Zaroorat Kya Thi?
ضرورت کیا تھی؟
امریکی نواز تیرہ سیاسی جماعتوں نے جو کیا اور کررہے ہیں کوئی نئی بات نہیں گذشتہ تیس سال کی نورا کشتی میں انہوں نے دین، دیس اور دیس والوں کے ساتھ جو کیا اورجو آج کل کر رہے ہیں اس پر پریشان اس لئے نہیں کہ ان سے اچھے کی امید نہیں تھی اور نہ ہے۔ حکمرانی میں کیسے آئے یہ سن سن کر کان پک چکے ہیں جن مقاصد کے حصول کے لئے آئے وہ دیکھ رہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو نالائق کہتے کہتے ان سب کی زبانیں ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئیں تھیں لیکن اس نالائق کے خلاف غیر فطری اتحاد کی حکمرانی میں جو دیکھ رہے ہیں تو اپنی سوچ اور عقل پر ماتم کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔
ہم ہی نے تو مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پی ڈی ایم کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر مہنگائی مہنگائی کے تال پر رقص کیا تھا، آج اپنے پیروں کے چھالے چاٹ رہے ہیں تو قصور کس کا ہے ہم نے کھبی سوچا ہے اپنے پاکستان کو، اپنے خونی رشتوں کو، اپنے گذشتہ اور آنے والے کل کو؟ کھبی نہیں سوچا اور سوچنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟
اس لئے کہ ہمارے پاس اپنے سوچنے کے لئے وقت نہیں ہے ان کو سوچتے ہیں جو ہمیں نہیں سوچتے۔ ہم اپنی حقیقت سے بے خبران ہی کے اشاروں پر رقصاں ہیں جو ہمیں نظریاتی غلام سمجھتے ہیں۔
وہ اقتدار میں رہیں تو پاکستان میں عیاشی کریں تختِ اقتدار سے اتریں تو پاکستان کا اللہ حافظ۔ وہ پاکستان چھوڑ جاتے ہیں اور ہم پاکستان میں بیٹھ کر ان کے گیت گاتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ وہ پاکستان میں دفن ہونا بھی اپنی لاش کی توہین سمجھتے ہیں۔
اگر ان کو پاکستان میں دفن ہونے کی خواہش ہوتی تو یہ مفاد پرست کھبی بھی پاکستان کے وجود کو چیلوں اور گدھوں کی طرح نہ نوچتے۔ دراصل ہم دل کے اندھے ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہمارے قومی اور مذہبی شعور کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقت کے لئے جگایا تھا لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہم پاکستانیوں نے ضمیر کو ضمیر اور ایمان فرو شوں کے پاس گروی رکھ دیا!
عمران خان نیازی نے خواب غفلت سے جگایا تو معلوم ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود کو کس بے دردی سے کیسے نوچا جا رہا ہے، عمران خان نے اقتدار میں اور اقتدار کی قربانی دیکر سابق اور موجودہ حکمرانوں کے چہروں سے قوم پرستی اور وطن دوستی کا نقاب اتار دیا، ہر ادارے کو بے نقاب کر دیا اور قوم جان گئی کہ عام انتخابات کے نام پر قوم سے گھٹیا مذاق کیا جاتا ہے۔
ہوتا وہ ہی ہے جو یہود اور ہنود چاہتا ہے، خواجہ آصف نے تو برملا کہہ دیا کہ پاکستان امریکہ کے وینٹی لیٹر پر ہے اور کنفرم ضمانت پر رہا قومی مجرم وزیر اعظم شو بازنے فرمایا ہم بھکاری قوم ہیں یہ لوگ تو خدا اور خدا کی خدائی کو تسلیم ہی نہیں کرتے، جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ ماں کے پیٹ میں کس کے وینٹی لیٹر پر تھے ان کا رازق اور خالق کون ہے!
سال 1997 میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ سترہ ممبران کی اپوزیشن کی قائد بینظیر بھٹو تھیں۔ بجٹ اجلاس میں اس چھوٹی سی حزب اختلاف نے حکومتی ارکان کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ بجٹ پر بحث کے دوران بھی یہ تاثر نہیں ملا کہ یہ محض سترہ افراد کی اپوزیشن ہے۔ وہ ایک مضبوط اپوزیشن تھی جیسا کہ حزب اختلاف کو ہونا چاہیے اور پھر وہ بینظیر بھٹو تھیں۔ ان کے قد کاٹھ کا سیاستدان اپوزیشن میں ہو تو حکومت کے لیے کچھ بھی آسان نہیں ہوتا۔۔
لیکن امپورٹڈ حکومت کا بجٹ اجلاس ماضی سے بالکل مختلف تھا۔ قومی اسمبلی میں پچیس ارکان ہیں جن کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ لیکن دو درجن سے زائد اس اپوزیشن کی زبانوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ بجٹ اجلاس میں نہ تالیوں کی گو نج تھی اور نعرے بازی کی گونج۔ اس وقت ڈیسک ضرور نجتے جب بجٹ تقریر کے دوران عمران خان کی حکومت پر تنقید ہوتی۔ اگر پی ٹی آئی جیسی مضبوط اپوزیشن بجٹ اجلاس قومی اسمبلی میں بیٹھی ہوتی تو مسلم لیگ ن کو خون کے آنسو رلا دیتی۔ اور بجٹ منظور کرنا مشکل ہو جاتا۔
حکومت اور اپوزیشن اراکین کی تعداد میں اتنا کم مارجن ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے اراکین بجٹ کی منظوری کے لیے پورے ہو جاتے تو قومی اسمبلی میں ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد والی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی۔ مضبوط اپوزیشن، اور ایسی اپوزیشن جو آواز رکھتی ہو اور آواز اٹھاتی ہو، جمہوریت کا حسن ہے جو بجٹ اجلاس میں دور دور تک وہ حسن نظر نہیں آیا!
اور مہنگائی کا رونا رو رو کرچور دروازے سے اقتدار میں آنے والوں نے مہنگائی کہ وہ بم گرائے کہ پاکستان کی تاریخ نے بھی انگلیاں چباڈالیں اور الزام عمران خان پر کہ سب کچھ سابق حکومت کا کیا دھرا ہے اگر یہ ہی کہنا تھا! اگر معلوم تھا تو پنگا لینے کی ضرورت کیا تھی!