Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Imran Khan Se Khofzada Magrabi Darbari

Imran Khan Se Khofzada Magrabi Darbari

عمران خان سے خوفزدہ مغربی درباری

آج اگر قومی عظمت، قومی وقار، اور دنیائے عام میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاستِ مدینہ کی بات کریں گے، اگر حق اور صداقت کی آواز بلند کریں گے، تو غدار ہوں گے قومی مجرم ہوں گے، گرفتار ہوں گے، عدالت لگے گی، ریمانڈ دیا جائے گا، گرفتار ہونے والا ذہنی اور جسمانی اذیت خود پر تو برداشت کر لے گا لیکن جب بات خاندانی وقار کی آئے، ماں، بہن، بیٹی کی عزت اچھالے جانے تک کی نوبت آئے تو کوئی بھی غیر ت مند نہیں چا ہے گا، کہ وہ سچائی کا ساتھ دے۔

وہ جان جائے گا کہ میں ان کے زیر حراست ہوں جن کی نہ اپنی کوئی عزت ہے اور نہ کسی کی عزت کی پرواہ کرتے ہیں، تب مجبوری ہوگی، اسے اپنی سوچ، اپنے نظریات کی قربانی دینا پڑے گی، پریس کانفرنس ہوگی، یا جیو کے ملازم، بد زبان شاہ زیب خانزادہ کو انٹرویو دے گا تو پھر وہ نہ قومی غدار ہوگا، نہ قومی مجرم ہوگا وہ گنگا نہا لے گا اور معاشرے میں وہ، لوٹا، مشہور ہو جائے گا لیکن دنیا کو یہ نہیں بتائے گا کہ میں کس قدر مجبور تھا، لیکن کپتان کو سیرت و کردار میں چاہنے والے ایسے قوم پرست ہیں جو اپنے دیس میں بالشت بھر اپنی زمین پر کھڑے ہوکر وطن دوستی کے گیت گا رہے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ جو غوطہ خور مگر مچھ سے ڈرے گا تو موتیوں سے دامن کیسے بھرے گا۔

کپتان کے چاہنے والے ممتاز دانشور انور مقصود کہتے ہیں، عمران خان کی مقبولیت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا، وہ مقبول تو ہیں، لیکن اگر خان کو سزا ہوگی تو آنے والے کل کو منڈیلا بن جائے گا۔ اگر ملک سے باہر نکال دیا تو خمینی بن کر واپس آئے گا، اس لئے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی نوجوان ہیں، اور عمران خان نوجوانوں کے ہیرو ہیں۔ اس وقت کے حالات پی ٹی آئی کے ہیں، اس سے ظاہر ہے، عمران خان ہوں یا نہ ہوں ووٹ عمران خان کا ہے، ایماندار ہونا اچھی بات ہے، لیکن جان لو جیسا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر سکتی ہے ایسے ہیں ایک ایماندار پورے ملک کو بے ایمان بھی کر سکتا ہے، اس لئے کہ اس ملک میں سب کے بچوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر پڑھنا ہے، چاہے وہ فوج کے بچے ہوں، جوڈیشری کے ہوں یا بیورو کریٹ کے، ان کا علاج باہر کے ملکوں میں ہونا ہے، انہیں بڑے بڑے گھر، بڑی بڑی گاڑیاں ایک گارڈ چاہیے، جانتے ہیں، یہ سب کچھ ایمانداری میں نہیں ہو سکتا، بے ایمانی میں ہو سکتا ہے۔

ہر پاکستانی انور مقصود کی سوچ سے اتفاق کرتا ہے اس لئے کہ جو تماشہ اب تک لگا رہا، اس کا اختتام بھی تو ہونا ہے، اور اختتام الیکشن کمیشن کرنے جا رہا ہے فروری میں انتخابات کا اعلان ہے لیکن، مسلم لیگ ن کے علاوہ کسی کو یقین نہیں آرہا ہے، فلحال تو وکٹ پر کام جاری ہے، پاکستان میں قومی سطح کی چار جماعتیں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی۔ ایم کیو ایم، سندھ میں کراچی تک محدود ہے۔ باپ پارٹی بلوچستان کی پہچان ہے، مسلم لیگ ق، ضلع گجرات میں زندہ ہے اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت خیبر پختو ن خواہ میں مذہبی حوالے سے کسی حد تک مقبول ہے جبکہ باقی سب تانگہ پارٹیاں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی نورا کشتی، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے 2018، تک ہم پاکستانیوں نے دیکھی۔ ان کی حکمرانی میں پاکستان دنیا کی آنکھ سے گر گیا، ہر کوئی جانتا ہے لیکن اگر نہیں جانتا تو پاکستان کا نظام عدل نہیں جانتا، جس کے درواز ے یہودی دربار یوں کے قدموں کی آواز سن کر رات بارہ بجے کھل جاتے ہیں۔

جہاں تک جماعت اسلامی کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان کی واحد منظم جماعت ہے لیکن اس کا طواف الخدمت فاونڈیشن کے گرد ہے، ان کی آواز نظریہ ضرورت کی محتاج ہے۔

آج نگران حکومت کی آڑ میں سلمانی ٹوپی پہنے مارشل لاءکی حکمرانی ہے دیس میں کیا ہورہا ہے ہر کوئی جانتا ہے، لیکن ہر باشعور خا موش ہے، بول رہا ہے تو سرکار کا میڈیا، یا قلم اور زبان فروش بول رہا ہے، مین سکرین میڈیا پر کپتان کا نام لینا بھی جرم ہے، اور سوشل میڈیا کے ساتھ عالمی میڈیا تحریک انصاف کے گیت گا رہی ہے، تحریک انصاف کو عام انتخابات سے دور رکھنے کے لئے مغربی درباریوں کا آخری حربہ۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر ثابت کر دیا کہ مغرب پرست عمران خان سے کس قدر خوف زدہ ہیں۔

ظلم و بربریت کے اس دور میں کھیلے جانے والے کھیل کا بنیادی مقصد تحریک انصاف سے نجات ہے اس لئے کہ قومی سطح پر تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک واحد قومی جماعت ہے، جس کا خاموش ووٹ بنک ان کو پریشان کئے ہوئے ہے جنہوں نے تحریکِ انصاف کو تخت اسلام آباد سے گرایا ہے، وہ جانتے کہ اگر تحریکِ انصاف بر سر اقتدار آگئی تو ان سب کا بینڈ بجا دے گی جو ان کے درباری ہیں جو پاکستان کو آزاد اور خود مختار نہیں دیکھنا چاہتے!

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari