IMF Se Moahida, Karva Sach Aur Challenge
آئی ایم ایف سے معاہدہ، کڑوا سچ اور چیلنج
آپ میں سے جو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں وہ نیٹ پر اور جنہیں لائبریری سے رغبت ہے وہ لائبریری میں 23نومبر 2021ء کے اخبارات کا صفحہ اول دیکھ لیں تاکہ آپ جان پائیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے حوالہ سے پورا سچ کیا ہے۔
ویسے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہوئے معاہدہ کی دستاویزات آپ کو آئی ایم ایف کی ویب سائٹس پر بھی مل جائیں گی۔ تھوڑی سی زحمت کیجئے بجائے منہ بھر کے گالی دینے اور اپنے گلے میں کسی جماعت کی محبت کے پڑے "پٹے" کا حق ادا کرتے ہوئے جھوٹ جھوٹ کی تکرار کرنے کی بجائے۔
23نومبر 2021ء کے اخبارات کے مطابق اس وقت کے مشیر خزانہ (بعد میں سینیٹر بنواکر وزیر خزانہ بنوایا گیا) شوکت ترین کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف سے 5شرائط پر معاہد ہوا ہے
(1) پٹرولیم لیوی میں 4روپے ماہانہ اضافہ کیا جائے گا (2) جی ایس ٹی پر استثنیٰ ختم (3) سٹیٹ بینک قانون میں ترمیم کرکے اسے خودمختار بنایا جائے گا (4) کورونا کے دوران ملی امداد کی آڈٹ رپورٹ تیار کرکے پیش کرنا ہوگی (5) بجلی کی بنیادی قیمت (بنیادی ٹیرف) میں اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ بھی کہا کہ ان شرائط پر عمل کرنے سے معاہدہ کے مطابق 1.054 ارب ڈالر ملیں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں 200ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی، 400ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا پڑیں گے۔
23نومبر 2021ء سے اگلے چند دنوں کے اخبارات آپ کی مزید تسلی کروادیں گے۔ اس وقت کی حکومت نے معاہدے عمل کیلئے اقدامات کئے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کروایا۔ ترقیاتی بجٹ میں 200ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔
جی ایس ٹی کا استشنیٰ ختم کیا گیا، 400 ارب روپے کےاضافی ٹیکس نافذ ہوئے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں قسطوں میں اضافہ کیا گیا۔ 6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ہر قسط کے اجراء سے قبل آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ دیکھنا تھا کہ پچھلے مذاکرات اور قسط کے اجراء کے بعد طے شدہ شرائط پر عملدارمد کی رفتار کیا رہی۔
نومبر کے اجلاس میں پاکستانی وفد کو بتایا گیا تھا کہ مختلف مدوں میں دی جانے والی سبسڈی بتدریج ختم کرنے کی شرط پر عمل نہیں ہوا۔ اہم ترین اعتراض یہ تھا کہ وعدے کے مطابق یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کی سبسڈی میں کمی نہیں کی گئی۔
یہ اعتراض 50فیصد درست اور 50فیصد لاعلمی پر مبنی تھا۔ درست یہ کہ حکومت وعدہ کرچکی تھی محض زبانی وعدہ نہیں تھا بلکہ یہ 6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے حصول کے لئے ابتدائی مذاکرات اور معاہدہ (یہ مذاکرات اس معاہدہ اس وقت وقت کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کئے) میں شامل تھا۔
کسی کو یاد ہو تو یاد کیجئے یا پھر اخبارات کی فائلیں دیکھ لیجئے مالی سال 2021-2022ء کے بجٹ کے موقع پر جناب شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں اپنی دھواں دھار تقریر میں کیا ارشاد فرمایا تھا۔آگے بڑھئے، آپ اگست 2021ء سے فروری 2022ء کے درمیانی عرصے میں یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے نوٹیفکیشن نکلواکر پڑھ لیجئے۔
میں ان کالموں میں قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے پر تواتر کے ساتھ کہتا رہا کہ یوٹیلٹی سٹور پر فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتوں کو مارکیٹ کے نرخوں پر لایا جارہا ہے۔سبسڈی بتدریج ختم کی جارہی ہے۔ یہ بھی عرض کرتا رہا کہ آئی ایم ایف نے صاف کہا ہے کہ ماسوائے احساس پروگرام کے اور کسی بھی مد میں سبسڈی نہیں دی جائے گی۔
ہسپتالوں میں مفت علاج و ادویات کی جگہ ہیلتھ کارڈ کا اجراء بھی اس لئے کیا گیا کہ عالمی مالیاتی ادارہ کہہ رہا تھا مفت ادویات کی فراہمی کرپشن کا بڑا ذریعہ ہے۔اس کی بات مان لی گئی مگر اس سے بڑا فراڈ ہوگیا چند انشورنس کمپنیوں اور ان کے پینل پر موجود ہسپتالوں کی چاندی ہوگئی۔ انہی دنوں ان سطور میں عرض کیا تھا مفت ادویات کی جگہ بھلے ہیلتھ کارڈ ہو مگر علاج معالجہ سرکاری و نجی ہسپتالوں میں مساوی ہو۔
مریض جہاں سہولت دیکھئے جائے۔ اس طرح سرکاری ہسپتالوں کو بھی معیار بہتر بنانے کا موقع ملے گا وہ بھی منسلک طبی ماہرین کے علاوہ دیگر ماہرین کو جزوقتی طور پر منسلک کرسکیں گے۔
کورونا کی مجموعی امداد کا جو حصہ عالمی مالیاتی ادارے کے ذریعے موصول ہوا وہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ طے پایا تھا کہ بیرون ملک سے ملی کورونا امداد (رقوم) کا مشترکہ آڈٹ ہوگا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب این ڈ ی ایم اے نامی ادارے کے سربراہ نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ ایک کورونا مریض کے علاج پر 25لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو عرض کیا تھا عدالت میں غلط بیانی کی گئی ہے، سفید کپڑوں میں ملبوس افراد کو پھاڑ کھانے کے لئے چڑھ دوڑنے والے "وردی" کے سامنے "گنگ دام" ہوگئے۔
اگر اس وقت سپریم کورٹ طبی ماہرین کا کمیشن بناکر تحقیقات کروالیتی تو پتہ چل جاتا کہ کون کون فراڈ میں ملوث ہے اور کس نے کتنا حصہ وصول کیا۔
اسی طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بعد میں جب کورونا فنڈز میں اربوں کے گھپلوں کی خبریں ذرائع ابلاغ پر آئیں تو وفاقی وزارت اطلاعات کے علاوہ "کسی اور طرف سے بھی ذرائع ابلاغ پر دبائو رہا کہ اس طرح کی خبروں اور تبصروں سے گریز کیا جائے۔
ہم ایسے پاگلوں نے اس وقت یاد دلایا تھا کہ اکتوبر 2020ء میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں یقین دہانی کرواچکے ہیں آپ کہ کوروناامداد کا مکمل آڈٹ کروائیں گے۔ بالآخر نومبر 2021ء میں آئی ایم ایف نے کورونا امداد کی آڈٹ رپورٹ مانگ لی۔ مذاکرات کاروں نے یقین دہانی کروائی کہ مکمل آڈٹ رپورٹ مالی سال کے اختتام تک فراہم کردی جائے گی۔
اب بتایئے جب ہم یہ معاہدہ کرآئے تھے کہ احساس پروگرام کے علاوہ کسی بھی مد میں سبسڈی نہیں دیں گے اور جو دے رہے ہیں بتدریج واپس لیں گے۔ پٹرولیم لیوی 4روپے ماہانہ کے حساب سے 30روپے لٹر تک لے جائیں گے۔ پٹرولیم کے نرخ سبسڈی کے بغیر مقرر ہوں گے تو بتایئے اس معاہدہ سے انحراف کیوں ہوا؟عالمی اداروں سے معاہدہ آپ کا انتخابی منشور نہیں کہ مرضی آئے عمل کریں دل نہ چاہے تو عمل نہ کریں۔
اکتوبر 2020ء کے مذاکرات کے حساب سے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں مجموعی اضافہ 14روپے کرنا تھا ساڑھے 6روپے قسطوں میں کرلیا گیا۔ فروری 2022ء میں پٹرولیم پر 10روپے لٹر اور بجلی پر فی یونٹ 5روپے سبسڈی دے دی گئی، قیمتیں بجٹ تک فریز کردی گئیں۔
یہ کہنا کہ پہلا وزیراعظم ہے جس پر سبسڈی دینے کا الزام ہے۔ شخصیت پرستی اور اندھے جنون میں تو یہ بات کانوں کو بھلی لگتی ہے لیکن عالمی معاہدوں کا احترام نہ کرنے اور عمل نہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟یہی جو فروری میں آئی ایم ایف نے کیا 92کروڑ ڈالر کی قسط کا اجراء روک کر مذاکرات معطل کردیئے۔
(تفصیل گزشتہ کالموں میں عرض کرچکا ہوں)۔ اب آپ مجھے کوستے رہیں، گالی دیں، جیالا کہیں تحریر نویس کو فرق نہیں پڑتا۔ اپنی محنت مزدوری کی روٹی کھاتا ہوں پیپلزپارٹی نے کبھی راشن ڈلواکر نہیں دیامجھے، لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ صرف اپنے ممدوح کی تعریف سنناچاہتے ہیں۔
ہماری مجبوری یہ ہے کہ زمینی حقائق لوگوں کے سامنے رکھے جائیں۔ یہ محبت و عداوت کا مسئلہ نہیں ریکارڈ کی بات ہے۔یہ بھی عرض کردوں کہ اگر آپ (انصافی عزیز اور دوست) سمجھتے ہیں کہ تحریر نویس غلط بیانی کرتا آرہا ہے تو حفیظ شیخ اور شوکت ترین کو روبرو آپ لاکر بیٹھادیجئے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔
گھوڑا بھی حاضر ہے میدان بھی موجود ہے یا پھر ان نابغوں سے صرف ایک سوال پوچھ لیجئے، آئی ایم ایف نے فروری 2022ء میں 92کروڑ ڈالر کی قسط روک کر مذاکرات معطل کیوں کئے تھے؟
ہمت کیجے بس ایک سوال ہی تو ہے پوچھیں ان سے ہاں آپ انصافیوں نے سوشل میڈیا پر مجھے جو کچھ کہا اس پر میں آپ کی صحت و سلامتی کیلئے دعا گو ہوں۔