا تھا۔

محترم انشا صاحب! میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں، اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں۔ اور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرے بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں۔ جس کا کرایا 160 روپے ہوگیا ہے، اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پهینک رہا ہے۔ اگر آپ مجھے 160 روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کر کے 10-10 کرکے اتار دونگی۔ میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔ میں نے کہا، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے 160 روپے مانگے تھے تو تو نے 300 سو دے دیے۔

کہنے لگا، میں نے بھی تو " دتوں میں سے دیا ہے، میں نے کونسا پلے سے دیا ہے"۔

اس کو بات سمجھ آ گئی تھی۔ یہ نصیبوں کی بات ہے، یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا، ڈکٹیشن لیتا تھا، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔ کہنے لگا، میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے۔ میں نے دے دیے۔

صرف اپنے لئے جینا کوئی کمال نہیں، کمال یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی سوچے، ان کا دکھ درد اپنے دل میں محسوس کرے اور اپنی بساط کے مطابق یا بعض مواقعوں پراپنی بساط سے بھی بڑھ کر دوسروں کی مدد کرے۔ دنیا میں جتنے بھی عظیم انسان گزرے ہیں ان میں یہ قدر مشترک تھی کہ وہ صرف اپنے لئے نہیں جئے بلکہ خود سے زیادہ دوسروں کی فکر کی، دوسروں کی بہتری اور بھلائی کیلئے جدوجہد کی، تکالیف اور مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں۔ اسی بنیا دپر وہ عظیم کہلائے اورتاریخ کاحصہ بن گئے۔

دنیا میں کروڑوں ایسے لوگ بھی گزرے ہوں گے جنہوں نے بہت مال ودولت کمائی ہوگی، اچھی اورخوشحال زندگی بسر کی ہوگی لیکن آج ان کانام ونشان باقی نہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے لئے جئے تھے، اس لئے مرنے کے بعد دنیا نے ان کوفراموش کرنے میں دیر نہیں کی۔ یہ فارمولا آج بھی روبہ عمل ہے اوررہتی دنیا تک روبہ عمل رہے گا۔ حضرت اقبال رح نے بھی کہا تھا کہ:

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

زندگی بہت مختصر ہے اس میں جتنا کسی کے کام آسکتے ہیں آئیں جتنی بھی کسی کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں کریں دوسروں کے کام آنا ان کے غموں میں شریک ہونا ہی اصل زندگی ہے کیونکہ آپ نے بھی تو دتے میں سے دینا ہے۔ لہذا اس تھیوری دتے وچوں دینا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں یہ آپ کی دنیا و آخرت کے لیے کافی ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Adalti Islahat Aur Mojooda Adliya

By Raheel Moavia