Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Ye To Pakistan Ki Siyasi Tareekh Hai

Ye To Pakistan Ki Siyasi Tareekh Hai

یہ تو پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے

عمران خان جیل میں ہیں اور پی ڈی ایم کا شیرازہ دست و گریباں ہے، کل کیا ہوگا؟ ہر کوئی جانتا ہے لیکن زندہ ضمیر مشکل کی تاریخی گھڑی میں آنے والے کل سے مایوس نہیں، جب کہ مردہ ضمیر اپنا مستقبل ان کی سوچ میں سوچتے ہیں۔ جو انہیں جنرل الیکشن میں سوچتے ہیں، یہ کھیل پاکستان کے پہلے شہید وزیرِ اعظم کی شہادت کے بعد سے جاری ہے لیکن پہلے کھیلنے والوں میں کسی حد تک انسانیت تھی ان کی آنکھوں میں شرم و حیا کا پانی تھا اس لئے کہ وہ انسان تھے۔

آج کا وہ انسان بظاہر صادق اور امین ہے، لیکن فکر وشعور میں زمیں پر خود میں خدا ہیں! جس کے کندھوں پر بیٹھ کر تختِ اسلام آباد تک جاتے ہیں، تخت پر بیٹھتے ہیں تو ان کندھوں کو بھول کر ان کی گود میں بیٹھ جانتے ہیں۔ جو دیس دشمن ہوتے ہیں، جو پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ہم پاکستانی آنے والے کل سے بے پروا گزشتہ کل میں اپنے کردار اور انتخاب پر ماتم کرتے ہیں۔

تختِ اسلام آباد پر جب ضمیر جاگتا ہے، تو ان کو اقتدار کا شانہ دینے والے جان جاتے ہیں کہ اس کے پر نکل آئے ہیں تب وہ رجیم چینج جیسا کھیل، کھیلتے ہیں۔ عدالت اور صحافت بک جاتی ہے، تخت اقتدار سے گرائے جانے والا اگر زندہ ضمیر اور مومن ہو تو اس کی تذلیل کے لئے دیس کے اداروں کو آگ لگا کر اسے قوم کا غدار کہنے لگتے ہیں۔ اس جرم میں، عادل اور قلم برابر کا شریک ہوتا ہے اور اگر کوئی قلم اپنے ضمیر کی آواز پر زنجیر کے خوف سے بے پروا ہو کر رقص سے انکار کر دیتا ہے، تو اس کا سر قلم کر دیتے ہیں، اس کی زبان کاٹ دیتے ہیں، اور اگر اس ظلم اور بربریت کے خلاف پاکستان کا بیٹا اور بیٹی سڑک پر آتا ہے تو وہ گولی جو قوم اپنے خون پسنے سے خرید کر دشمن کے سینے میں اتارنے کے لئے دیتی ہے وہ ہی گولی خون پسینہ دینے والوں کے سینے میں اتار دی جاتی ہے۔ گھر سے اٹھا کر غائب کر دیا جاتا ہے، بہن بیٹی کا گلاب چہرہ تھپڑوں سے لال کر دیتے ہیں، سڑکوں پر گھسیٹ کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے محب وطن کو اپنے دیس میں زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت عادل کی آنکھوں بند ہو جاتی ہیں اور قلم کا علمبردار مظلوم کا ساتھ چھوڑ کر ظالم کے گیت گانے لگتا ہے، دیس کا منظر نامہ بدل جاتا ہے، اور ہواؤں کے رخ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

سیاست کے اس بے رحم کھیل میں شطرنج کے شاطر کھلاڑی بازی کھیلنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں بقول عاصمہ شیرازی کے، جیوے جیوے فلاں جیوے، آوے ہی آوے، زندہ بادہ، مردہ باد کے نعرے لگانے والے کارکن، صحافی، سوشل میڈیا درباری منظر سے غائب ہو کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور صدائے کے نمازی جیل میں اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں۔ کیا واقعی ہم مجرم ہیں، اگر مجرم نہیں تو ہمارے گیت گانے والے قلم اور صداکار کہاں ہیں تو ان کو اپنے اندر سے آواز آتی ہے، سچائی جھوٹ کے بازار میں نیلام ہوگئی ہے میڈیا کی آوازوں میں وہ پاکستان کے ناپسندیدہ شخصیت کہلانے لگتے ہیں، تب وہ دل کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے۔ یہ تو پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے، میڈیا طاقتور کے دباؤ میں اس کے مخالف سمت نہیں چل سکتی میڈیا والوں کی بھی کچھ خواہشات ہوتی ہیں، ایسے لوگ اپنے پیشے سے مخلص نہیں ہوتے اگر مخلص ہوتے تو اپنی ملازمت حق اور صداقت کی آواز پر قربان کر سکتے ہیں، لیکن ایسی قربانی عام طور پر مشکل ہوتی ہے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra