Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Sifar Se Aik Tak

Sifar Se Aik Tak

صفر سے ایک تک

برادرم ڈاکٹر طارق انصاری کی اعتنا سے مرزا صاحب کی کتاب "صفر سے ایک تک" مجھے ہمدست ہوئی اور ابھی یہ مطالعہ کنارے لگا۔ اِس متن پر اپنے ملاحظات نمبروار پیش کرتا ہوں:

1: یہ ایک گیم ڈویلپر کی داستان ہے جو مصنف نے اُس کی زبان سے صیغہ واحد متکلم میں کہلوائی ہے۔ اِس داستان کا، جسے مصنف/راوی بار بار ناول کہتا ہے، پہلا ایڈیشن 2009ء، دوسرا 2012ء اور تیسرا 2017ء میں شائع ہوا۔ میرے سامنے یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔

2: راوی ذکاءاللہ متن کے پہلے صفحے سے اپنے خاندانی پس منظر اور حیلۂ معاش کا بتانا شروع ہوتا ہے لیکن تیسرے پیراگراف تک پہنچتے پہنچتے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ مصنف کا ابتدائیہ/مقدمہ ہے جس کے بعد ناول باقاعدہ شروع ہوگا۔ تین صفحے مکمل ہوتے ہوتے معلوم ہوتا ہے کہ ناول تو شروع ہوچکا ہے۔ پہلا پیراگراف مکمل ہوتے ہی راوی اپنے خاندان کے قدیمی اَن داتاؤں کے خلاف لفظی جنگ کا بگل بجا دیتا ہے اور اُن کی صفت سرائی کرتے ہوئے اُنھیں انگریزوں کی خصیہ بوسی کا شرف حاصل ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ یہیں سے ناول کی ٹون اور انجام کا منظر صاف معلوم ہوجاتا ہے اِس لیے آگے کی ساری کارگزاری میں اِس منہج کے اعتبار سے کوئی novelty نظر نہیں آتی۔ کئی پیڑھیوں سے انگریز کے خصیہ بوسوں کی ملازمت اور چاکری کرتا راوی کا خاندان، راوی کے خمیرۂ زورِ زبان کی وجہ سے، بہت ارفع اور محنتی معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیان، جیسا کہ شیروں کا شکار کرنے والے شکاریوں کی یکطرفہ کہانیاں ہوا کرتی ہیں، بہت موثر ہے۔ اِس کا antidote صرف وہ کہانی ہوسکتی ہے جو راوی کے اَن داتا خاندان کا کوئی فرد لکھے گا۔ شکاری کی لکھی کہانی میں شیر ہی مرتا ہے۔

یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ راوی مالکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے خاندان اور اپنے طبقے (کمپیوٹر مکینک/ لوئر مڈل کلاس) کی نیچ ذہنیت، سوچ اور حرکتوں کا ذکر کرنے سے نہیں رکتا، مثلًا اپنے باپ کو اپنا P2 کمپیوٹر دینے کے لیے مالک کی ناواقفی کا فائدہ اٹھاکر محض تین گھنٹے میں اُس سے نیا P3 کمپیوٹر خریدوا لینا (ص-54)، بڑے بھائی کی عورت بازی اور جعلی پیری فقیری کا کاروبار (ص-55)، اپنے خاندان کے قدیمی اَن داتاؤں کے گھر کے لیے کچھار جیسا بیہودہ لفظ استعمال کرنا (ص-78)، عورتوں کی سپلائی کے لیے "کام ہم نے گورا ہی کرنا ہے، دیسی مال نہیں چاہیے۔ " (ص-93) جیسی نیچ طبقے کی سوچ، مالک کے گھر میں رہتے اور اُس کے خریدے ہوئے کمپیوٹر پر انٹرنیٹ سے spade work کے لیے ڈیٹا ڈھونڈ کر پرنٹ آؤٹ نکالتے ہوئے اُس پہ احسان کرنا (ص-68)۔ وغیرہ۔

3: متن میں سب سے نمایاں کوشش اِس بات کی کی گئی ہے کہ جس دور میں اِسے لکھا گیا اُس تک مارکیٹ ہوجانے والی شعبۂ کمپیوٹر، اطلاعیات اور آئی ٹی کی کوئی اصطلاح ذکر ہونے سے رہ نہ جائے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ IBM اور Que والوں کی کمپیوٹر پروگرامر'ز ڈکشنری اور کمپیوٹر یوزر'ز ڈکشنریوں جیسی کسی ڈکشنری کے سارے سرلفظ اِس کتاب میں کھپا دیے گئے ہیں۔ جنابِ مصنف کا شعبہ فلسفہ ہے لیکن یہاں اُنھوں نے متذکرۂ بالا تکنیکی شعبوں کی لفظیات، جارگن اور سلینگ بہم کرنے کے لیے جو مشقت جھیلی اُس پر وہ انتہائی داد کے مستحق ہیں۔ تاہم یہ شعبے چونکہ اُن کے "اپنے" نہیں ہیں اِس لیے وہ اِس جمع شدہ بہت سارے ڈیٹا کو First Things First والی ترتیب میں نہ لگا سکے۔ اِس کے اثرات متن میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

4: کمپیوٹر پروگرامنگ یا ویب ڈویلپمنٹ وغیرہ جیسی تکنیکی مہارتیں سیکھنے کے لیے کوئی شخص ناول نہیں پڑھتا۔ لیکن یہ متن ظاہر کرتا ہے کہ جنابِ مصنف کی خواہش ہے کہ اُن کا قاری متذکرۂ بالا تکنیکی شعبوں کی غیر متعلق اور نیم متعلق اصطلاحات اور معلومات کو بھی یاد کرلے۔ اِس کام کے لیے بریکٹ کے اندر یا اِس کے بغیر ہی تعلیمِ بالغاں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ متن میں بعض جگہوں پر یہ ایجوکیشنل سپلیمنٹ ڈیڑھ دو دو صفحات تک پھیل جاتا ہے۔ اِس تعلیمی سلسلے میں مصنف کی کوشش ہے کہ قاری ہر اصطلاح اور مخفف کی مکمل توضیح بھی جانتا ہو۔ ایسی مثالوں میں سے صرف ایک پیش ہے کہ مصنف www کو بالالتزام ورلڈ وائیڈ ویب لکھتا ہے۔ یہ توضیح ایک آدھ بار تو درست ہے البتہ بار بار سامنے آنے سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ یوں یہ متن کہیں کہیں پر تو کمپیوٹنگ اور انٹرنیٹ کی باقاعدہ ٹیکسٹ بک محسوس ہوتا ہے۔ "الیکٹرونک پیغام رسانی کا ایک سلسلہ ہے جو میرے اور زلیخا کے درمیان جاری ہوا اور جسے instant messaging یا عرفِ عام میں chat کہتے ہیں۔۔ " (ص-108) واضح رہے کہ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ صرف کمپیوٹر سے متعلق نہیں رہتا بلکہ قاری کو انگریزی زبان سکھانے کی کوشش بھی چلتی رہتی ہے جس کے لیے باقاعدہ فٹ نوٹ لکھا جاتا ہے۔ "یہ ایک slang phrase ہے To make sheep's eyes at، جس کے معنی flirt کرنا بتائے جاتے ہیں۔۔ " (ص-73) لفظ کی توضیح کے لیے فٹ نوٹ میں لسانی معلومات دینے والا یہ شاید پہلا ناول ہے۔

5: ایک ہی لفظ یا فقرے کو فرانسیسی اور پھر انگریزی میں لانا، اور بار بار لانا، اظہارِ علمیت کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔ پروگرامنگ لینگویجز کے نام بھی ایک جگہ پر اِسی طرح stack کیے گئے ہیں۔ یہ Pedantry اِس متن میں صرف لفظوں اور expressions تک نہیں ہے بلکہ غیر ضروری بھرتی کی بھی بھرمار ہے۔ مثال کے طور پر ص-125 پر browsing کے لفظ سے شروع ہونے والا پیراگراف۔ نیز یہ بھی اصولی بات ہے کہ اِس پیراگراف کو کیپیٹل B سے شروع ہونا چاہیے یعنی Browsing.

6: کراس ریفرنسنگ اِس متن کی سب سے بڑی جمناسٹک ہے۔ آسانی کے لیے اِسے چھلانگیں کہہ لیجیے کیونکہ مصنف/راوی اِس کے لیے یہی لفظ برت رہا ہے۔ یہ چھلانگیں کتاب کے تیسرے پیراگراف سے شروع ہوگئی ہیں۔ کہیں کہیں یہ switching اِس قدر تیز ہے کہ دو سطروں میں تین بار آگئی ہے۔ "لیکن میں ایک ایسی بات کا ابھی سے ذکر کر بیٹھا ہوں جو بہت بعد میں آنے والی ہے۔ مجھے خطرہ ہے آگے کو چھلانگ لگانے کا یہ مسئلہ میرے ساتھ اِن صفحات میں مسلسل رہے گا بہرحال۔ " (ص-9) چنانچہ معلوم ہوا کہ اِس خرابی کا مصنف کو خود بھی احساس ہے۔ تاہم تیسرے ایڈیشن تک اِس خرابی کی بہت ساری مثالوں کو درست کیا جاسکتا تھا، جو بظاہر نہیں کیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ پہلے دونوں ایڈیشنوں میں اِس کی کیا فریکوئنسی ہے اور موجودہ ایڈیشن تک آتے آتے اِس میں کمی لائی گئی ہے یا نہیں۔ کتاب میں مصنف کا ابتدائیہ بھی موجود نہیں ہے جس میں یہ ضروری معلومات مہیا ہو۔

7: ملا نصر الدین کا یہ واقعہ سبھی نے سن رکھا ہے کہ وہ بازار سے گوشت لے کر گھر جا رہے تھے کہ چیل نے گوشت اچک لیا۔ ملا جیب سے گوشت پکانے کی ترکیب کا پرچہ نکال کر چیل کو دکھانے لگے کہ گوشت پکانے کی ترکیب تو میرے پاس ہے۔ یہ کہانی یوں یاد آئی کہ یہ متن مصنف کی مستقل مداخلت (intervention) کے بغیر سمجھ میں آنے والا نہیں ہے چنانچہ وہ راوی کا ہمزاد بن کر ہر موقع پر موجود ہے۔ پوری کتاب میں کوئی ابواب بندی نہیں ہے اور نہ مناظر کے fade ہونے اور نیا منظر آنے کا کوئی باقاعدہ سلسلہ، اِس لیے یہ سارا Lexis (لفظیات) منتشر خیالات کا ایک Stack محسوس ہوتا ہے۔ منتشر خیالات کو الل ٹپ لکھ ڈالنے کا اور ای میلز کے بے جا طور پر طول طویل متن کو آمیخت کرنے ہی کا اعجاز ہے کہ اگر متن میں کچھ پیراگرافوں اور صفحات کی کاپی پیسٹنگ نہ ہوپائے تب بھی اِس بے ترتیبی/کمی کا علم نہیں ہوپاتا۔ مثال لیجیے کہ ص-95 پر جب "رگڑے کے دور" کا آغاز ہوتا ہے اور آرا-ٹال ٹارچر سینٹر اور چابی ٹارچر کی کہانی سنائی جاتی ہے تو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ کہانی کب سنائی جا رہی ہے اور واقعہ فی نفسہٖ خود کب رونما ہو رہا ہے (یا ہوا تھا)۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کئی پیراگراف بے ترتیب اور غائب ہیں۔ یہ بے ترتیبی اور راوی کی منتشر سوچیں (disrupted thoughts) کئی اور مقامات کی طرح اِس موقع پر بھی شدید گنجلک پن پیدا کرتی ہیں۔ اگر متن کی گنجلائی آرٹ ہے تو یہ ایبسٹریکٹ آرٹ ہی کہلائے گا گو بادشاہ کسی کو بے لباس نظر آئے۔ اِس چیز کا ذکر مصنف خود بھی کرتا ہے: "اگر میں نے اِس سرگزشت کو اُس طرح لکھا ہوتا جیسے بعض قصے کہانیوں کی کتابوں میں وہ واقعات چھوٹے چھوٹے عنوان ڈال کر لکھتے ہیں تو اب آگے آنے والے واقعات کو میں ایک ہی عنوان دے سکتا تھا اور وہ عنوان ہوتا 'رگڑا'۔ " (ص-91)

اِس متن کی ایک اور گنجلائی مصنف اور راوی کی شناخت کا گڈمڈ ہونا ہے۔ آج کل متون میں فانٹ یا سائز کے مختلف کرنے سے ایسی شناخت قائم کرنا عام ہے لیکن زیرِ نظر متن میں ایسی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ راوی کا فعل بولنا/کہنا/سنانا ہوتا ہے لیکن متن میں جگہ جگہ یہ "لکھا" مذکور ہے: "اگر میں نے اِس سرگزشت کو اُس طرح لکھا ہوتا۔۔ " (ص-91) چنانچہ دورانِ مطالعہ مصنف اور راوی میں فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ کرافٹ کی سنگین غلطی ہے جو پورے متن پر پھیلی ہوئی ہے۔

8: وہ جملے اور خیالات جو ناول میں مقصدیت کو بیان کرنے کے لیے بُنے جاتے ہیں اُن کی تعداد 393 صفحات کے اِس متن میں معدودے چند سے زیادہ نہیں ہے۔ "دو انسانوں میں ملاقات کے ابتدائی مراحل میں اکثر طرفین اپنی اپنی فنِ اداکاری کی صلاحیتوں کو آزماتے ہیں۔ لیکن یہاں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی اچھی پرفارمنس بعد میں مستقل حیثیت اختیار کرکے اچھا خاصا عذاب بن سکتی ہے۔ " (ص-83) اور "میں سوراخوں کا شکار ہوں۔۔ تاریخ ایک سوراخ ہے۔ تہذیب ایک سوراخ ہے۔ میں ایک سوراخ ہوں۔ تم ایک سوراخ ہو۔ وہ ایک سوراخ ہے۔ ہم ایک سوراخ ہیں۔۔ گولیاں رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ ہر گولی ایک سوراخ ہے۔ گولیاں بڑھتی ہیں سوراخ بڑھتے ہیں۔۔ " (ص-132) یہ بہت خوبصورت جملے ہیں۔ لیکن ایسے جملے اور خیالات کے بجائے disrupted thoughts اور ڈیمنشیا (loss of cognitive functioning) کا وفور، جو اب سائبر دنیا کا سب سے بڑا مرض تسلیم کیا جا رہا ہے، اِس متن کا نمایاں وصف ہے۔ یہ کرافٹ اگر ناول کے نام سے پیش کیے گئے متن کی خوبی ہے تو یہ میرے علم میں اضافہ ہے جس پر میں جنابِ مصنف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

9: کتاب "صفر سے ایک تک" پڑھنے کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ یہ سارا متن اُسی طرح کا ایک trash (کوڑا، کباڑ) ہے جیسا راوی ذکاءاللہ اپنے مالک فیضان سالار سے کہتا ہے۔ "ہاں میں نے یہ پرنٹ آؤٹ دیکھے ہیں۔ تم نے سب کچھ نکال کر ڈھیر لگا دیا ہے۔ دراصل تم انٹرنیٹ buff جو ہو۔ trash اور اصل چیز میں تمیز نہیں کرسکتے۔ "/ "اپنا کوڑا خود کریدنا سیکھو فیضان۔ " (ص-85) مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک کلک سے مہیا ہوجانے والی اِس قسم کی تکنیکی معلومات کے کباڑ کو ناول کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ اِس طرح تو کوئی موٹر مکینکی اور کار مکینکی جیسے شعبوں کا سارا Lexis بھی اِسی طرح کسی ناول میں بھر سکتا ہے۔ میں نے جنابِ مصنف کے متون کے دو سنجیدہ مطالعہ کاروں محترمہ راضیہ شمشیر اور برادرم ڈاکٹر محمد اطہر مسعود سے اِس مقامِ آہ و فغاں کی تشفی چاہی۔ اِن دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ جنابِ مصنف کے افسانوں میں اِس نوعیت کا ایک کردار اکثر ملتا ہے جس کے پاس ایک کباڑیے کی طرح پرانی بظاہر غیر اہم اور غیر ضروری چیزوں کا انبار لگا ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کا ٹریش بھی اِسی طرح ہے۔ اُن کے ایک ناول میں باقاعدہ یہ کردار موجود ہے۔ تادمِ تحریر اُن کے چھپنے والے آخری ناول میں بھی یہ کردار موجود ہے جس کا بیگ اِسی طرح غیر ضروری چیزوں سے بھرا ہوتا ہے جسے وہ خود سے جدا نہیں کرتا۔ یوں میں اِس نتیجے پہ پہنچا کہ قاری کے سامنے کباڑ رکھ دینا اور اُسے اُس میں سے اپنے کام کی چیز خود ڈھونڈنے کے لیے چھوڑ دینا صرف راوی ذکاءاللہ کی نہیں بلکہ جنابِ مصنف کی اپنی فطرتِ ثانیہ ہے جو اُن کے ہر فن پارے میں سے جھانکتی ہے۔ یوں مجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ کمپیوٹریاتی معلومات کے اِس ٹریش کو ناول کے نام سے کیوں شائع کرایا گیا۔ القصہ میرے نزدیک "صفر سے ایک تک" ایک ٹریش ہے جس میں سے قاری کو اپنے مطلب کی چیز خود ڈھونڈنی ہے۔ میں پورے اطمینان سے دعویٰ کرسکتا ہوں کہ مصنف کے دیگر متون کی بھی عین مین یہی کیفیت ہے۔ ٹریش/کباڑ/کوڑا مرزا اطہر بیگ کا keyword ہے جو اُنھیں سمجھنے کی master key ہے۔

دوسری چیز جو مجھے اِس متن کو ناول تسلیم نہ کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ اِس میں مقصدیت موجود نہ ہونا ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ یہ تسلیم کہ ناول میں کہانی نہیں ہوتی، لیکن مقصدیت نہ ہونا محض Absurdity ہے۔ فکشن معلومات کا ذریعہ نہیں ہوتا اور نہ اِس سے ٹریننگ کِٹ کا کام لیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے پاس وقت ضائع کرنے اور صلاحیتیں فضول کھپانے کے بہتر مواقع موجود ہیں۔

10: آخری بات مصنف کی زبان پر ہوجائے۔ مرزا اطہر بیگ کی زبان دانی کے قربان جائیے، اُنھوں نے اردو اور پنجابی کی لفظیات اور روزمرہ ایسا بیندھا ہے کہ پورے متن میں زبان و بیان پر گرفت کرنے کا ایک بھی موقع نہیں بنتا۔ متن کی ایک نمایاں خوبی axioms کا بے ساختہ اور برمحل استعمال ہے۔ "لہور لہور ای اے" اور "جیہنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں" (ص-80) وغیرہ وغیرہ جیسے مسلمات ایسے چست ہیں جیسے انگوٹھی کے گھاٹ میں لگے نگینے۔ اِن کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جملوں میں الفاظ اور اُن کے متضادات کو یکجا کرنا بھی مصنف کی زبان پر حیرت انگیز گرفت کی علامت ہے۔ اِس متن میں آپ کو ایسے ایسے الفاظ کے متضادات مل جائیں گے جو شاید کہیں اور ہمدست نہ ہوسکیں۔ سلینگ اور لغتِ سماعیہ (Collocations) کی چست بندش کے ساتھ ساتھ کئی لفظوں کی امالی صورتیں پہلی بار دیکھنے کو ملیں جو عام زبانوں پر جاری ہیں لیکن تحریر میں کبھی نہیں دیکھیں، مثلًا ملیشیے کا لباس (ملیشیا)۔ یہ عوام کی زبان کو سند دینا ہے جو مرزا صاحب کا خاص گُن ہے۔ قلم اینجا رسید و سر بشکست۔

11: ملاحظے کی باتیں سبھی اوپر ذکر ہوچکیں۔ زبان کے اعتبار سے ایک نکتہ عرض کر دوں کہ متن میں کہیں کہیں انگریزی کے دخیل و مستعار الفاظ کا ایسا املا نظر آتا ہے جو عام مروج نہیں ہے جیسے کوریڈور کے بجائے کاری ڈور، سائبر کے بجائے سائیبر، موبائل کے بجائے موبائیل، رائل پارک کے بجائے رائیل پارک۔ وغیرہ۔ بعض لفظوں کے املا میں یکسانی نہیں ہے جیسے تھڑہ/تھڑا، املا میں یکسانی نہ ہونا ٹائٹل ہی سے شروع ہوگیا ہے اور بیرونی و اندرونی ٹائٹلوں پر لفظ "سائبر" کا املا یکساں نہیں ہے۔ غلط ہجوں والے الفاظ و تراکیب بھی ملتی ہیں جیسے دائم المریض (ص-12)، چاک و چوبند (ص-13)، وغیرہ۔ نیز کچھ جگہ پر علاماتِ رموزِ اوقاف اور سپیلنگ جیسی معمولی پروف کی اغلاط ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اِنھیں درست کرلیا جائے گا۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq