Jin Pe Takiya Tha Wohi Patte Hawa Dene Lage
جن پہ تکیہ تھا و ہی پتے ہوا دینے لگے
بد قسمتی سے پاکستانی عوام نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنے دماغ سے اپنی شخصیت، اپنے قومی اور مذہبی وقار، کردار اور مقام کو نہیں سوچا، ہمارے لئے وہ ہی حرف آخر ہے جو ہمیں ہمار ی مسجد کا امام اور سیاسی پیر کہتا ہے اگر وہ کہے کہ تمہارا کان وہ کتا لے گیا ہے تو ہم اپنا کان نہیں دیکھیں گے کتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ہم اپنے بد صورت گزشتہ کل کو بھول جاتے ہیں اور گذشتہ کل سے بد صورت آج پر ماتم کرتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں نے خوبصورت پاکستان نہیں دیکھا تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہم نے کھبی بھی نہیں سوچا کہ وہ کم بخت ہمارے قومی اور مذہبی احساسات اور جذبات سے کھیل رہے ہیں جن کے سر پر ہم نے کسی غلط فہمی یا کسی خوش فیمی میں سرداری کا تاج رکھا ہے لیکن جس دن ہم نے اپنے دل کو سنا، اپنے دماغ سے اپنے ضمیر کو سوچا تو ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا اور جس دن ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ دن ہمارے خوبصورت مستقبل کا آ غازہو گا!
پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے لیکن ہم اپنے خوبصورت دیس میں یہود و ہنود کے غلاموں کے غلام ہیں، پسینہ اپنا بہاتے ہیں گیت ان کے گاتے ہیں جن کی نظر میں ہم انسان نہیں صرف غریب ہیں۔ وہ ہمارے نام پر دنیا بھر سے بھیک مانگتے ہیں اور ہمارے نام کی کمائی سے خود مرغن کھاتے ہیں اور ہمیں پانی والی دال بھی نصیب نہیں ہوتی پھر بھی انہی کے گیت گاتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں اس کو قرآن اور حدیث سمجھتے ہیں۔
ہمارے اس پاگل پن کی وجہ دیس دشمن ہمیں بد حال رکھے ہوئے ہیں! کیا ہم نے کھبی تنہائی میں سوچا ہے کہ امریکی غلام اور ان کی درباری میڈیا جس عمران خان کی کردار کشی کو اپنی عبادت سمجھ بیٹھے ہیں اس عمران خان کا قصور کیا ہے؟ کس جرم کے پاداش میں اسے تخت ِ اقتدار سے گر ا کر کس بد قماش مجرموں حکمران بنا کر قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔
کسی افریقی دیس کے کسی لیڈر کی یہ بات ہم جا نتے ہیں لیکن اس حقیقت کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام چور اور سیاسی چور میں فرق ہوتا ہے۔ عام چور تمہاری رقم، تمہارا بیگ، تمہاری گھڑی اور تمہارا زیور چوری کرتا ہے جب کہ سیاسی چور تمہارا مستقبل، تمہارا قومی کردار، تمہاری تعلیم تمہاری صحت اور تمہارا کاروبار چراتا ہے عجیب بات تو یہ ہے کہ عام چور سوچے گا کہ کس کو لوٹنا ہے لیکن آپ وہ لوگ ہیں جو سیاسی چور خود چنتے ہیں ان کو ووٹ دیتے ہیں ان کا انتخاب کرتے ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں لوٹیں۔ اگر ہم آنکھیں بند کر کے یہ کہتے ہیں کہ ہم اندھے نہیں تو کس کو دھوکہ دیتے ہیں۔
کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے، خود کو دھوکہ دیتے ہیں، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ عام چور سے ہم اپنا سامان بچانے کے لئے لڑتے ہیں لیکن سیاسی چور کی حفاظت اور اسے بچانے کے لئے آپس میں لڑتے ہیں، کیا ہم ایسا نہیں کرتے؟ کیا سیاسی چور کھبی ہماری حفاظت کے لئے لڑیں گے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاسی چوروں کی حفاظت کے لئے ہم اپنے خو نی رشتوں تک سے لڑ رہے ہیں؟ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم عوام غلطی پر ہیں ہم دین اور دیس سے محبت کرنے والی قیادت کو پسند نہیں کرتے!
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کا قصور صرف انتا ہی ہے کہ وہ آزاد پاکستان اور خود مختار خارجہ پالیسی چاہتا ہے، ہم نے کھبی نہیں سوچا اور نہ سوچیں گے۔ آج ہمیں کہا جا رہا ہے کہ سب کچھ افواج پاکستان کا کیا دھرا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس میں کہاں تک حقیقت ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ اگر ساڑھے تین سال عمران خان نے حکمرانی کی تو اس کی پشت پر اسی خلائی فوج کا ہاتھ تھا لیکن اس عمران نیاز ی اور خلائی مخلوق کے خلاف یہود وہنود کے غلاموں کے ساتھ ان کے بریانی خور ذہنی غلام سڑکوں پر نکل آئے تو خلائی مخلوق نے کہا ہم نیو ٹرل ہیں، لڑو اور مرو! لیکن ان کے نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان کی آنکھیں اور کان بھی بند ہو گئے ہیں وہ سب کچھ دیکھ بھی رہے ہیں ا ور سن بھی رہے ہیں۔ وہ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کا رگڑ کھا کر مرتے ہیں تو انہیں زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان نیازی ایک دلیر قائد، دین مصطفی کا علم بردار اور پاکستان کا وفادار ہے، اس لئے آج قومی سرحدوں پر زندگی کے خوبصورت سال گذانے والے ریٹائرڈ فوجی افسران بھی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سوال کر رہے ہیں کہ تم نے تو ملک میں سیاسی تبدیلی کے بعد ہم سے خصوصی ملاقات میں بڑے واضح الفاظ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ قومی حالات کے پیشِ نظر انہیں مشکل فیصلے کا ساتھ دینا پڑا لیکن حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے ملک میں نوے دن کے اندر انتخابات کرا دیں گے کیا ہوا تیرا وعدہ؟
پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے کسی سے کبھی بھی تین مہینے یا کسی اور مدت میں الیکشن کروانے کا وعدہ نہیں کیا اور نہ ہی اس طرح کی گفتگو کی گئی جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے قبر کی دہلیز پر بیٹھا ہوا ایک سابق فوج افسر اتنابڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے حیران ہوں کہ سابق فوجی جھوٹ بول رہے ہیں یا حاضر سروس فوجی جھوٹ بول رہا ہے۔
مولانا رومی کا قول ہے، اگر آنکھ کی بینائی ختم ہو جائے تو انسان رات اور دم میں تمیز نہیں کر سکتا لیکن اگر دل اندھا ہو جائے تو انسان حق اور باطل میں تمیز نہیں کر سکتا ایسے حالات میں لوگوں کے ذہن مفلوج ہو جاتے ہیں او ر ذہنی بت ہر کوئی نہیں توڑ سکتا۔
آج ہم پاکستانی ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہیں در اصل ہم دل کے اندھے ہیں حق اور باطل میں تمیز نہیں کرتے اس لئے ہمارا خدا بھی ہم سے ناراض ہے۔ میں تو بس اتنا کہوں گا بلکہ میرا قلم مجھے کہہ رہا ہے، جن پہ تکیہ تھا وہ ہی پتے ہوا دینے لگے!