Nazuk Daur
نازک دور
پاکستان کا کوئی بھی محبِ وطن شہری اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان کے جوان، پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کے محافظ ہیں، پاکستان کی عوام کے ساتھ، قاضی اور حافظ بھی جانتے ہیں بلکہ مومن کا ایمان ہے کہ، ہر زندہ نے ایک دن مرنا ہے، مظلوم نے بھی مرنا ہے اور ظالم نے بھی مرنا ہے مرنے کے بعد ظالم اور مظلوم ایک ہی قسم کے قبر اور قبرستان میں دفن ہوتے اور محشر کے انتظار میں عالم برزخ میں ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، لیکن ہمیں ہمارے شعور نے اس سوچ سے محروم رکھا ہے، ہم زندگی میں، میںِ ، اور انا، کی معراج کے پرستار ہیں، ظالم ہیں، مظلوم سے بے پروا ہیں، البتہ زبان پر گیت مظلوم اور غریب کے لئے ہیں اس لئے کہ سوچ کی پرورش منافقوں کی بستی میں ہوتی ہے، زندہ مثال آج ہمارے پاکستان میں دنیا دیکھ رہی ہے۔
خاص کو نوازا جا رہا ہے۔ عام کو رلایا جا رہا ہے، لیکن آج کا دیکھا جانے والا عمل ہمارے دیس میں کوئی پہلی بار دنیا نہیں دیکھ رہی ہے، پاکستان کی تاریخ کے ہر جمہوری اور خلائی مخلوق کے ادوار اقتدار میں تختِ اسلام آباد پر ایسا ہی ہوتا رہا ہے، جو بھی اقتدار میں رہا نشہء اقتدار میں مست اور مدہوش رہا، تختِ اسلام آباد سے جسے اتارا جاتاہے یا گرایا جاتا ہے تو اسے پاکستان ڈوبتا نظر آنے لگتا ہے، جب ان کے خلاف ان کا بنایا ہوا قانو ن حرکت میں آتا ہے تو الزام آتا ہے، پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان پر، یہ ہی وہ کھیل ہے جو پاکستان کے پہلے منتخب حکمران، قائدِ اعوام، اور آج کے قائد پاکستان کے ساتھ کھیلا جارہا ہے، کون مظلوم ہے اور کون ظالم دنیا جانتی ہے، لیکن ہم پاکستانی آج تک یہ نہیں جان پائے کہ ہم آزاد پاکستان کے باشندے ہیں یا ابھی تک ان ہی کے غلام ہیں، جن سے آزادی کے لئے ہمارے بزرگ اپنے اور اپنوں کے خون میں نہائے تھے، تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ ہم کون تھے اور کون ہیں لیکن ہمارا قومی شعور سو رہا ہے۔
مغرب کے قومی غلام ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے ہوئے ہیں ہم کان نہیں دیکھتے کتے کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں، سیاست دان ہم عام پاکستانیوں کو پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکا کر سڑکوں پر نکال کر ہمارا خون بہاتے ہیں، اور جمہوریت دشمن سیاست دان ہماری لاشوں پر اپنے سیاست کھیلتے ہیں، قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ ہماری لاشیں گرانے والوں کا تعلق کسی یہودی ملک سے نہیں، بلکہ وہ پاکستان ہی کی اولاد ہے۔
پاکستان پولیس فورس اور افواج پاکستان ریاست کے ملازم ہیں، وہ حاکم وقت کے احکامات سے انکار نہیں کر سکتے۔ اگر انکار کرتے ہیں، تو ریاست کے باغی ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ نا چاہتے ہوے بھی وہ ہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں کرنے کو کہا جاتا ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ دونوں اداروں کے جوان، دیس کے بیرونی اور اندرو نی سرحدوں کی حفاظت کے لئے دیس دشمنوں سے لڑتے ہو ئے شہید ہو تے ہیں لیکن آج تک پاکستان پولیس فورس کے کسی شہید کو نشان حیدر نہیں ملاِ، اس لئے کہ نشان حیدر پولیس کے شہید کے لئے نہیں بلکہ افواج پاکستان کے شہداءکے لئے مخصوص ہے۔
ایک سال اور گزر گیا، گردش، ایام بدل گئی، ہندسے بدل گئے، کلینڈر میں تاریخ بدل گئی، مگر حالات نہیں بدلے، سال، 2023، میں دیس اور دیس والوں کے وجود پر لگے زخم آج بھی رس رہے ہیں، جو کل تھا آج بھی وہ ہی ہے، کئی دہائیوں سے جو دیکھا وہ آج بھی دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی صاحب اقتدار اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔۔
قرآن کریم، میں ارشاد ربانی ہے، اے داوود (علیہ سلام) ہم نے تمہیں زمین میں اپنا نائب بنایا ہے۔ سوتم لوگوں کے درمیان حق اور انصاف سے فیصلہ کیا کرو اپنی خواہش کی پیروی مت کرو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔
قاضی اور حافظ بھی جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہ احکامات صرف داوود علیہ سلام کے لئے نہیں تھے، دین مصطفی کے ہر علم بردار کے لئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے دنیا کی بد مستیوں میں انسان کی آنکھیں نہیں دل اندھے ہو جاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے تو زمین پر عاجزی سے قدم رکھتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ظاہر کرکے رہے گا جو صادق اور امین ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے اور مکار ہیں۔