Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Kuch Bhi Na Kaha Aur Keh Bhi Gaye

Kuch Bhi Na Kaha Aur Keh Bhi Gaye

کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے

چٹائی پر دیوار سے ٹیک لگائے بیڑیوں کی تپش میں بے چین نوجوان کریم گل اپنے سامنے نگرانی پر مامور افراد کے چہروں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ شکل وصورت میں تو مسلمان نظر آ رہے تھے لیکن فطرت میں کچھ اور تھے البتہ سامنے برآمدے میں چارپائی پر نیم دراز فرد کی پیشانی پر محراب اُس کے مسلمان ہونے کی نشانی تھی، اُس کی زبان بھی اپنے دوسرے دو ساتھیوں سے مختلف تھی۔ وہ پٹھان لگ رہا تھا اور دوسرے دونوں آپس میں کوئی اور ہی زبان بولتے تھے۔ ان کے بولنے کے انداز سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ پٹھان نہیں ہیں۔

کریم گل نے نگرانی پر مامور افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، آج جمعة المبارک ہے اور آنے والی شب مسلمانوں کیلئے برکتوں والی عظیم شب، شب معراج ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں ظہر پڑھ لوں؟ دونوں باریش افراد میں ایک کہنے لگا نماز پڑھ کر کیا کرو گے؟ خدا اگر تمہاری مدد کرتا تو تم اس حالت میں نہ ہوتے۔ کریم گل کہنے لگا، میرے اللہ کو میری نمازوں کی ضرورت نہیں ہے اللہ میرے دل میں ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟

میرا ایمان ہے میں نے خلوص نیت سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے اب اگر تم اجازت نہیں دیتے تو بھی میرے خدا نے میرے ارادے اور نیت پر میری نماز قبول کر لی ہے۔ میرے خدا کی لاٹھی بے آواز ہے میں جانتا ہوں کہ مومن کے امتحان کیا ہوتے ہیں؟ برآمدے میں چارپائی پر بیٹھا ہوا فرد اُٹھ کر آیا اور کریم گل کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر پوچھا بڑی اچھی باتیں کر رہے ہو اتنی کم عمری میں ایسی پیاری باتیں کہاں سے سیکھی ہیں تم نے؟

کریم گل کہنے لگا، مسلمان ماں کی گود میں زندگی کی پہلی سانس لینے والے کے کانوں میں براہ راست پہلی آواز اللہ اکبر کی ہوتی ہے یہ آواز بچے کے دل و دماغ کو آلائشوں سے پاک کر دیتی ہے۔ اللہ کا اسم پاک دل پر نقش ہو جاتا ہے تہذیب یافتہ ماں کی گود میں پرورش پانے والا بچہ والدین کی نیک تربیت اور حسنِ عمل سے اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے لیکن اگر بھٹک جائے تو برباد ہو جاتا ہے، نام کا مسلمان رہ جاتا ہے۔

آپ بھی تو مسلمان ہیں آپ دین مصطفے ﷺ کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں لیکن مجھ جیسے معصوم لوگوں کو اغوا کر کے ان کے سر کی قیمت مانگتے ہیں آپ لوگ نماز بھی تو نہیں پڑھتے؟ اس آدمی نے کریم گل کی بیڑیاں کھول دیں برآمدے میں پڑے پانی کے مٹکے سے کوزے میں پانی بھر کر لایا اور کریم گل سے کہا لو بیٹا وضو کر لو، نگرانی پر مامور دوسرے دونوں افراد خاموش تماشائی تھے۔ کریم گل اور اُس کے مہربان رب کریم کے حضور سر بسجود ہو گئے۔

نماز پڑھ کر کریم گل نے کہا آپ لوگوں نے گذشتہ آٹھ دن سے تاوان کیلئے مجھے یہاں پابند رکھا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس دن جس دکان سے آپ مجھے اُٹھا کر لائے تھے میں وہاں کیوں بیٹھا ہوا تھا؟ دکاندار نے بھی آپ ہی کی طرح مجھے بٹھایا تھا ہم نے اُس کے 21 ہزار روپے دینے ہیں۔ میرے والد دبئی میں ضرور ہیں لیکن آپ لوگ نہیں جانتے کہ کن حالات سے مجبور ہو کر وہ گھر بار چھوڑ کر پردیس ہجرت کر گئے ہیں۔

دروازے پر دستک ہوئی تو ایک فرد بولا یہ خبرنامہ کی دستک ہے وہ ایک مخصوص دستک تھی کریم گل بھی اس دستک سے مانوس ہو گیا تھا۔ کریم گل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر پٹی باندھنے والے نے کہا دیوار کی طرف کروٹ لے کر خاموشی سے لیٹ جاؤ۔ خبرنامہ کوئی خاتون تھی۔ جو پیغام رسانی پر مامور تھی وہ جب بھی آتی سرگوشی میں بات کرتی کریم گل کو شک تھا کہ وہ اس خاتون کو جانتا ہے کیونکہ اُسے اُس کی آواز اپنوں سی لگتی تھی۔

دروازہ کھلا تو خبرنامہ رو رہی تھی افراد نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ خبرنامہ بولی اب تمہیں اس بچے کو قید رکھنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ اُس کی آواز پہلے کی نسبت کچھ اُونچی تھی۔ کریم گل تڑپ اُٹھا یہ تو ہماری گل ببو ہے۔ گل ببو گاؤں کی مراثن تھی۔ دیہات اور شہروں میں مراثی خاندان کے لوگ عام طور پر غمی خوشی کے موقع پر پیغام رسانی، شادی بیاہ، رسم مہندی اور دیگر خوشی کی تقریبات میں ڈھول باجے کے علاوہ برتن دھونے اور دیگر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔

یہ لوگ ایک قسم کے گھر کے افراد ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ گل ببو بہت ہی اچھی خاتون تھی کریم گل اُسی کی گود میں پنگھوڑے سے لڑکپن تک کھیلتا رہا تھا۔ خبرنامہ کہنے لگی، کریم گل کے والد دوبئی میں زیر تعمیر عمارت کی ساتویں منزل سے زمین پر گر کر اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں (کریم گل تڑپ اُٹھا) بچے کیلئے گھر میں پہلے ہی ماتم تھا، آج اس کے والد کی موت کی خبر گھر میں کسی قیامت سے کم نہیں تھی، اس کی بوڑھی والدہ کی حالت غیر ہو گئی ہے۔

کریم گل پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑا تھا لیکن اُس کے صبر کی انتہا تھی۔ وہ اپنے دکھ اور تڑپ کی آواز کو روک کر دل ہی دل میں سسکیاں لینے لگا۔ گل ببو کہنے لگی اللہ مجھے معاف نہیں کرے گا جس گھر کا ہم اور ہمارے آباؤ اجداد نمک کھاتے چلے آ رہے ہیں میں اُسی گھر کی مخبری کر رہی ہوں۔ اس گناہ سے تو بہتر ہے کہ آپ لوگ ہمارے گھر کو ہم سب گھر والوں کیساتھ بم سے اُڑا دیں افراد میں ایک فرد نے قہقہہ لگا کر کہا مراثیوں کی ویسے بھی جنت میں کوئی جگہ نہیں۔

گل ببو نے کہا ہم مراثی بھی خدا کی مخلوق ہیں رشتے خاندان اور قومیں تو اُوپر بنتی ہیں۔ کائنات کے حسن اور نظام حیات کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو مختلف رنگوں، قوموں، نسلوں اور طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے صرف ایک واحد اللہ ہی سب کا رازق ہے۔ مراثی بھی صاحب ِایمان ہوتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے ایک فرد گل ببو کی تقریر برداشت نہ کر سکا۔ غصے میں آ کر اُس نے گل ببو کی پیشانی پر کلاشنکوف رکھتے ہوئے کہا ایک بات بھی زبان سے اور نکالی تو دماغ سامنے کی دیوار پر بکھیر دوں گا۔

گل ببو جو بیٹھی ہوئی تھی اُٹھ کھڑی ہوئی اُس کا خوف ہوا ہو گیا تھا کہنے لگی بزدل آدمی مجھ عورت کو دھمکی دیتا ہے ہمت ہے تو چلا گولی، گل ببو آنکھیں بند کر کے بولی میں گواہی دیتی ہوں اللہ ایک ہے اور محمد مصطفے ﷺ اللہ کے محبوب اور آخری رسول ہیں یہ کہہ کر وہ رب العزت کے حضور سجدے میں چلی گئی۔ کریم گل اُٹھا آنکھوں پر سے پٹی اُتار دی کہنے لگا گل ببو یہ طالبان نہیں ظالمان ہیں۔

وہ گل ببو کے سامنے کھڑا ہو گیا، چلاؤ گولی تم لوگوں نے میری ماں جائی گل ببو کو مخبری پر مجبور کر رکھا ہے تم ظالم لوگ شریعت کی آڑ میں اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کیلئے معصوم مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہو۔ تم لوگ اُجرتی قاتل ہو تم کیسے مسلمان ہو؟ تم تو مسلمان کے نام پر بد نما داغ ہو۔ گل ببو ایک دم اُٹھی کریم گل کو سامنے سے ہٹا کر بولی نہیں میرے بچے آج تم پر تمہاری گل ببو قربان ہو گی۔

وہ گرجدار آواز میں بولی چلا گولی بد بخت آج ایک مراثن کو اُس کے ایمان پر اُس کا یقین دیکھو۔ اس نے دونوں ہاتھ اُوپر اُٹھا کر آنکھیں بند کر لیں اور بلند آواز میں بولی اللہ اکبر۔ مشین گن کی تھر تھراہٹ سے گھر کا صحن گونج اُٹھا، گل ببو اور کریم گل کی آنکھیں کھلیں ایک درد ناک منظر تھا۔ سامنے کی دیوار پر دونوں طالبان کا دماغ چپک گیا تھا۔

برآمدے میں کھڑا مہربان مشین گن اُٹھائے رونے لگا تھا اُس نے کہا تم دونوں میرے حق میں دعا کرو اور جس قدر جلدی ہو سکے تم دونوں اس علاقے سے نکل جاؤ۔ گل ببو نے کریم کا ہاتھ پکڑا جانے لگی دہلیز پر جا کر پیچھے دیکھا تو مہربان شخص نے دونوں کو دیکھا وہ خاموش تھے لیکن اُن کی آنکھیں بول رہی تھیں دونوں نے آنکھوں آنکھوں میں بہت کچھ کہہ دیا جیسے ہی وہ دہلیز پار کر کے ڈھلوان پر سے اترے مکان کے اندر سے مشین گن کی تھرتھراہٹ میں اس گھر کے در و دیوار ہل گئے۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry