Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (2)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (2)
جن لوگوں نے گلزار اور کیفی اعظمی کا غالب پر مشہور سیریل دیکھ رکھا ہے یا خواجہ حالی یا غلام رسول مہر کی غالب کی بائیو گرافی پڑھ رکھی ہے انہیں کچھ اندازہ ہو گا کہ استاد کے خرچوں اور آمدن کا بار کس قدر زیادہ تھا۔ آمدن کا بنیادی ذریعہ ایک خاندانی پینشن تھی (سو پشت سے پیشہ آبا سپہ گری والی) جس کا کیس کلکتے جانے کے باوجود ہار گئے (کلکتے کا بس یہی احسان رہے گا کہ استاد سے ہائے ہائے کی ردیف والی غزل لکھوا لی)۔
اس پہ مستزاد، استاد نے کام نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ ریزیڈنٹ بہادر نے فارسی معلم کے طور پر رکھنا چاہا تو اس لئے لوٹ آئے کہ انگریز استقبال کو نہیں آیا۔ ذوق کی وفات کے قریب تک مغل دربار میں نہیں گئے کہ دوسرے نمبر کی حیثیت قبول نہ تھی۔ روزانہ خوراک میں ڈھیروں بادام کی سردائی، بکرے کے سیر، دو سیر گوشت اور پاؤ بھر بادہ ناب (خانہ ساز) سے کم پر گزارا نہیں تھا۔ ملازم اور گھر کا خرچ الگ۔ تین سو کا خرچ اور آمدن ستائیس روپے۔
مزید برآں استاد چوسر اور شطرنج سے بھی شوق فرماتے اور اس میں پیسے لگانے کی نوبت آتی تو اس سے بھی نہ چوکتے۔ نادہند ہونے پر مقدمے بھی ہوئے اور قمار بازی پر قید بھی مگر مرزا نوشہ نے نہیں بدلنا تھا سو نہیں بدلے۔ قرضہ حد سے بڑھ گیا تو، کسی خیر خواہ کی کاوش سے سرکار دربار میں مؤرخ وغیرہ مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے نواب رامپور کا سو روپے کا وظیفہ روزگار کے مسائل وغیرہ حل کرتا رہا۔
غدر میں دو سال گویا گھر میں نظر بند رہے۔ بعد میں انگریز سرکار سے کچھ رقم ملنا شروع ہوئی۔ اسی نیم خوشحال اور نیم بدحال طریق سے 72 سال کی زندگی گزار کر، رخصت ہوئے۔ وہ اتنے عظیم لکھاری تھے کہ ضروری تھا کہ معاشرہ انہیں آلام روزگار سے محفوظ رکھتا اور کسی قدر ایسا ہوا بھی مگر استاد کی زندگی زیادہ تر ایسے ہی کاؤ کاؤ سخت جانی میں صبح کو شام کرتے گزری۔
پاکستان کی ریاست کے حالات دیکھیں تو وہی استاد والا معاملہ دکھتا ہے کہ کام بھی نہ کریں گے اور خرچ بھی کم نہیں کرنا۔ غالب تو پھر بے بدل شاعر تھے اور اس گاہ عشرت اور گاہ عسرت میں تا حشر دنیا میں رہنے والا دیوان لکھ گئے مگر ہماری اجتماعی زندگی میں استاد جیسے چلن کے باوجود کچھ بھی معرکہ آرا وجود میں نہیں آیا۔
جن اصحاب و خواتین کو معاشی اعداد سے کچھ رغبت ہے ان کے لئے عرض کئے دیتے ہیں جون 2022 کو اختتام پذیر ہونے والے سال میں ہمارے اخراجات کا کیا عالم رہا۔ صرف وفاقی حکومت پر نظر دوڑائیں تو اپنے ہی لوگوں (ڈیپازٹ) اور بینکوں کو 2777 ارب کا سود دیا اور بیرونی قرضوں پر 373 ارب کا (ہر چند کہ قرضوں کی بات پر ہمارا دھیان بیرونی قرضوں پر جاتا ہے)۔ یہ قرضے کئی سالوں میں ہماری حکومتوں نے ویسے ہی لئے جیسے غالب مہاجن اور کریانہ والے سے لیتے تھے کہ آمدن کم تھی اور خرچ پر سمجھوتہ ناممکن۔
آگے چلئے، سول پینشن پر 136 ارب اور فوجی پینشن پر 400 ارب کا خرچ۔ دنیا میں عمومی طور پر پینشن کسی فنڈ کی آمدن سے دی جاتی ہے جو ماہ بماہ دوران سروس اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسی اصل زر پر منافع سے پینشن کی ادائیگی ہوتی ہے۔ بہتر طبی اور غذائی حالات کی وجہ سے ہماری اوسط عمر بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ پینشن دینے کی ذمہ داری بھی۔
ضیا صاحب سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیوہ اور ان بیاہی بیٹیوں کی بھی پینشن مقرر کر گئے۔ یہ نہیں کہ حکومت کو اپنے ملازمین کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے مگر یہ تو ہو کہ اس ویلفیئر اور سوشل سیکورٹی کے لئے پیسوں اور آمدن کا کوئی بندوبست ہو۔ اگر ہم پینشن کا یہی نظام رکھنا چاہیں تو اس کے قریب 600 ارب کی فنڈنگ کے لئے کچھ نہیں تو کم از کم 3000 ارب روپے کا پینشن فنڈ چاہئے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
مگر مستقبل قریب میں پینشن کی مقدار اور طوالت میں کچھ کمی کے امکان پر باریک بینی سے سوچا جائے اور آج کے بعد آنے والے ملازمین اور چالیس سال سے کم عمر کے لوگوں کے لئے پینشن فنڈ میں ملازمین اور حکومت کی باہمی شراکت کا کچھ انتظام ہو۔ پچھلے دس سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اس سلسلے میں بہت سا theoretical کام ہو چکا مگر حتمی انصرام ابھی عمل پذیر ہونے سے کئی فیصلے پرے ہے۔
دفاع کا خرچ تو شاید ہماری جغرافیائی مجبوری ہے مگر وفاقی حکومت کا گئے سال میں 3100 ارب کا غیر ترقیاتی، غیر دفاعی اور غیر سودی خرچ mind boggling ہے۔ اس میں 530 ارب تو وفاقی حکومت کو چلانے کا خرچ ہے جس میں بڑا حصہ وفاقی ملازمین کی تنخواہ (ERE) وغیرہ ہے۔ سوچنا چاہئے کہ وفاق میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس تعداد میں ملازمین کی ضرورت ہے؟ کتنے ہی ڈویژن اور ذیلی ادارے اور کارپوریشنز ہیں جن کی شاید اب ضرورت نہ رہی ہو۔
کتنے ہی پروجیکٹ اور ادارے ایسے ہیں جہاں ابھی کام شروع بھی نہیں ہوا اور تنخواہ اور بلڈنگ کا کرایہ جاری ہو چکا ہے؟ لازم ہے کہ حکومت لوگوں کو بیروزگاری سے بچانے مگر یہ نہ ہو کہ چند ہزار یا لاکھ ملازمتیں بچاتے بچاتے ملک ہی دیوالیہ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے کہ اکتوبر 20 میں، ہماری ٹیم نے ایک رات میں پاکستان سٹیل مل کے آدھے (4500) ملازمین کو تمام واجبات کے ساتھ نوکری سے نکال کر بے تحاشا بد دعائیں سمیٹیں۔
معاملہ اب کورٹ میں ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ 2015 سے بند اس مل کے 9000 ملازمین کو قرض کے پیسوں سے کب تک تنخواہ، پینشن، ترقیاں اور گھر دئیے جا سکتے ہیں؟ بہت اچھا ہوتا اگر یہ مل منافع میں چل سکتی مگر اگر ایسا نہیں تو کب تک حکومت یہ ذمہ داری نبھاے اور کیسے؟ کہنے کو پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت اور مل کو منافع میں چلانے، زمین بیچ کر لوگوں کو پیسے دینے کی طرح کے بہت سے حل پیش کئے جاتے ہیں مگر، یقین مانئیے یہ سب کچھ بہت پیچیدہ اور مشکل ہے۔
یہی حال پی آئی اے، ریلوے اور سینکڑوں اداروں اور کمپنیوں کا ہے جہاں ہزاروں اور لاکھوں سرکاری اور نیم سرکاری ملازم ہر ماہ بغیر کوئی کام کئے تنخواہ بھی پاتے ہیں اور ترقی اور پینشن بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی رائٹ سائزنگ بے حد مشکل ہے اور اس پر طرہ یہ کہ قوانین اور عدالتی نظیریں سراسر ملازمین کے حق میں ہیں مگر یقین کیجئے اتنا خرچ اٹھانا نہ مرزا نوشہ کے بس میں تھا نہ مملکت خداداد کی دسترس میں۔
تنخواہوں کے علاوہ صرف وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں 1515 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دی۔ بجلی مہنگی خرید، بنا کر سستے داموں بیچی، فرق 1100 ارب۔ پٹرول مہنگا خریدا اور سستا بیچا، فرق 377 ارب۔ آٹا، چینی، دالیں، گھی فرق 66 ارب۔ قیامت ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹیکس آمدن میں سے وصولی ہو 2500 ارب کی اور مزید نان ٹیکس آمدن ہو 1300 ارب کی اور خرچوں میں 1500 ارب کی گرانٹ اور 1500 ارب سبسڈی میں عوام الناس کو دوبارہ واپس کئے جائیں۔
ملازمین کو 600 ارب تنخواہ میں دے دئے، پنشن میں مزید 600 ارب اور 300 ارب احساس، بینظیر، پروگرام میں۔ اگر یہ سب واپس ہی دینے تھے تو سوال یہ کہ اکٹھے ہی کیوں کئے؟
بقول شاعر۔
سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں۔
مزید دیکھئے گا۔ پار سال میں 1000 ارب روپے مزید اضافی گرانٹس کی شکل میں خرچ ہوئے جس میں 270 ارب روپے ان اداروں کے نادہندہ ہونے پر دینا پڑے جہاں حکومت نے ادائیگی کی ضمانت دے رکھی تھی (پی آئی اے، سٹیل مل، آئی پی پی اور بہت سی سرکاری کمپنیاں )۔ 104 ارب روپے اس لئے دینے پڑے کہ ابتدائی تخمینے میں پورے خرچ سے کم ہونے کی آرزو پوری نہ ہوئی۔
47 ارب ریلوے کو مزید دینا پڑے کہ قومی ادارہ ہے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مزید 110 ارب روپے چلے گئے اور احساس پروگرام میں بڑھتی مہنگائی کے کارن مزید 250 ارب۔ 65 ارب برآمد کنندگان کو ترغیب دینے کے لئے اور 30 ارب HEC کو چلے گئے اور چھوٹے چھوٹے بہت سے اداروں کو باقی روپے۔ ان اضافی خرچوں کا اثر ترقیاتی یا نئے بننے والے پراجیکٹس پر یوں آیا کہ 900 ارب کے تخمینے کے مقابلے میں 550 ارب ہی خرچ ہوا۔
مجھ سے پوچھیں تو ہمارا خرچ ہماری آمدن سے اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ناقابل برداشت قرض کے ہاتھوں ہمارا ریاستی وجود خطرے میں ہے۔ مگر ایک کے بعد دوسری حکومت ان مشکل فیصلوں سے گھبراتی ہے۔ میرا ڈرائیور کل کہہ رہا تھا میری تنخواہ 35000 ہے اور بجلی کا بل 17000 آیا ہے کدھر جاؤں؟ پوچھا اے سی، موٹر، استری اور فرج ہے؟ بولا ہے اور بچوں کی وجہ سے کنجوسی سے چلاتے ہیں۔
غور کریں تو مسئلہ وہی امداد کی رنگین زندگیوں کا ہے کہ ہمیں نوکری دے تو سرکار مع بعد از مرگ پینشن۔ بجلی کی قیمت نہ بڑھائی جائے۔ پٹرول سستا ملے اور اشیائے ضرورت بھلے درآمد کی جائیں مگر سب کو، مناسب قیمت میں دستیاب ہوں۔ پچھلے سال چینی برازیل سے منگوائی 120 روپے کلو اور بیچی 90 روپے کلو۔ پوریا کھاد منگوائی 7500 کی بوری اور بیچی 1800 روپے میں۔ وجہ ڈھونڈو تو میڈیا اور اپوزیشن کا ڈر اور کسی حد تک عوام کو پر امن رکھنے کی خواہش۔
یہ اعداد وشمار جو آپ کے سامنے رکھے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے معیشت پر سیاست اور میڈیا کا بیک لیش اور عوام کا غم و غصہ وہی ہے جو امداد کے دنوں کی حکومتوں میں بگڑے ہوئے طبقوں کا ہو سکتا ہے۔ درست ہے کہ حکومت بہت کچھ کر، سکتی ہے مگر یقین مانئے کسی بھی حکومت کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے جو ہم کر رہے ہیں، خاص کر اس حکومت کو جو لوگوں سے قومی آمدن کا صرف دس فیصد ٹیکسوں میں لیتی ہے۔
اس قرضوں کے گرداب سے نکلنا ہے تو سب کو سختی جھیلنی ہو گی۔ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیا کی قیمتوں میں کی حکومت کی جانب سے کمی کی امید کو توڑنا ہو گا۔ سرکاری نوکریوں، تنخواہوں اور پینشن پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ اس کے نتیجے میں ہم سب کی عمومی زندگی میں آسائش میں کمی ضرور آئے گی۔ شاید غریب اور لوئر مڈل کلاس والوں پر یہ تکلیف باقی لوگوں سے بڑھ کر آئے مگر یہ یاد رہے کہ انسانی resilience ہمیشہ adversity میں اپنے جوہر، دکھاتی ہے۔
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم۔
مگر یہ نہایت مشکل راستہ ہے جس میں حکومت، اشرافیہ، طاقت کے دیگر مراکز اور اپوزیشن کو سیاست چھوڑ کر مشترکہ اقدامات لینے ہوں گے جو آج کل کے حالات میں ناممکن نظر آتا ہے۔ ائر کنڈیشننگ کے اس کام میں ابھی قومی پیداوار، صوبائی خرچے، ٹیکس آمدن اور سماجی ایکتا کے حوالے سے بات ابھی باقی ہے۔
فی الحال مرزا نوشہ کی بتائی گئی قرض کی مے سے حظ اٹھائیے اور امید رکھئیے کہ ہماری فاقہ مستی یا نری مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔