Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Jashan e Milad Un Nabi, Kyun Aur Kaise?

Jashan e Milad Un Nabi, Kyun Aur Kaise?

جشن میلاد النبی، کیوں اور کیسے؟

جشنِ میلاد النبیؐ خوشبوؤں اور روحانی مسرتوں کا دن ہے، دن ہے مسرتوں کا یہ مہکتا دن، ہم مسلمان ہر سال سرور کا ئنات کی ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ ماہِ ربیع الاول اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ ویسے تو میلاد النبیؐ اور محافلِ نعت کا انعقاد تو پورا سال ہی جاری رہتا ہے، لیکن خاص ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبیؐ کا جشن پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔

یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبیؐ اور نعت خوانی (مدحِ ﷺ) کی محافل شروع ہو جاتی ہیں۔ ان محافل میں علماے کرام آنحضرت ﷺ کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعرا اور ثناء خوانِ رسول آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔

جشن میلاد النبیؐ اکثر اسلامی ممالک میں احترام اور اہتمام سے منایا جاتا ہے اور لیکن ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی حکمرانی تو نہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جیسے بھارت، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور روس، عرب امارات میں بھی جشن میلاد کی محفلیں جمتی ہیں۔ 12 ربیع الاول کو روزہ بھی رکھا جاتا ہے، احادیث میں آیا ہے کہ سرور کا ئنات اپنی ولادت پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔

ماہ ربیع الاول میں یکم ربیع الاول سے 11 ربیع الاول تک مساجد اور گھروں میں محافل نعت کا اہتمام ہوتا ہے، سرورِ کائنات کی شان میں نعت خوانی کے ساتھ مبلغین اسلام دین مصطفیٰؐ شان و عظمت پر سیر حاصل اظہار خیال میں شان مصطفیٰؐ بیان کرتے ہیں اور ان محافل میں عاشقان مصطفیٰؐ کا جوش و خروش اور 12ربیع الاول کی شب کو چراغان کے مناظر قابلِ دید ہوتے ہیں۔

پاکستان اور کئی ممالک میں خاص کر بھارت، ملائشیا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ میں عوامی جلوس نکالے جاتے ہیں، سڑکوں، چوراہوں کو سجایا جاتا ہے، جگہ جگہ مشروبات کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، لنگر عام کا اہتمام ہوتا ہے، ممتاز علماء کرام ان جلوسوں میں عام طور پر معجزات نبویؐ، ولادت نبویؐ، میلاد بطور نعمت کے تشکر جیسے موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ نعت خواں پارٹیاں ٹولیوں کی صورت میں سرور کائنات کے حضور نذرانہ نعت پیش کرتے ہیں گھروں میں محافل میلاد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

مؤرخین کے مطابق محافل میلاد کے انعقاد اور محافلِ میلاد کی ابتداء کا یہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوا ہے۔ امام سخاوی فرماتے ہیں کہ میلاد منانے کا رواج تین صدی بعد ہوا ہے اور اس کے بعد سے تمام ممالک میں مسلمان عید میلاد النبیؐ مناتے چلے آ رہے ہیں۔ ملک معظم مظفر الدین ابن زین العابدین وہ پہلا شخص ہے، جس نے پہلی بار میلاد کا اہتمام کیا تھا۔

ابن خلکان نے ملک مظفر شاہ اربل کے حال میں لکھا ہے کہ اس دور میں وہ میلاد شریف بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منایا کرتے تھے، یہ صلیبی جنگوں کا دور تھا۔ اس کے لیے ابن وحیہ نے التنویر فءمولد السراج المنین لکھی تھی اور بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا تھا، وہ مشاہیر فضلاء میں سے تھا۔

جلال الدین سیوطی کے شاگرد، محمد بن علی یوسف دمشقی شامی نے سیرت شامی میں لکھا ہے، کہ سب سے پہلے محفل میلاد کا اہتمام عمر بن محمد موصلی نے کیا تھا جو ایک نیک آدمی مشہور مومن تھے اور ان کی پیروی سلطان اربل نے کی مگر حسن مثنیٰ کی تحقیق کے مطابق سلطان اربل سے بھی پہلے سرکاری مجلسِ میلاد شاہ سلجوقی نے منائی۔ سلطان ملک شاہ سلجوقی نے ایک مجلس مولود دھوم دھام سے بغداد میں منعقد کی۔ اس کا چرچا ہوا کیونکہ یہ سرکاری طور پر تھی اس لیے اس کا تذکرہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا، (بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ خاتم النبین ﷺ تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر ربّ تعالیٰ نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشاد ہوا، (اے حبیب!) تم فرماؤ (یہ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت (سے ہے) اور اسے چاہیے کہ خوشی کریں، وہ (خوشی منانا) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے) اور اپنے ربّ کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

مطلب یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دن یاد دلانا ہے، اس کی نعمت عظمیٰ کا چرچا کرنا اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی ہے۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ذکر میلاد مصطفےٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے۔ مذہبی تاریخ میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ سورہ آل عمران میں ربّ ذوالجلال نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب ﷺ کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا۔

معراج مصطفیٰؐ گویا سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالیٰ جو اللہ تعالیٰ کے حضور منائی گئی۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیا کرامؑ تھے۔ حضور ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔ رسول معظم ﷺ کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر موجود ہے۔ محمد مصطفیٰؐ نے خود مسجد نبویؐ میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔

آپ نے حضرت حسانؓ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ حضرت عباسؓ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے حضرات کعب بن زبیر، سواد بن قارب، عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام (ؓم) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

صدر الافاضل فرماتے ہیں، (یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں، اس کی تعظیم کریں، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجا لائیں۔ اس سے معلوم ہوا جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو۔ اس دن کو عید منانا اور خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے۔ اس لیے حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الٰہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)۔

حضرت ابن عباسؓ نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) تلاوت فرمائی تو ایک یہودی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب نبی حضرت عیسیٰؑ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔

چونکہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ حضور ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولیٰ عید قرار پایا۔ روایات میں موجود ہے کہ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں، (جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہو گئی) اس لئے شمع رسالت کے پروانے عید میلاد ﷺ کی خوشی میں اپنے گھروں اور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں۔

خالق کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی والدہ فرماتی ہیں، (جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہو گیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آ گئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں)۔

سیدنا آمنہؓ فرماتی ہیں، (میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا)۔ اس سے میلاد النبیؐ ﷺ کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولیٰ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے یا محمد یا رسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ۔ (ﷺ) بحوالہ (آزاد دائرة المعارف، ویکسپیڈیا)۔

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti