Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Logon Ko Kya Bachayenge

Logon Ko Kya Bachayenge

لوگوں کو کیا بچائیں گے

جنرل الیکشن، 8 فروری 2024، سے پہلے مدینہ ثانی کے علم برداروں کے ساتھ جو ہوا پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کے ساتھ نہیں ہوا، لیکن 8 فروری 2024، کے بعد جو ہوا، اور ہورہا ہے اس پر تو دنیا انگشت بدنداں ہے، پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو کریش کرنے کے لئے سامراجی قوتوں کے غلاموں نے وہ سفاکانہ اور ظالمانہ حربے اپنائے جو بھارتی فوج مقبو ضہ کشمیر میں اور اسرائیل، بیت المقدس، فلسطین، اور غزہ میں اپنائے ہوئے ہے، لیکن سلام ہے غیورپاکستانیوں کو جو جھکے نہیں بلکہ ڈٹے رہے۔

طاقت کے سرچشمہ عوام کا، عظیم قومی جذبہ دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں، پاکستان دشمن قوتوں کے ترجمان نگران حاکم وقت نے تحریکِ انصاف سے اس کی پہچان انتخابی نشان "بلا" تک چھین لیا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کی عوام کا انتخابی نشان عمران خان ہے۔ اڈیالہ جیل میں قید وہ عمران خان جس کی قومی سوچ نے بے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چھٹہ کی سچائی سے قومی ایوانوں میں زلزلہ آگیا ہے، لیکن اپنی موت سے بے پرواہ درباری ترجمانوں کا جوابی ری ایکشن انتہائی گھٹیا ہے۔

جنرل الیکشن، 8 فروری 2024، میں پاکستان کے شیدائیوں نے قومی تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، اور تحریکِ انصاف کو اعتماد کا ووٹ دے کر، جماعت اسلامی، تحریکِ لبیک، جمیعت العلمائے پاکستان، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم کے ساتھ تا نگہ پارٹیوں، خیبر پختون خوا کے خانوں، بلوچستان کے سرداروں، سندھ کے وڈیروں پنجاب بھر میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی صفِ اول کے ترجمانوں کو مکمل طور پر مسترد کرکے ایک خوبصورت آزاد اور خود مختار پاکستان کے لئے ووٹ دیا، لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا الیکشن ہے جس میں ووٹ کی عزت اور جمہوری اقدار کا خون انتہائی بے دردی سے بہایا گیا، اس لئے معاشی اور سیاسی غیریقینی کی صورتِ حال کی وجہ سے قوم اپنے تابناک مستقبل سے مایوس لگنے لگی ہے۔

جنرل الیکشن میں پاکستان بھر کے ساتھ گجرات ڈویژن میں گجراتیوں نے گجرات کے موروثی سیاسی خاندانوں کی سیاست کا جنازہ نکال دیا، ضلع گجرات کی چار قومی اور آٹھ صوبائی نشستوں پر تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزادامیدوار پولنگ سٹیشنوں میں بھاری اکثریت سے جیت گئے لیکن دوسرے دن 9 فروری 2024 کوآر اوز کے دفاتر میں بلٹ نے بیلٹ کو اغوا کرکے جمہوریت کو بے آبرو کر دیا، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اور تحریکِ انصاف کے آزاد امیدواروں کے مقابلے میں تیسری او چوتھی پوزیشن پر آنے والی ق لیگ کے تمام امیدواروں کو جتوا دیا گیا اور پولنگ سٹیشن میں ہزاروں ووٹوں سے جیتنے والوں کو ہروا دیا گیا!

بلٹ کے غلام آر اوز نے بند کمروں میں بیٹھ کر 25 کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ تبدیل کر دیا، جن میں مسلم لیگ ن گجرانوانوالہ ڈویژن کے صدر چوہدری عابد رضا کوٹلہ کو بھی شامل ہیں آج 9 فروری 2024 کو آر اوز کے دفاتر میں دھاندلے کی گونج سپریم کورٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے غلام سپریم کورٹ سے انصاف کی امید تو نہیں لیکن بیلٹ کے اغواکاروں اور جمہوریت کے قاتلوں کو بے نقاب تو کرنا ہے!

رجیم چینج سے 8 فروری، تک کے درمیانی عرصے میں پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ظلم اور بربریت کی جو تاریخ رقم ہوئی اس کا دیباچہ سامراجی آقاؤں کی خواہشات پرپہلے ہی لکھا گیا تھا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ 26 مارچ 2022ءکو سابق آ رمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف،آ صف علی زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، خالد مگسی، شاہ زین بگٹی، اختر مینگل، خالد مقبول، فیصل سبزواری، ملک احمد خان شریک تھے جب قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن کے رہنماوں سے کہا کہ اگر وہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لیں تو بدلے میں عمران خان مڈٹرم الیکشن کرائیں گے، جواب میں مولانا کے ساتھ بلاول بھٹونے اس خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے آرمی چیف سے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اپوزیشن والوں کا جمہوری حق ہے اور وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے یہ آ ئینی طریقہ ہے۔ بلاول بھٹو نے باجوہ کو واضح الفاظ میں کہا کہ اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن پر تحریک واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا تو وہ اس بارے میں عوام کو بتا دیں گے۔

جب کہ مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔ اس وقت اگر میں انکار کرتا تو کہا جاتا فضل الرحمان نے عمران خان کو بچا لیا تحریک عدم اعتماد کے دوران آرمی چیف جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے اس طرح کرنا ہے، مولانا نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس منصوبے پر مہر لگا دی۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کے تما م تر حربوں کے باوجود جنرل الیکشن میں طاقت کے سر چشمہ عوام نے نورا کشتی کے جن کھلاڑیوں کو مسترد کر دیا تھا انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تخت اسلام آباد پر بٹھا دیا ہے، آج نظام عدل بھی گونگا، بہرا، اور اندھا ہے لیکن کھبی کھبی کوئی آواز زندہ ضمیروں کی زبان پر آجاتی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ہم چوروں ڈاکووؤں سے لوگوں کو کیا بچائیں گے، ہم تو ابھی اپنے لوگوں کو ان اداروں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی ذمہ داری لوگوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر یونیفارم والے اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کریں گے تو انھیں اس کا جواب بھی دینا ہوگا۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas