Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Kaptan Ke Khilaf Qatal Ka Muqadma

Kaptan Ke Khilaf Qatal Ka Muqadma

کپتان کے خلاف قتل کا مقدمہ

جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے، 13 اپریل، 1919 کو واقع ہوا جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔ اس مظاہرے میں بیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جو پنجابیوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔ بیساکھی کے شرکا بیرون شہر سے آئے تھے اور انھیں علم نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔ جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل کے چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے شہر سے پیوست علاقہ بابڑہ جہاں عبدالغفارخان عرف باچا خان کے پیروکاروں کی احتجاجی ریلی پر 12 اگست، 1948 کو فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ریلی میں شریک 600 کے قریب خدائی خدمت گار شہید جبکہ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے یہ لوگ باچا خان کی رہائی کے لئے احتجاج میں شریک تھے۔

لاشوں کی سیاست کے علمبردار دار میاں محمد نواز شریف نے اپنے دورِ وزارت اعلیٰ میں بے نظیر بھٹو کی لاہور آمد پر پنجاب بھر کو سیل کردیا تھا۔ لاہور پہنچنے والے جیالوں پر پنجاب پولیس کی براہ راست فائرنگ سے کئی لاشیں گرائی گئیں، شہیدوں میں لالہ موسیٰ ضلع گجرات کا ایک جیالہ بھی شامل تھا اور میں انار کلی بازار میں پان والی گلی کے سامنے گولی لگنے سے زخمی ہو کر لاہور کے میو ہسپتال پہنچا تو وہاں فائرنگ سے زخمی ہونے والے جیالوں جئے بھٹو کے نعرے آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔

میاں محمد شہباز شریف کے پہلے دورِ وزار ت اعلیٰ کے دور میں ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن کے منہاجیوں پر پنجاب پولیس کی فائرنگ سے خواتین، مردوں اور بچوں کی لاشیں گرائی گئیں تھیں، اگر مقبوضہ پاکستان میں اندھے قانون کی اس وقت آنکھ کھل جاتی تو سانحہ ڈی چوک کو انصافیوں کا قتل گاہ نہ بنایا جاتا، ڈی چوک میں 24، نومبر 2024، کو بابڑہ، جلیاں والاباغ، لاہور کے ماڈل ٹائون میں قتل عام کی تاریخ نہ دھرائی جاتی۔

اڈیالہ جیل میں قید پاکستان کو مدینہ ثانی دیکھنے کا خواب دیکھنے کے جرم میں قیدی نمبر، 804، نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا تھا اور بشریٰ بی بی تحریکِ انصاف کی قیادت اور عوام کے ساتھ ڈی چوک میں موجود تھیں، اس وقت جب روشنیاں بجا دی گئیں اور جانے کتنے پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گل کر دئیے۔ جانے کتنے انصافیوں کو ان کے خون میں نہلا دیا، جانے کتنے معصوم نہتے پاکستانیوں کے وجود چھلنی کر دیئے، لیکن صبح کے غمگین اجالے میں تختِ اسلام آباد کے باشندوں نے سڑک پر بہایا گیا خون تو دیکھا مگر انہیں کوئی لاش کوئی زخمی نظر نہیں آیا، ڈی چوک کے مقتل میں روشنی کے چراغ اس لئے بجھا دئے گئے تھے کہ کوئی زندہ ضمیر صحافی نہتے پاکستانیوں پر بربریت کی کوئی تصویر، کوئی وڈیو نہ بنا سکے۔

سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو زندہ جلانے کے لئے ان کے کنٹینر کو آگ لگائی گئی، بی بی کو بچانے کے لئے دوسری گاڑی میں لے جایا گیا تو گاڑی پر کیمیکل پھینکا گیا انھیں دوسری گاڑی بھی تبدیل کرنا پڑی، اس ظلم اور بربریت کے باوجود پاکستان کے قلم فروش اور ایمان فروش تماشائی ہیں، ضمیر فروش مردہ ضمیر پاکستانیوں کی خاموشی کی وجہ سے اب ظلم و بربریت کی ایک اور تاریخ لکھے جانے کا منصوبہ ہے ایک اور تاریخ دھرائے جانے کی تیاری ہے۔

پاکستان کے عوامی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1974 میں احمد رضا خان قصوری کے قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا FIR سیل کر دی گئی تھی اور اس ناکردہ جرم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت دی گئی تھی!

50 سال بعد 2024 میں اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے خلا ف رمنا پولیس اسٹیشن میں پی ٹی آئی احتجاج کے دوران سری نگر ہائی وے پر تیز رفتار نامعلوم ڈرائیور کے رینجرز اہلکاروں پر لینڈکروزر چڑھانے تین اہلکاروں کو کچل کر مارنے اور دو کو زخمی کرنے کے جرم میں دفعہ 302 (قتل)، دفعہ 324 (قتل کی کوشش) اور دہشت گردی کے الزامات سمیت سیکشن 120 بی (مجرمانہ سازش کرنے) جیسی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے۔

عمران خان کے خلاف قتل اور اقدام قتل کے درج مقدمات کے بعد پاکستانی قوم کو یقین کر لینا چاہیے کہ عمران خان کی جیل سے رہائی اب دیوانے کا خواب ہے، اس لئے کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں، عدالتیں، بیورو کریسی اور ان کے درباری عمران خان کے عالمی شخصی وقار سے خوف زدہ ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے، میں پاکستانی ہوں، پاکستان پر اپنا خاندان قربان کر دوں گا، پاکستان میں رہوں گا پاکستان میں مروں گا اور پاکستان میں دفن ہوں گا۔ لیکن غلامی قبول نہیں کروں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جو کہا تھا کرکے دکھایا اور آج بھٹو ہی کے نقشِ قدم پر عمران خان وہ ہی کچھ کہہ رہا ہے جو شہید بھٹو نے کہا تھا، اس لئے عمران خان کا انجام بھٹو سے مختلف ہوتا نظر نہیں آرہا!

پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں 14 مقدمات کے درج ہونے کے بعد اسلام آباد میں درج مقدمات کی کل تعداد 76 ہوگئی ہے۔ 24 نومبر سے قبل عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج 62 مقدمات کی تفصیلات پہلے ہی عدالت میں جمع کروائی جاچکی ہے۔

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi