Do Qaumi Nazriya Aik Nazriya e Zaroorat Hai
دو قومی نظریہ ایک نظریۂ ضرورت ہے
جن چیزوں پر ہمارے دانشور رہ رہ کر اعتراض کرتے ہیں اُن میں دو قومی نظریہ سرِ فہرست ہے۔ آئیے آج اِس پر کچھ بات ہوجائے۔
ہمارے دانشوروں کے نزدیک دو قومی نظریہ ہی ہر برائی کی جڑ ہے۔ اِس کو اِس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے یو پی، سی پی کے مسلمان جاگیردار اِس تصور سے ڈر گئے تھے کہ جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے تو ہماری چودھراہٹ ختم ہوجائے گی اور ہمارا موجودہ مقام ہندوؤوں کے پاس چلا جائے گا۔ اِس صورتِ حال میں اُنھوں نے یہ مشہور کر دیا کہ مسلمان الگ قوم ہیں اور برِصغیر کے باقی لوگ (جس سے مراد ہندو تھی) الگ۔ ہمارے دانشوروں کے مطابق یہ نظریہ باطل ہے کیونکہ مسلمان اور ہندو برِصغیر میں صدیوں سے باہمی احترام کے ساتھ شیر و شکر رہ رہے تھے اور ہندوؤوں سے خوف کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔
اِس کے بعد اِن دانشوروں میں سے لسانی قوم پرست کہتے ہیں کہ پنجاب میں تو مسلمان ہندؤں اور خاص طور پر سکھوں کے ساتھ بغیر کسی من و تو کے ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ ہمیں تو اُن خود غرض یو پی والوں نے مذہبی کارڈ استعمال کرکے بے وقوف بناکر اپنے ساتھ ملایا تھا، اور وہ بھی کہیں 1946ء کے آس پاس۔ اِس سے پہلے تو پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی جس میں مسلمان، ہندو اور سکھ سب شامل تھے۔
ہمارے دانشور دوست یہ باتیں 21ویں صدی کی دوسری دہائی والے پاکستان میں بیٹھ کر کر رہے ہوتے ہیں جہاں متواتر تین نسلوں نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی ہے جس میں 1930ء اور 1940ء کے عشروں والا راج کا ماحول نہیں ہے اور ملک کی آبادی 97 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اِس لیے نہ تو دانشوروں نے وہ ماحول دیکھا ہے اور نہ اب وہ کسی ایسے شخص سے اُن حالات کے بارے میں فی الواقع وضاحت کراسکتے ہیں جو 1930ء اور 1940ء کے عشروں میں شعور کی عمر کا ہو۔ اِس لیے جن لوگوں نے نہ وہ ماحول دیکھا ہے اور نہ اُس دور کے کسی عینی شاہد سے گفتگو کرکے اُس دور کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں اُن کے لیے اُس دور میں موجود لوگوں کے اپنے دور میں پائے جانے والے حالات، مستقبل کے ممکنہ منظر نامے اور موجودہ اور مستقبل میں پیش آنے والے خدشات اور خطرات کو، اُن تمام چیزوں کے تجزیے اور حفاظتی اِقدامات کو غلط کہنا مناسب نہیں ہے۔
اِن دانشوروں کے اِس بیانیے میں کہ اُس دور کے مسلمانوں کا دو قومی نظریہ بنانا اور اُس پر عمل کرنا غلط بلکہ نقصان دہ تھا، دو چیزوں کو دھیان میں نہیں رکھا جاتا۔ پہلی چیز یہ ہے کہ 1907ء میں لاہور میں"ہندو مہاسبھا" نامی تنظیم قائم کی گئی تھی جس کے بانیان لالہ لاجپت رائے، سوامی شردھانند، پنڈت مدن موہن مالویا اور ڈاکٹر بی ایس مونجی تھے۔ اِس تنظیم کے مقاصد مندرجۂ ذیل تھے:
1: ہندو مفادات کی حفاظت اور فروغ: ہندو سیاسی حقوق کی وکالت، ہندو تعلیم اور ثقافت کو فروغ دینا، اور ہندؤں کی دوسرے مذاہب میں تبدیلی کی مخالفت۔
2: ہندو راشٹر کا حصول: بھارت کو ہندو قوم کا وطن بنانا جس میں ہندؤں کو غالب سیاسی اور سماجی طاقت حاصل ہو۔
3: مسلم اثر و رسوخ کی مخالفت: مہاسبھا خاص طور پر بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم آبادی کے بارے میں فکر مند تھی، اور اُنھیں ہندو برتری کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔
گو اِس تنظیم کا نام ہندو مہاسبھا تھا مگر دیکھا جائے تو اِس کے مقاصد کو بھی ایک طرح کا دو قومی نظریہ کہا جاسکتا ہے، اور یہ مسلمانوں کے دو قومی نظریے کے سامنے آنے اور اُس کے تلے جمع ہونے سے لگ بھگ نصف صدی پہلے قائم ہوئی تھی۔ اِس لیے صرف مسلمانوں پر خود کو باقی آبادی سے الگ سمجھنے کا الزام، تاریخ کے سیاسی اور سائنسی نقطۂ نظر سے، اصولی طور پر درست نہیں ہے۔
دوسری چیز جس کا ذکر ہمارے دانشور نہیں کرتے وہ ہے اقلیتوں کا کسی خطرے کے سامنے فطری ردِ عمل۔ ہم سب کی ایک ہی وقت میں متعدد پہچانیں ہوتی ہیں جن میں سے کوئی ایک پہچان چن کر ہم اُسے اپنی بنیادی پہچان قرار دے دیتے ہیں اور باقی سب پسِ پشت چلی تو جاتی ہیں لیکن موجود ضرور رہتی ہیں۔ جب اُن میں سے کسی بھی پہچان/شناخت کو حقیقت یا تصور میں خطرہ پیش آتا ہے تو جب تک وہ خطرہ موجود رہتا ہے تب تک اُس کے حوالے والی پہچان/شناخت سامنے آکر بنیادی پہچان/شناخت بن جاتی ہے، اور جب تک وہ خطرہ ٹل نہیں جاتا اُس وقت تک وہ بنیادی پہچان رہتی ہے۔ جب وہ حقیقی یا تصوراتی خطرہ ٹل جاتا ہے تب وہ پہچان اپنے ثانوی مقام پر واپس چلی جاتی ہے اور پرانی بنیادی پہچان/شناخت اپنی جگہ واپس لے لیتی ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ عام طور پر ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب ہماری متعدد پہچانوں میں سے کسی ایسی پہچان کو خطرہ لاحق ہوجائے جس کے حوالے سے ہم اقلیت بن جاتے ہوں۔ مثال کے طور پر میں ایک لسانی قوم پرست کو جانتا تھا جو شیعہ ہیں۔ وہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کے مقام سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنے صوبے میں اپنی مادری زبان کو سرکاری زبان بنانا چاہتے ہیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے وہ سوشل میڈیا پر اردو سپیکنگ شیعوں سے بھی خوب نوک جھونک کرتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر خدانخواستہ ملک میں بڑے پیمانے پر شیعہ سنی فسادات ہوجائیں تو اِس صورت میں وہ مشکل میں پھنسے شیعوں کا ساتھ دیں گے چاہے وہ کسی اور لسانی گروہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ فسادات ختم ہوجانے کے بعد وہ دوبارہ لسانی قوم پرست بن جائیں گے اور اگر ضرورت پڑے تو اپنے نظریات کی خاطر اُن شیعوں سے ہی لڑ پڑیں گے جن کی اُنھوں نے فسادات کے دوران میں مدد کی تھی۔
یہی کچھ 1930ء اور 1940ء کے عشروں میں برطانوی راج میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہوا تھا۔ جب 20ویں صدی کی تیسری دہائی کے دوران میں اُنھیں اندازہ ہوا کہ اِس بات کا امکان ہے کہ انگریز برِصغیر کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں تو اُنھوں نے اُن کے جانے کے بعد کے حالات کا تصور کیا اور اُن کا تجزیہ کیا۔ اُنھیں اندازہ تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں کی بادشاہت بحال نہیں ہوگی بلکہ اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک میں جمہوریت اپنائی جائے۔ اُنھیں یہ بھی پتہ تھا کہ وہ تعداد میں ہندوؤوں سے کہیں کم ہیں۔ اُنھوں نے دیکھا ہوگا کہ ہندو تعلیم اور اثر و رسوخ میں اُن سے بہتر مقام پر ہیں، اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے 1937ء کے بعد قائم ہونے والی کانگریسی حکومت کی کارکردگی بھی دیکھی تھی۔ اِن سب چیزوں سے اُن کے دلوں میں مستقبل کے لیے خوف پیدا ہوا۔ چنانچہ وہ بنگالی ہوں، بہاری ہوں، یو پی، سی پی والے ہوں، پنجابی ہوں یا پٹھان، رئیس ہوں، امیر ہوں، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں یا غریب ہوں، اُس دور کے موجود اور مستقبل کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے اُن کی مسلمان ہونے کی پہچان بنیادی پہچان بن گئی اور باقی تمام پہچانیں پسِ پشت چلی گئیں۔ اِس صورتِ حال میں اُنھیں محسوس ہوا کہ دو قومی نظریہ اُنھیں پناہ فراہم کرسکتا ہے۔
کیا اِن سب باتوں کے باوجود ہم آپ آج کے دور میں بیٹھ کر اُنھیں دو قومی نظریہ اپنانے پر موردِ الزام ٹھہرائیں گے؟ کیا ایسا کرنا مناسب یا قرینِ انصاف ہوگا؟
لہٰذا ہمیں حسنِ ظن دکھاتے ہوئے اُس دور کے لوگوں کو شک کا فائدہ دینا چاہیے اور یہ مان لینا چاہیے کہ اُنھوں نے اپنے مخصوص سیاسی، معاشی اور جغرافیائی حالات کو مدِنظر رکھ کر خطرات کا ادراک کیا، اُن کا تجزیہ کیا، اُس سے نتائج اخذ کیے، اور اُن کی روشنی میں مستقبل کا لائحۂ عمل بنایا۔ چونکہ اُس وقت اُن کے سامنے اپنے لائحۂ عمل کے نتائج اور Benefit of hindsight موجود نہیں تھے اِس لیے اُنھوں نے جو کیا اپنی سمجھ سے صحیح کیا۔
ہاں، یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے دو قومی نظریہ 1930ء اور 1940ء کے عشروں کے حساب سے تو درست نظریہ ہوگا لیکن 21صدی والے پاکستان میں جس کی آبادی میں اِس وقت 97 فیصد مسلمان ہیں، یہ برمحل نہیں رہا۔ اِس لیے ہمیں موجودہ پاکستان کے لیے کسی دوسرے نظریے کی ضرورت ہے۔ اِس بات پر ضرور غور ہوسکتا ہے۔
نیز ایک بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ دو قومی نظریہ نامی سیاسی ہتھکنڈے کا، جو قیامِ پاکستان پر منتج ہوا، سر سید احمد خاں کے کسی بیان سے تعلق جوڑنا ہرن پر گھاس لادنا ہے۔ سر سید نے 1867ء میں جب مسلمانوں اور ہندؤں کے مزید اکٹھے نہ رہ سکنے والی بات کہی تھی تو یہ مرض کی علامت (symptom) بتائی تھی نہ کہ نظریہ پیش فرمایا تھا۔