1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Aik Aur Jang

Aik Aur Jang

ایک اور جنگ

سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل یوکرین روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں۔ لیکن یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ سن 1654 میں روس اور یوکرین ایک معاہدے کے تحت زارِ روس کی سلطنت میں متحد ہوگئے تھے اور بعد میں یہ سوویت یونین میں بھی ساتھ رہے۔

اپنے ایک مضمون میں سابق سفارت کار بوہڈان وٹوٹسکی نے لکھا تھا کہ سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل، روسی سلطنت کے دور ہی سے یوکرین کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی کوششوں کو دبایا گیا۔ اس کے لیے یوکرین کی زبان پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔ وٹوٹسکی کے بقول یوکرین کی علیحدہ حیثیت کو تسلیم نہ کرنا وہ واحد نکتہ تھا جس پر روس میں انقلاب لانے والے اور ان کی مخالف روسی فوج دونوں یکساں مؤقف رکھتے تھے۔ روس میں انقلاب کے بعد 1920 سے 1930 کے دوران، سوویت آمر جوزف اسٹالن نے یوکرین کے علیحدہ ریاست بننے کے امکانات ختم کرنے کے لیے وہاں کے دانشوروں اور کسانوں کے خلاف دہشت گردی کی منظم کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔

سوویت دور کے آخری برسوں تک یوکرین کی علیحدہ حیثیت کے حامیوں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ رہیں۔ اس وجہ سے آزادی کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے اپنے روابط بڑھانا شروع کیے۔ نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد کا حصہ بنانا شروع کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین ایک بالادست قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اسی لیے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یورپی ممالک نے روس کے اثر سے نکلنے کے لیے نیٹو کا رُخ کرنا شروع کیا۔ یوکرین بھی ان ممالک میں شامل تھا۔

لیکن سوویت یونین میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔ یوکرین ایک کمزور معیشت ہے اور اس کی سیاست میں روس کے حامی اور مغربی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی حمایت کرنے والے گروہوں میں کشمکش جاری رہتی ہے۔ روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے یوکرین کے اس وقت کے صدر وکٹور یانوکووچ نے 2014 میں ماسکو سے تعلقات بڑھانے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں یانوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

علاقائی سیاست میں روس نے اسے اپنے لیے پسپائی تصور کیا اور اس کے ردِعمل میں 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کردیا۔ کرائمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں پیش قدمی شروع کر دی۔ یوکرین کے مشرقی صنعتی مرکز دونباس میں روس کے کئی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں اور وہاں ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ لڑائی میں شدت آنے کے بعد یوکرین کے مقابلے میں علیحدگی پسندوں کو پسپائی ہونے لگی تو روس نے ان کی مدد کے لیے مشرقی یوکرین پر حملہ کر دیا۔

جرمنی اور فرانس کی مصالحت سے 2015 میں یوکرین میں جنگ بندی ہوئی لیکن صورت حال کا کوئی سیاسی حل نہیں نکل سکا اور وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ گزشتہ برس کے دوران مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو گیا اور اس وقت جنگ کے خطرات منڈلانے لگے جب روس نے یوکرین کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کر دی۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کو مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں یوکرین میں ملٹری آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ انہوں نے اگر اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

روس نے گزشتہ برس کے آخر سے یوکرین کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے تھے جس کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے تواتر کے ساتھ کسی ممکنہ جارحیت کے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا البتہ ماضی میں روس یوکرین پر حملے کے عزائم سے انکار کرتا رہا۔ حالیہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی تھی جب دو روز قبل، روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی اور وہاں اپنی فوج داخل ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ان علاقوں میں امن قائم کرنے کو اس اقدام کا جواز بتایا تھا البتہ امریکہ نے اس جواز کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے اسے یوکرین پر حملے کا آغاز قرار دیا تھا۔ یوکرین اور روس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران یورپ میں سلامتی کا سنگین ترین بحران قرار دیا جارہا ہے۔ روس کے حالیہ اقدام کے بعد سلامتی کا یہ بحران مزید سنگین ہوگیا ہے البتہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعات کی تاریخ طویل ہے اور حالیہ بحران کی جڑیں بھی اسی تاریخی تناظر میں پیوست ہیں۔

امریکہ کا کردار اس ساری صورتحال میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بظاہر تو امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ کسی صورت دوسرں کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے مگر اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ امریکہ روس کی مخالفت میں یوکرین کا ساتھ دینے کے لیے اندرونی طور پر مکمل تیار رہے گی۔ لہٰذا میں تو یہ کہوں گا کہ یہ امریکہ اور روس کی جنگ ہی کہلائے گی۔

آخر میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ امریکہ اور روس کی اس جنگ میں جس طرح یوکرین اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح امریکہ اور چین کی جنگ میں پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہوگا۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed