Maidan e Karbala Ke Akhri Shaheed Imam Hussain
میدانِ کربلا کے آخری شہید امام حسینؑ
حسینؑ عظمتِ خیرالوریٰ کا مظہر ہے
حسینؑ جادئہ جمہوریت کا رہبر ہے
حسینؑ جس نے بجھایا یزیدیت کا چراغ
علم اُسی کا بلند آج تک فلک پر ہے
سرورِ کائنات امام الانبیاء فخر موجودات، خاتم الانبیاء رحمة اللعالمین حضرت محمدؐ دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو خانوادئہ رسول پر توہین آمیز مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا، جب نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ نے یزیدیت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہوئے دین مصطفےٰؐ کی سر بلندی کیلئے عشق مصطفےٰؐ میں عظمتِ ایمان کا علم بلند کیا تو نواسہ رسول کو اُن کے خاندانِ رسالت کے بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کو تین دن تک ریگِ کربلا میں پیاسا رکھ کر شہید کر دیا۔
میدانِ کربلا میں نواسہ رسولؐ کو ربِ کائنات کے حضور سجدے میں شہید کر کے یزیدیت کے بدبخت ظالموں نے قافلہ حسینؑ میں شریک عصمت و طہارت کی پیکر خواتین کو رسیوں سے باندھ کر قیدیوں کی طرح کوفہ کی گلی کوچوں اور بازاروں میں گھما کر خانوادئہ رسول کے خاندان کی توہین کی، وہ چہرے جو اپنوں نے بھی پردے میں دیکھے تھے کوفہ کے مکینوں نے سرِعام دیکھے۔ خدا کی لعنت ہو اُن پر جنہوں نے ایسا ظلم کیا اور اُن پر جو قافلہ حسینؑ پر ظلم کی انتہاء دیکھتے رہے پھر بھی خاموش رہے۔
فضا اُداس ہے شبیر کے پسینے پر
غمِ حسینؑ ہے اک قرض میرے سینے پر
اے کربلاکی زمیں تُو ہی میری جنت ہے
لہو گرا ہے محمدؐ کا تیرے سینے پر
عالمِ اسلام میں چودہ سو سال سے ہم غمِ حسینؑ کی یاد مناتے چلے آ رہے ہیں۔ صدیوں پہلے روا کیے جانے والے ظلم پر ہم عاشقانِ اہلِ بیت سراپا احتجاج ہیں نواسہ رسولؐ کے قافلے پر ہونے والے ظلم سے ہمارے ضمیر و خمیر میں ظالم سے نفرت اور مظلوم سے محبت کو گوندھ دیا گیا ہے۔ خانودائہ رسول سے محبت دینِ مصطفےٰؐ کی پاسداری و نصرت ہماری نسلوں میں منتقل ہوتی آئی ہے اور ہم اُن کی وہ اولاد ہیں جو عظمتِ ایمان کی علمبرداری میں دینِ مصطفےٰؐ کی تابعداری میں، صدائے حق کی پاسداری میں، شہادت کی موت کو شہد سے زیادہ شیریں مانتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں خانوادئہ رسولؐ، شہدائے کربلا، غم حسینؑ منانا ہی دین اسلام کی عظمت اور حیات کا ضامن ہے۔ حصول مقصدِ حسینؑ کیلئے جدوجہد مسلم کی شان اور ہمارا مقصدِ حیات ہے۔ ہم دینِ مصطفےٰؐکے علمبرداروں کا ایمان ہے کہ شہادت ہماری میراث ہے ہمارا افتخار ہے۔ شہدائے کربلا کی یاد میں ہمارے شعور کی آنکھ سے بہتا ہوا غم، شہدائے کربلا سے ہماری محبت ہے۔
محرم الحرام میں شہدائے کربلا کی یاد میں ہمارے جذبات اور احساسات کا عکس فکرِ یزید کے چہرے پر وہ نقش ہے جو قیامت تک اُن کے مکروہ چہرے پر محسوس ہوتا دیکھا جاتا رہے گا۔ غم حسینؑ یاد علامت ہے ظالم سے نفرت کی، مظلوم سے محبت اور نصرت کی، غمِ حسینؑ سننے اور سنانے والا خانوادئہ رسول کی عظمت کا علمبردار اور دینِ مصطفےٰؐ کا وفادار ہے۔ غمِ حسینؑ نہ مٹنے والا غم، جب تک باطل حق سے برسرِپیکار رہے گا نام حسینؑ فضاؤں میں گونجتا رہے گا۔
حسینؑ ابنِ علی نواسہ محمد رسول اللہ فرزندِ عظیم دختر فاطمتہ زہرہؑ، حسینؑ ابنِ علی کا نعرہ تھا۔ میں راہِ حق میں دینِ مصطفےٰؐ کی بقاء کیلئے شہید ہو جاؤں گا لیکن باطل کی بالادستی کو کبھی بھی تسلیم نہیں کروں گا۔ ظلم و ستم کو روکنا حسینؑ کا مقصدِ حیات تھا۔ یہی مقصود حقیقی تھا جس کے حصول کی خاطر میدانِ کربلا میں آپ حضرات نے اپنے رفقاء اور خاندان اہل بیت کے ساتھ ایثار و قربانی کا عظیم ترین مظاہرہ کرتے معرکہ حق و باطل کے آخری لمحوں میں اپنے طفل شیر خوار کو بھی راہِ حق میں قربان کر دیا۔
امام حسینؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا میں حضرت امام حسینؑ کا عظیم کردار ظلم و جبر کی بالادستی کے خلاف اسلامی انقلاب کا سر چشمہ بن گئ۔ حضرت امام حسینؑ کے حسن و کردار کا اعتراف کرتے ہوئے مہاتما گاندھی آزادیء ہندوستان کیلئے اپنے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر ہم آزادی کے خواہش مند ہیں تو آزادی کا وہی راستہ اختیار کرنا ہو گا اُسی نقشِ قدم پر چلیں گے جیسے حسینؑ ابن علی نے اختیار کیا۔
شہادت حسینؑ کو صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اس عظیم قربانی کی یاد آج بھی باقی ہے۔ 10 محرم 61ھ (4 اکتوبر0 68ء)کو رونما ہونے والا معرکہ حق و باطل نے عالمِ کائنات کی ہر قوم و تہذیب کو اپنے ثمرات سے مستفید کیا۔ شہادتِ حسینؑ ہر دورِ انسانیت کیلئے درس حیات ہے۔ کردارِ حسینؑ کے مومن تو کیا غیر مومن بھی معترف ہیں اور کردارِ حسینؑ کو کلماتِ تحسینؑ سے نوازتے ہیں۔
اس لیے کہ حسینؑ ابن علیؑ نے عظیم ترین مجاہدے اور شہادت سے دین مصطفےٰؐ کے علمبرداروں کو آبرو اور حرمت بخشی اس لیے جہانِ بشریت کے رہبر رہنما کہلاتے ہیں۔ آپؓ میدانِ کربلا میں معرکہ حق باطل کے لمحوں میں دشمنوں کے محاصرے میں کربلا کے ریگ صحرا میں ایک مہکتے گلاب تھے۔ آپ اور خاندان اہل بیت کے سامنے موت کھڑی نظر آ رہی تھی۔
بعد از شہادت خاندان اہل بیت پر یزیدی ظلم و ستم کے شدید خطرات کو محسوس کر رہے تھے اس کے باوجود آپ سرزمین عراق کے سورج کی جلا دینے والی شعاعوں کے نیچے اپنے رفقاءکے ساتھ اپنے پسینے میں مہک رہے تھے۔ آپ ؓ صرف ایک مظلوم اور رستم رسیدہ شہید ہونے کی وجہ سے خلائق کے دلوں کا مرکز نہیں بلکہ آپؓ کی حیات میں آپؓ کا حسنِ کردار ذاتی خصوصیات اوصاف و کمالات بھی آپ ؓ کے کردار کی بلندی پر دھمک رہے تھے۔
اس لیے کہ آپؓ کی شریانوں میں محمد مصطفےٰؐ کا لعاب دہن خون بن کر دوڑ رہا تھا۔ آپ حضرت فاطمہؑ کی گود میں زندگی کے حسن سے سرفراز ہوئے آپ امیر المؤمنین حضرت علیؑ جیسی عظیم المرتبت ہستی کی رہنمائی اور حضرت امام حسنؑ کےساتھ زندگی کے بہترین ایام گزارے۔ امام حسینؑ بے شک معرفتِ خدا کا ایک بڑا ذریعہ اور اس کی ایک نشانی تھے جن کے اوصاف و کمالات دیکھ کر اللہ پر ایمان پختہ ہوتا ہے۔
حضرت امام حسینؑ کی دریا دلی دیکھئے۔ میدانِ کربلا میں یزیدی فوج کے سالار اپنے لشکر کے ساتھ میدانِ کربلا میں آیا تو گرمی کی شدت سے انسان تو کیا جانوروں کی زبانیں بھی شدت تشنگی سے باہر نکلی تھیں۔ حضرت امام حسینؑ نے یہ منظر دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا لشکر کو پانی پلاؤ۔ صحرا کربلا میں پانی کی نایابی کے باوجود حر کی قیادت میں دشمنانِ دین کے ساتھ اُن کے جانوروں کو بھی پانی پلایا۔
یہ وہی لشکری تھے جنہوں نے معرکہ حق و باطل میں امام حسینؑ کے ساتھ قافلہ حسینؑ کے اہل خانہ، بچوں اور خواتین تک کو تین دن تک پیاسا رکھا۔ آپ نے جامِ شہادت نوش کیا لیکن دشمن کو طعنہ نہ دیا کہ کل ہی تو ہم نے تم کو تمہارے جانوروں کے ساتھ پانی پلایا۔ میدانِ کربلا میں نواسہء رسول حضرت امام حسینؑ کے سامنے زندگی آخری لمحوں پر تھی لیکن ذاتی زندگی کو دین حق پر قربان کرنے کیلئے میدان میں ڈٹے رہے۔
امام حسینؑ اگر چاہتے تو اپنی زندگی کیساتھ قافلہء حسینؑ بھی بچ جاتا صرف ایک نگاہ بلند کرنے کی ضرورت تھی لہر خداوندی سے یزیدی لشکر تباہ ہو جاتا لیکن یہ مقام رضا کے منافی تھا۔ میدانِ کربلا میں آفتاب کی تمازت سے تپتی راہ پر شہادت کی کٹھن اور صبر آزما منزلوں پر حسینؑ اپنے رفقاء کیساتھ صبر و رضا کے امتحان میں کامیاب و کامران دکھائی دئیے۔
کسی فردِ واحد نے میدان کربلا میں امام حسینؑ کو کسی سے شکوہ کرتے یا دشمنانِ دین سے درخواستِ زندگی کرتے نہیں دیکھا نواسہ رسولؐ نے میدانِ حق میں دین مصطفےٰؐ کی بقاء اور اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے عظمت کے مینار، جرات و شجاعت کی رہتی دنیا تک مثال بن کر یزیدوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے۔ آپ حق و صداقت اور دین کی سر بلندی کے لئے عظیم تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنے وجود پر تیروں کے بے شمار زخم کھا کر گھوڑے سے گرتے ہوئے زمین پر آئے اور اپنے عظیم مقصد کی کامیابی میں اپنے خدا کے حضور سرخرو ہو کر سجدے میں گئے۔
جب تک آپ کے ہاتھ میں تلوار تھی یزیدی قریب نہیں آ سکے۔ یزیدی اس وقت کے انتظار میں تھے، سجدہ ریز حسینؑ کی گردن پر قاتل کی تلوار چلی۔ حسینؑ میدانِ کربلا کے آخری شہید ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ حق و باطل کی یہ دو قوتیں زندگی سے رونما ہوتی رہتی ہیں۔ مگر حق ہمیشہ قوتِ حسینؑی سے زندہ ہے اور باطل آخر کار داغ حسرت لے کر مر جاتا ہے۔ اس نے قیامت تک صبر واستبدار کو فنا کر دیا اس کے خون کی ایک موج نے گلستان پیدا کر دیئے۔
وہ صرف قیام و استحکام کے لئے شہید ہوا اس لیے اس کی ہستی توحید کی بنیاد ہو گئی اُس نے سینہ صحرا پر توحید کا نقش ثبت کیا اور گویا ہماری بخشش اور نجات کی سطر لکھ دی۔ واقعہ کربلا، تاریخ انسانیت کا وہ عظیم سانحہ ہے جس میں نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتول فرزند علی، حضرت امام حسینؑ نے اپنے ساتھ اپنے عزیز و اقارب اور جانثارانِ دین کی عظیم قربانیاں دے کر دین مصطفےٰؐ کے پرچم قیامت تک کیلئے سربلند کر دیے۔
واقعہ کربلا پوری انسانیت کے لیے چراغ ہدایت ہے۔ امام حسینؑ عقیدت و اظہار کا مرکز ہے۔ سرورِ کائنات کا امام حسینؑ کے بارے میں یہ حدیث زبانِ عام ہے جس پر حضورؐ نے فرمایا "حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں" سرورِ کائنات نے مسجدِ نبویؐ میں اپنے خطبے کے دوران امام حسینؑ کو اپنے زانوئے اقدس پر بٹھایا اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
اے لوگو! پہچان لو یہ میرا نو اسہ حسینؑ ہے جو اس سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو اس سے دشمنی کرے گا وہ مجھ سے دشمنی کرے گا۔ حضرت امام حسینؑ نے یزیدی بیعت سے انکار کر کے دین مصطفےٰؐ کو بچانے کیلئے شہادت عظمیٰ پر فائز ہو کر دنیائے انسانیت کو درس دیا کہ حق و صداقت کیلئے باطل کے سامنے سر کٹایا جا سکتا ہے جھکایا نہیں جا سکتا۔
امام حسینؑ نے میدانِ کربلا میں دسویں محرم کی شب عاشور اپنے جانثاران سے فرمایا میں جانتا ہوں کل اس مقام پر میری شہادت ہو گی وقت قریب آ چکا ہے رات کی تاریکی ہے میں اجازت دیتا ہوں جو شخص جہاں چاہے واپس جا سکتا ہے۔ مگر آپ کے وفاداران نے آپ کی سرداری میں شہادت کے رتبے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا اے فرزندِ رسول! اگر ہم قتل ہو کر دوبارہ بھی زندہ ہو جائیں تو بھی آپ کی نصرت ورفاقت سے منہ نہ موڑیں گے۔
امام حسینؑ کے ساتھیوں نے عہد وفا کو نبھا کر قیامت تک کے لئے بہترین مثال قائم کر دی۔ حضرت امام حسینؑ نے روز عاشور افواج یزید کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ اے لوگو! مجھے پہچانو میں تمہارے نبی محمدؐ کا نواسہ ہوں کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا بیٹا ہوں، کیا میں علی ابن ابی طالب کا فرزند نہیں ہوں کیا تمہیں میرے نانا کا یہ فرمان یاد نہیں کہ حسن اور حسینؑ نوجوانانِ جنت ہیں؟
سانحہ کربلا ایک تاریخی مثالی اور عزم واستقلال سے بھرپور واقعہ ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، اس لیے کہ واقعہ کربلا عظمت و توقیر کی ایک بنیاد ہے حضرت امام حسینؑ کربلا کے ریگ زار میں طلب سلطنت یا جذبہ انتقام کیلئے نہیں گئے بلکہ ان کے حضور ان اُصولوں کی سچائی کا دنیا کو ایک بار پھر مشاہدہ کرانا تھا جو اسلامی معاشرے کیلئے اس اعلان کیساتھ مقرر کیے گئے تھے کہ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
یہ جنگ تھی اُصولوں کی، سچائی اور صداقت کی، اسلامی اقدار کی بقاء کی اس جنگ میں بظاہر تو فریق جیت چکا تھا لیکن یہ دراصل ان کی پسپائی تھی شکست تھی میدانِ کربلا کے آخری شہید امام حسینؑ تین دن کے بھوکے پیاسے کار زار کربلا میں جرات و استقامت اور جوانمردی کی لازوال مثال جس پر تاریخ انسانیت کو آج بھی ناز ہے۔ شہادت امام حسینؑ فقط حق پر گردنیں کٹانا نہیں بلکہ دشوار ترین حالات میں حق و صداقت کو مصلحت کی بھینٹ نہ چڑھانا اور حق کی خاطر تمام مصلحتوں کو قربان کر دینے کا نام ہے۔