Kisi Goonge Ki Main Taqreer Ban Kar Likh Raha Hoon
کسی گونگے کی میں تقریر بن کر لکھ رہا ہوں
رحمان و رحیم نے قرآن کریم میں سرور کائنات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، قسم ہے قلم کی اور جو لکھتے ہیں (فرشتے یا اہلِ قلم)آپ اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں اور بے شک آپ کے لئے ایسا اجر ہے جو کھبی ختم ہونے والا نہیں اور آپ اخلاق والے ہیں پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے واقعی دیوانہ کون ہے، بے شک آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون راہِ راست سے بہک چکا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون راہ راست پر ہے پس آپ ان جھٹلانے والوں کی بات نہ سنیں آپ ذرا نرمی پر اتر آئیں، آپ کسی قسمیں کھانے والے ذلیل شخص کی باتیں نہ مانیں جو لوگوں کوطعنہ دیتا ہے اور چغلیاں کھاتا پھرتا ہے جو نیک کاموں سے روکتا ہے اور حد سے بڑا ہوا مجرم ہے جو بد زبان ہے اور بدنام بھی ہے یہ اس لئے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے!
ہم بحثیت قوم سرور کائنات کے غلام اور دینِ مصطفی ﷺ کے علم بردار ہیں لیکن رب کریم کی ہدایات اور ارشادات سے بے پرواہیں، دینِ مصطفی ﷺ کی بات تو کرتے ہیں لیکن خود پر دین نافذ نہیں کرتے۔ یہ ہی منظر آج ہم اپنے دیس میں دیکھ رہے ہیں، ہر کوئی اپنی بولی بول رہا ہے، ہم پاکستان کی عوام آزاد پاکستان کے باشندے ہیں لیکن یہودی و ہنود کے ذہنی غلام ہیں۔
قومی قیادت کی اندھی تقلید میں اپنے دین اور دیس کی عظمت اور وقار سے بے خبر ہیں ان ہی کے گیت گاتے ہیں جن کے سیاسی نظریاتی غلام ہیں، اپنے گر یبان میں جھانکنے کی توفیق نہیں دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، اندھیر نگری چھوپٹ راج اور بدھو کمپنی تاجہ حوالدار ہے، جو حکمران تھے یا حکمران ہیں آپس میں دست وگریبان ہیں انہیں دیس اور دیس والوں کی کوئی خبر نہیں کہ دیس اور دیس والے کس ذہنی اذیت سے دوچار ہیں، ہر کوئی بے لگام ہے، لاقانونیت کی انتہا ہے۔ جس کا جہاں تک بس چلتا ہے دیس اور دیس والوں کو لوٹتا ہے۔
انتظامیہ میں ایسے صاحبانِ ضمیر ہیں جو عوام کا درد رکھتے ہیں لیکن بے بس ہیں خاموش تماشائی ہیں اس لئے کہ ان کی بھی شنوائی نہیں ہوتی، تختِ اسلام آباد کی جنگ میں پاکستان دوست پریشان ہیں اور دیس دشمن خوشی سے بے حال ہے۔ اس لئے کہ ہم دیس والے عام لوگ اپنی اہمیت اور قومی حیثیت بھول چکے ہیں، قیادت یہود کی غلام ہے او ر عوام ایسے غلاموں کی غلام ہیں۔
سزا تو بھگتیں گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک قوم اپنی حالت بدلنے کو نہیں سوچتی، قوم اگر آج ماتم کر رہی ہے تو قصور کس کا ہے۔ ہم پاکستانی عوام تو اپنی شیطانی حرکتوں کی سزا بھگت رہے ہیں جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہم پر حکمران مسلط ہیں ہر کوئی اپنی ذات میں مومن ہے، اور ان کی نظر میں دوسرا چور ڈاکو اور لٹیرا ہے، قومی ادارے تماش بین ہیں دیکھ رہے ہیں جانتے بھی ہیں لیکن چاہنے والوں سے وفاداریوں میں قومی اور مذہبی ذمہ داریوں سے بے پروا ہیں نیوٹرل ہیں، اس لئے کہ انہیں کھانے کو وہ ہی مل رہا ہے جو وہ کھانا چاہتے ہیں عوام جائیں بھاڑ میں!
میں اپنے درد کی تفسیر بن کر لکھ رہا ہوں
سسکتے خواب کی تعبیر بن کر لکھ رہا ہوں
مرے خاموش ہونٹوں پر ہزاروں ہیں فسانے
کسی گونگے کی میں تقریر بن کر لکھ رہا ہوں