Kuch Tareekh Aur Aik Mashwara Imran Khan Ke Liye
کچھ تاریخ اور ایک مشورہ عمران خان کیلئے
برسراقتدار سیاسی جماعت پر تنقید کو کفرواسلام اور پاکستان دشمنی کے طور پر پیش کرنے اور مخالفین کو رگڑا لگانے کا "فیض عام" اس مسلم لیگ نے شروع کیا تھا جو 14اگست 1947ء کو آل انڈیا مسلم لیگ سے پاکستان مسلم لیگ بن گئی تھی۔
پھر یہ کاروبار چل سو چل آگے بڑھا اور حسب توفیق اس میں سب نے (اقتدار میں آنے والی جماعتوں) نے حصہ ڈالا۔ بھٹو صاحب کے دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کی دفعہ 49 کا بے دریغ استعمال ہوا۔
بدقسمتی سے یہ دفع بجلی اور ٹیلیفون کی تاریں چوری کرنے پر بھی لگتی تھی اور حکومت کی مخالفت کرنے پر بھی۔ جیل میں پہلے ملاحظہ کے وقت اگر یہ بتانے میں تاخیر ہوجاتی کہ میں تار چور نہیں سیاسی قیدی ہوں تو "پانجا" (پانچ لتر) واجب ہوجاتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو مارشل لائی حکومت کو اسلام پسندوں کے "دیر و حرم" سے " مفت بر مخبروں " کی فوج میسر آگئی۔
اسلام پسندوں نے گن گن کے بدلے لئے مخالفین سے بعض کیس ایسے بھی ہوئے کہ ذاتی عناد تھا مگر مخبری یہ ہوئی کہ وہ پپلا ہے فوج کو گالیاں دیتا ہے، بس پھر "اگلوں " نے بندہ اُچک لیا۔
دشنام طرازی کی بدترین شکلیں اسلامی جمہوری اتحاد نے متعارف کروائیں یہ 1988ء کی بات ہے جنرل ضیاء لائو لشکر (فقیر راحموں کے بقول مقامی اور عالمی گواہوں سمیت) کے ہمراہ طیارہ حادثے میں رخصت ہوئے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ لاحق ہوا کہ پیپلزپارٹی جیت گئی تو انتقام لے گی (بعد ازاں ایک موقع پر جنرل حمید گل نے اپنے انٹرویو میں اعتراف بھی کیا تھا کہ فوج میں خوف تھا کہ پیپلزپارٹی عام انتخابات میں جیتی تو بھٹو کی پھانسی کا بدلہ لے گی) اس خوف سے راتوں رات اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا اس کے مرکزی میڈیا سیل کے انچارج حسین حقانی تھے۔
"وہی حسین حقانی جو بعد میں کچھ عرصہ سری لنکا میں سفیر اور وفاق میں ایک منصب پر رہے۔ پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رہنما کی بہن سے شادی بھی کی (وہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل پائی)۔ پھر اسی پیپلزپارٹی کے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد والے دور میں امریکہ میں سفیر رہے اور میمو گیٹ سکینڈل کے حوالے سے مشہور ہوئے"۔
آپ آج کسی سے پوچھئے حسین حقانی کون ہے، جواب ملے گا میمو گیٹ سکینڈل والا۔ خیر اسی حسین حقانی کی سربراہی میں آئی جے آئی کے میڈیا سیل نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف غلیظ ترین مہم چلائی۔ آئی جے آئی کے بکھرنے سے یہ غلیظ مہم (ن) لیگ کو ورثے میں ملی اور (ن) لیگ نے اکتوبر 1999ء تک اس ورثے پر فخر کرنے اور بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
جنرل پرویز مشرف 12اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قابض ہوئے، نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی اتحاد سازی کی محنت سے اے آر ڈی کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم ہوا، بدترین سیاسی حریف (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی پہلی بار ایک سیاسی اتحاد میں اکٹھے ہوئے۔
پھر چشم فلک نے اس دن کے نظارے بھی دیکھے جب محترمہ بینظیر بھٹو اپنے شوہر آصف زرداری کے ہمراہ جدہ کے سرور پیلس میں مقیم شریف خاندان سے ملاقات کیلئے پہنچیں گلے شکوے ہوئے اور معذرت بھی تب میاں نواز شریف کا کہنا تھا ہم پر ریاستی اداروں کا دباو تھا پیپلز پارٹی کے خلاف کاروائیوں کے لئے۔
پھر لندن میں دونوں جماعتوں نے ایک میثاق جمہوریت بھی کیا۔ 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو نوازشریف سب سے پہلے ہسپتال پہنچے۔
نواز شریف اس وقت اے پی ڈی ایم نامی اتحاد میں عمران خان اور دیگر جماعتوں کے ساتھ تھے، اس اتحاد نے انتخابی عمل کا بایئکاٹ کررکھا تھا۔
محترمہ کی آخری رسومات کے بعد آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف سے رابط کر کے ان کو قائل کیا کہ انتخابات کا بائیکاٹ غیرسیاسی فیصلہ ہے۔ میاں صاحب اے پی ڈی ایم سے الگ ہوکر انتخابی عمل میں شریک ہوئے۔
2008ء انتخابی نتائج کے بعد ابتداء میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے وفاق اور پنجاب میں مل کر حکومت بنائی پھر وفاق سے (ن) لیگ الگ ہوگئی اس علیحدگی پر دونوں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ سچ اگر کسی کو معلوم ہے تو وہ دو آدمی ہیں ایک جنرل اشفاق پرویز کیانی سابق آرمی چیف اور دوسرے جنرل شجاع پاشا جنہوں نے تحریک انصاف کی نشاط ثانیہ (اکتوبر 2011ء والی) سے خوب شہرت کمائی۔
جناب نوازشریف میمو گیٹ سکینڈل میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ بھی گئے تھے پھر ایک موقع پر اعتراف کیا کہ میرا وہ عمل درست نہیں تھا۔ 2008ء سے 2013ء تک کی سیاسی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو میاں نوازشریف نے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے بارے میں اپنے رویوں مختلف ادوار(حکومت اور اپوزیشن) میں اپنائے گئے طرزعمل کی دو طرح وضاحت کی
اولاً یہ کہ ہمیں ریاستی اداروں نے پیپلزپارٹی کے خلاف استعمال کیا ثانیاً یہ کہ ہمارے ووٹ بینک کا تقاضہ یہی تھا۔ دیکھا جائے تو دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ ابتدائی طور پر (ن) لیگ کا ووٹ بینک بھٹو مخالف ووٹ بینک تھا۔ اس میں ضیاء پرست، جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے سابق ہمدرد اور جی ٹی روڈ کی کشمیری برادری شامل تھے، پنجاب میں اس ووٹ بینک کو منظم کرنے کا سہرا بہرطور نوازشریف کے سر ہے۔
نوازشریف مزاحمت کرے، معاہدہ، مفاہمت جو جی میں آئے کرے یہ ووٹ بینک تھوڑی بہت کمی کے باوجود ان کے ساتھ ہی رہا۔ دو ہزارہ گیارہ میں تحریک انصاف کی نشاط ثانیہ کے پاشائی پروگرام میں پہلے مرحلہ پر (ن) لیگ، ق لیگ اور پپلزپارٹی کے الیکٹیبلز پر ہاتھ صاف کیا گیا پھر پیپلزپارٹی کے متاثرین میں پروپیگنڈہ ہوا بھٹو کی پارٹی ختم ہوگئی ہے اب یہ زرداری لیگ ہے۔
نوازشریف بینظیر بھٹو کا دشمن تھا اس دشمن کو سبق پڑھانے کے لئے نئی جماعت اور قیادت کے طور پر عمران خان ہے۔ پی پی پی کے ہمدردوں اور بڑے جیالوں کے قدیم خاندان نوازشریف کی نفرت میں پی ٹی آئی میں گئے اور پھر انہوں نے نوازشریف کے ساتھ پیپلزپارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
ایک بات ماننا پڑے گی کہ ان "نوانصافیوں " نے یہ انصاف ضرور کیا کہ اگر نوازشریف کو گالی دی تو نصف گالی زرداری کو بھی دی۔ یعنی ہر گالی اور الزام دونوں طرف ففٹی ففٹی کرکے اچھالا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2011ء میں تحریک انصاف کو دو طرح کے طبقات ملے ایک یہی جس کا ذکر بالائی سطور میں کیا ہے
دوسرا ہمارے ہاں دستیاب اپر لوئر کلاس، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس۔ اپر لوئر کلاس وہ طبقہ ہے جسے خود کو مڈل کلاس بتلانے منوانے کا جنون ہے۔ مڈل اور اپر مڈل کلاس انگریزی میں اردو بھگوکر بولنے والی مخلوق ہے۔ "واٹ اے ربش سیاست، آئی ہیٹ سیاست دان۔ جمہوریت او نو، دس از فراڈ "
یہ طبقہ پہلی بار 2013ء کے انتخابات میں اور دوسری بار 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کو ووٹ دینے کےلئے نکلا لیکن جمہوریت اور نظام کے حوالے سے آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی رہا۔ آپ ان میں سے کسی سے بھی بات کرلیجئے اسلامی صدارتی نظام سے اِدھر تو کھڑے ہی نہیں ہوتے۔
2011ء سے آج تک سابق پپلوں اور باقی کے تین طبقات نے عمران خان کے فرمودات اور مخالفین کے لئے زبان دانی کو الہامی اسباق کے طور پر پالا پوسا پوجا اور عقیدے کے طور پر آگے بڑھایا، نتیجہ کیا نکلا؟
اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ ان طبقات کے خیال میں عمران خان اس عہد کا "کامل انسان" ہے۔ ایک وہی سچا ہے باقی سب جھوٹے۔ ایک ایماندار باقی چور۔ خود خان صاحب چونکہ توتکار سے بات کرتے ہیں ان کے دیوانوں نے گالی کو بات بنادیا۔
دعویٰ یہ تھا کہ میں قوم بنانے کے لئے سیاست میں آیا ہوں اور توتکار و ابے تبے کی زبان دانی سے محبان کا ایک نیا طبقہ بنالیا۔ اب ان کے خیال میں یہی وہ قوم ہے جس کی تربیت و رہنمائی کے لئے وہ خلق کئے گئے ہیں۔
خبطِ عظمت سے تھل تھل کرتی اس سوچ کا نتیجہ ہمارے بلکہ خود ان کے بھی سامنے ہے مگر کیا مجال کہ وہ تجزیہ کریں کہ اس سے ان کی سیاست کو چار چاند لگے یا نقصان ہوا۔
کرکٹ کا کھلاڑی سیاسی جماعت کا سربراہ بنا پھر ملک کا وزیراعظم مگر فہمی اعتبار سے وہ آج بھی اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے گیارہ کھیلاڑیوں کی ٹیم کی قیادت کرنی ہے۔
کھیل کے میدان کی کامیابیوں، شوکت خانم ہسپتال کی داستان اور اپنے مخالف کے لئے حقارت بھرے رویوں کا مظاہرہ، عمران خان کی ذات اس سہ رخی سے عبارت ہے۔
کیا وہ احتساب ذات کے عمل کو ضروری سمجھ کر اپنی ذات کی ان تین پرتوں کا تجزیہ کریں گے؟
ہماری رائے میں کبھی بھی نہیں کریں گے کیونکہ انہیں یقین کامل ہے کہ وہی اکمل و دانا ہیں اور جو انہیں معلوم ہے وہ کسی کو معلوم نہیں۔
معلوم کیا ہے یہ خود انہیں بھی معلوم نہیں۔ اس کے باوجود انہیں سوچنا ہوگا ان سے غلطی کہاں ہوئی اور مداوا کیسے ممکن ہے۔ البتہ یہ سوچتے وقت انہیں یہ ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کہ
"ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں "۔